پیر محمد عامر قریشی
رمضان رحمتوں کا مہینہ ہے، مہینوں کا تاج، جب آسمان زمین کے قریب محسوس ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک اس کی آمد فضا میں ایک واضح تبدیلی لے کر آتی تھی ۔خوشی اور عقیدت، امید اور خود احتسابی کا امتزاج۔ اس کے قریب آتے ہی بے خبر دل بھی بیدار ہو جاتے۔ اس کی آمد سے ایک ہفتہ پہلے ہی ماحول بدلنے لگتا: گلیاں سنسان ہو جاتیں، دل نرم پڑ جاتے اور گناہوں میں اُلجھے ہوئے لوگ بھی اللہ کی نگاہ کے بوجھ کو محسوس کر کے توبہ کی تمنا کرنے لگتے۔
ان دنوں، ہر مسلمان ،چاہے وہ دین سے کتنا ہی دور کیوں نہ ہو،خلوصِ نیت سے عہد کرتا: ’’مجھے اپنے برے اعمال چھوڑنے ہیں، مجھے ان سے باز رہنا ہے۔ فلمیں دیکھنا، موسیقی سننا، بدزبانی کرنا اور دوسروں کا استحصال کرنا،یہ سب چھوڑ دیا جاتا، چاہے صرف اس مقدس مہینے کے لیے ہی سہی۔ فضا میں ایک الہامی اضطرار ہوتا، ایک دعوت کہ اپنے آپ کو پاک کریں، توبہ کریں اور بلندی کی طرف بڑھیں۔
لیکن آج، میں ارد گرد دیکھتا ہوں تو ایک تکلیف دہ حقیقت سامنے آتی ہے: وہ رمضان، وہ مقدس تبدیلی، ماند پڑ چکی ہے۔ مساجد بھری ہوئی ہیں، گلیاں قرآنی تلاوت سے گونج رہی ہیں، مگر دل وہی کے وہی ہیں۔ رمضان کی اصل روح—خود نظم و ضبط اور روحانی محاسبے کی دعوت ہماری توجہ کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔
کیا ہم نے غور و فکر کو رسومات سے بدل دیا ہے؟
ہم سحری سے افطار تک روزہ رکھتے ہیں، کھانے پینے سے پرہیز کرتے ہیں، مگر جھوٹ، غیبت اور لالچ میں مبتلا رہتے ہیں۔ ہم نماز میں سجدہ ریز ہوتے ہیں، مگر ہمارے خیالات سوشل میڈیا کی اسکرولنگ، تفریح کی عارضی کشش، اور دنیاوی مصروفیات میں الجھے رہتے ہیں۔ کیا ہم نے رمضان کو محض بھوک اور پیاس کے دائرے میں محدود کر دیا ہے، یا پھر ہم نے اس کو ایک حقیقی روحانی تجدید کا ذریعہ بنایا ہے؟ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’بے شک، اللہ تمہاری شکل و صورت اور مال و دولت کو نہیں دیکھتا، بلکہ وہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔‘‘ (مسلم) ۔اگر ہم نماز میں کھڑے ہیں مگر ہمارے خیالات کہیں اور ہیں، اگر ہم قرآن کی تلاوت کرتے ہیں مگر اس کا مفہوم نہیں سمجھتے، اگر ہم خیرات دیتے ہیں مگر دوسروں کا استحصال بھی کرتے ہیںتو پھر اس رمضان میں کیا باقی رہا؟ نبی کریمؐ نے خبردار کیا: ’’جو شخص جھوٹ بولنا اور برے کام چھوڑ نہیں سکتا، تو اللہ کو اس کے بھوکا اور پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ (بخاری) ۔یہ حدیث آج ہمارے حالات کی ترجمانی کرتی ہے،ظاہری طور پر رمضان کا احترام، مگر اس کی اصل روح سے غفلت۔
کیا ہم واقعی رمضان کی روح کو زندہ کر رہے ہیں؟
رمضان کا مقصد تبدیلی تھا، مگر ہمیں خود سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا ہم نے واقعی اس کے جوہر کو اپنایا ہے؟ کیا ہم نے اس مہینے کے مطالبات ،رحمت، عاجزی اور سخاوت،کو اپنی زندگیوں میں شامل کیا ہے؟ کیا ہمارے روزے ہمیں تقویٰ کے قریب کر رہے ہیں، یا یہ محض جسمانی مشق بن کر رہ گئے ہیں؟ کیا ہماری نمازیں خلوص اور عقیدت کا اظہار ہیں، یا محض رسم و رواج کا حصہ؟ رمضان صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں بلکہ دل کو پاک کرنے کا نام ہے۔ اس کا مقصد ہمارے کردار کو سنوارنا اور ہمارے ایمان کو بلند کرنا ہے۔ مگر اگر ہمارے اعمال نہیں بدلے، اگر ہمارے دل نہیں بدلے، تو پھر اس مبارک مہینے سے ہمیں کیا حاصل ہوا؟
نفع کا رمضان یا تقویٰ کا رمضان؟
