یہ ہے دہلی کے گیتا گھاٹ پرواقع امن رکوری شیلٹر ہوم۔ اس کی نیلی دیواروں پر ایسبسٹر کی چادر تنی ہوئی ہے۔ یہ جون کی شدید گرمیںآگ کے گولے جیسی گرم ہوا جاتی ہے۔ پنکھے بھی اطمینان کم اور گرم ہوا زیادہ دیتے ہیں۔ ایسے حالات میں ایک چہرہ دوڑ دوڑ کر سب کی ضرورتوں کو پورا کررہا ہوتا ہے۔ اس چہرہ کا نام ہے محمد انعام۔ وہ رکوری کا انچارج ہیں۔انعام بتاتے ہیں کہ یہ پہلی عید ہوگی، جس میں وہ گھر سے دور ہیں۔ حالانکہ انہیں اس کا ملال کم، سکون زیادہ ہے کہ وہ ضرورت مندوں کے کام آرہے ہیں۔ رمضان کی کچھ یادیں بھی ذہن میں ہیں۔ امی کے ہاتھوں کا کھانہ اورعیدی انہیں یادوں کا حصہ ہے۔آدھی رات میں سہری کے لئے امی ٹیر لگاتی۔ ہم بچے ا?نکھے بند کئے کئے ہی چھوٹے بڑے نوالے منہ میں رکھنے لگتے۔ تب امی پیار سے خود ہی کھلاتی۔ہم اچھے سے کھا کر پھر سو جاتے، بغیر یہ دیکھے کہ امی نے کچھ کھایا بھی یا نہیں۔تاہم سب سے عیدی کی فرمائش کرتا۔ سال بھر جن چیزوں کا انتظار رہتا، عید پر وہ سب کچھ مل جاتا۔ امی کے گزرنے کے بعد حالات بدلنے لگے۔ تقریباََ 7 سال قبل روزگار ڑھونڈنے کے لئے میں دہلی آیا۔ ریکوری ہوم شیلٹر میں کام ملا۔ شروعات میں تو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ بے گھروں کو ڑھونڈ ڑھونڈ کر شیلٹر ہوم میں لانا۔ بیماروں کا علاج کروانا۔ یہ بھی کیا کوئی کام ہے۔لیکن دھیرے دھرے میرے خیالات بدلنے شروع ہونے لگے۔ دہلی جیسے بڑے شہر میں جتنے لوگ گھروں کے اندر ہیں، شائد اتنے یا اس سے کہیں زیادہ بے گھر ہیں۔ سڑکوں پر، پٹری پر، فلائی اور پر یہاں ہر کہیں لوگ رہتے ہیں۔ بڑے بڑے بنگلے سالوں سال خالی رہتے ہیں۔بے گھروں کے لئے آزادی بھی کسی بد دعا سے کم نہیں۔ ان کے آس پاس کوئی چاردیواری نہیں ہے۔ کوئی چھت نہیں ہے۔ ہر موسم کھل کر برستا ہے۔ سخت سردی سے لے کر شدید گرمی تک۔ سڑکوں پر سوئے تو رات بھر گاڑیوں کی آوازیں ، روشنی اور مچر نیندخراب کرتے ہیں۔ ایک بار ایک بزرگ سے ملا وہ اپنے گھر کا راستہ بھول چکے تھے ، دہلی میں ریل پٹری پر رہ رہے تھے۔ ایسے کتنے ہی لوگ رہتے ہیں۔عید پر گاوں نہیں تو کیا، شیلٹر ہوم تو ہے ۔اس روز کے لئے کئی تیاریاں کر چکا ہوں۔ گاوں میں فون کر کے سیوئی کی ریسیپی پوچھی۔ باورچی کو خاص ہدایت دی تاکہ وہ اسے تریقہ سے میٹھی سیوئی پکا سکے۔ میرے گھر نہ جانے کی بات پر شیلٹرکے سارے لوگ بہت خوش ہوئے۔ ان کے چہرہ پر چھائا اطمینان اور سکون ہی میں عیدی ہے۔