جب رمضان کا چاند نظر آتا ہے، تو کشمیر میں ایک اور سایہ چھا جاتا ہے،استحصال کا سایہ۔ یہ مقدس مہینہ، جو روحانی غور و فکر اور باہمی ہمدردی کا وقت ہونا چاہیے، اب ایک تلخ حقیقت میں بدل چکا ہے، روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ۔ پپیتا، تربوز، کیلے،خوشحالی اور خوشی کی علامتیں،اب لالچ کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں، ان کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر جا رہی ہیں۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ رمضان میں،جب سخاوت کو فروغ پانا چاہیے،تاجر قیمتیں بڑھا دیتے ہیں بجائے اس کے کہ بوجھ کم کریں؟ وہی دکاندار جو روزہ رکھتے ہیں، وہی لوگ جو نماز میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، وہی ہم پر ظلم کیوں کرتے ہیں؟ دیگر تہواروں میں کاروباری ادارے رعایتیں اور آفرز متعارف کراتے ہیں تاکہ سب لوگ خوشیاں منا سکیں۔ مگر رمضان میںجب ایثار اپنی بلندی پر ہونا چاہیے،ہمیں اس کے برعکس دیکھنے کو ملتا ہے۔ کیا یہی وراثت ہم چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں؟ کہ ایک ایسا مہینہ جو دینے کے لیے تھا، ہم نے اسے لینے میں بدل دیا؟ ایک ایسا وقت جو رحمت کا تھا، ہم نے اسے بے رحمی میں بدل دیا؟
علامہ اقبال کے الفاظ آج بھی گونجتے ہیں؎
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
ہم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر
آج کے دور میں یہ الفاظ کس قدر سچ ثابت ہوتے ہیں! وہ اقدار جو ہمیں نمایاں کرنی چاہئیں،انصاف، ہمدردی، اور ایثار،لالچ اور بے حسی میں دب چکی ہیں۔
رمضان کی اصل روح کو بحال کرنا : رمضان صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں۔ یہ لالچ، استحصال اور ناانصافی سے رکنے کا نام ہے۔ یہ کمزوروں کو یاد رکھنے، اپنی نعمتیں بانٹنے اور اللہ کی رحمت کو اپنی زندگیوں میں سمو لینے کا نام ہے۔ مگر ہم کیا دیکھ رہے ہیں؟ ایک ایسی منڈی جہاں امیر اور امیر ہو رہے ہیں، اور غریب مزید پس رہا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں رمضان کی روح مادی لالچ کے نیچے دب چکی ہے۔ یہ وہ رمضان نہیں جو ہمارا دین ہمیں سکھاتا ہے۔ یہ وہ رمضان نہیں جو ہمارے نبیؐ نے ہمیں سکھایا۔ یہ وہ رمضان نہیں جو ہمیں اللہ کے قریب لے جائے۔ آخر کب تک ہم اس ناانصافی کو برداشت کرتے رہیں گے؟ کب تک ہم خاموش رہیں گے جب کہ رمضان کی روح کو پامال کیا جا رہا ہے؟ کب تک ہم لالچ کو تقویٰ پر اور منافع کو عبادت پر فوقیت دیتے رہیں گے؟
وقت آ گیا ہے کہ ہم رمضان کی اصل روح کو دوبارہ زندہ کریں۔ ان لوگوں کو جوابدہ بنائیں جو کمزوروں کا استحصال کرتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ روزہ صرف بھوک سہنے کا نام نہیں، بلکہ بھوکوں کو کھلانے کا نام ہے۔ دوسروں کے بوجھ ہلکے کرنے کا نام ہے۔ اللہ کی رحمت کو ہر قول و فعل میں اپنانے کا نام ہے۔ ہمیں ایسے لوگ نہیں بننا جو قرآن کا زبانی احترام کرتے ہیں مگر اپنے اعمال سے اسے جھٹلاتے ہیں۔ ہمیں وہ لوگ بننا ہے جو قرآن کو اپنے کردار میں اپناتے ہیں۔
نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’سب سے بہترین صدقہ وہ ہے جو رمضان میں دیا جائے۔‘‘(ترمذی) ۔ہمیں اسی روح کو اپنانا ہوگا،نہ صرف اپنے عطیات میں، بلکہ اپنی ہر حرکت میں۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ رمضان غور و فکر، توبہ، اور تجدید کا وقت ہے۔ یہ اللہ سے جڑنے، اپنے دلوں اور زندگیوں کو درست کرنے اور اپنی خامیوں پر قابو پانے کا وقت ہے۔
یہ رمضان ضائع نہ ہونے دیں۔ایک اور موقع، ایک اور سال جو صرف رسومات میں گزر جائے۔ اسے حقیقی تبدیلی، رحمت اور فضل کا مہینہ بنائیں۔ ایسا رمضان بنائیں جو قرآن کی عزت کرے، ہمارے ایمان کی عکاسی کرے، اور ہماری انسانیت کو سربلند کرے۔
(مضمون نگار گاندربل سے تعلق رکھنے والے کالم نگار اور فیچر رائٹر ہیں )