سرفراز احمد ٹھکر
ملک بھر میں نظامِ تعلیم میں بہتری لانے کے لئے اگرچہ مرکزی سرکار نے بہت سی اسکیمیں عمل میں لائیں اور بہت سے ایسے منصوبے بنائے، جن سے معیاری تعلیم کو فروغ مل سکے۔ اِن اسکیموں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئےبہت سی ریاستوں نے اپنے تعلیمی نظام کو کافی حد تک بہتر بنایا۔ مرکز کی شعبہ تعلیم کے لیے متعارف کردہ اسکیموں میں سے ہی 2009 میں لائی گئی ایک اسکیم ’’راشٹریہ مادھیمک شکشا ابھیان‘‘(رمسا) بھی ہے۔ جس کا بنیادی مقصد تعلیم کے معیار کومزید بہتر بنانا تھا۔ یوٹی جموں و کشمیر میں بھی رمسا اسکیم بڑی ہی اُمیدوں کے ساتھ شروع کی گئی۔ اس اسکیم میں یہاں بہت سارے اسکولوں کا درجہ بھی بڑھایا گیا اور اضافی عملہ بھی تعینات کیا گیا۔ سال 2014 میں جموں و کشمیر میں رمسا اسکیم کے تحت 110 مڈل اسکولوں کا درجہ بڑھا کر ہائی اسکول کیا گیا اور ان 110 ہائی اسکولوں کے لیے 2017 میں ایک اشتہار نکالا گیا ،جس کے مطابق ان اسکولوں میں مضامین مخصوص اساتذہ کو تعینات کیا گیا۔ 110 ہائی اسکولوں میں 550 اساتذہ کی تقرری کے عمل کو پورا ایک سال لگا۔
پہلے اِن اساتذہ کی تقرری کے لئے بنیادی قابلیت اپنے مخصوص مضمون میں ماسٹر اور ساتھ میں بی ایڈ بھی لازمی تھی، نہ صرف ایم اے بی ایڈ بلکہ بہت سارے اساتذہ ایم فل، پی ایچ ڈی، نیٹ، سیٹ وغیرہ بھی تھے۔ ان اساتذہ کا ریاستی سطح کا اسکریننگ امتحان بھی لیا گیا، اس کے علاوہ گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن وغیرہ میں بھی میرٹ چیک کیا گیا۔ اس عمل کو شفافیت کے ساتھ انجام دیا گیا۔ بالآخر فروری 2018 میں ان اساتذہ کو باضابطہ اسکولوں میں بھیجا گیا تاکہ وہاں کےتعلیمی نظام میں بہتری لائی جا سکے اور ایسا ہوا بھی۔بہت قلیل وقت میں اساتذہ نے اپنی قابلیت کا لوہا منوا کر نہ صرف ان اسکولوں کے نتایج میں بہتری لائی اور طلاب کی تعداد کو بھی بڑھایا بلکہ نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ زائد از نصاب کی سرگرمیوں میں بھی طلبا کی رہنمائی کی، جس سے والدین و طلبا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
رمسا قواعد کے مطابق ان اساتذہ کو اپنی کارکردگی کی بنیاد پر توسیع دی جانی تھی کہ جب تک پروجیکٹ رہتا ہے تب تک اس کے ملازمین کام انجام دیتے ہیں۔ رمساا سکیم کو جموں و کشمیر میں 2026 تک توسیع ہو چکی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب اس میں کچھ دیگرا سکیموں کو ضم کر کے اس کا نام ’’سمگر‘‘کر دیا گیاہے، مگر بنیادی مقاصد ایک ہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اسکیم ابھی بند نہیں ہوئی ہے تو رمسا اساتذہ کو ایک سال کے بعد ہی کیوں روزگار سے محروم کر دیا گیا؟ حالانکہ رمسا اساتذہ کی سو فیصد اُجرتیں مرکزی سرکار واگذار کرتی ہے۔ رمسا اساتذہ میں اس بات کو لے کر سخت مایوسی اور ناراضگی ہے کہ ہمیں مرکزی سرکار سے یہی سننے کو ملا کہ جموں و کشمیر کی ہر طرح کی ترقی اور خاص کر یہاں کے پڑھے لکھے نوجوانوں کی ترقی کی راہ میں اگر کوئی سب سے بڑا کانٹا ہے تو وہ دفعہ 370 اور 35A ہے۔ مرکزی سرکار نے ہمارے ساتھ بار ہا وعدے کیے کہ دفعہ 370 اور 35A ختم ہو جاتے ہی ترقی کے سارے راستے جموں و کشمیر کی طرف موڑ دیئے جائیں گےاور یہاں کے پڑھے لکھے بے روزگاروں کو روزگار دیں گے۔
اگست 2019 میںاُس وقت کے ریاستی گورنر ستیہ پال ملک نے بھی رمسا اساتذہ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ’’ہم نہ صرف رمسا اساتذہ کی خدمات میں توسیع کریں گے بلکہ باقی ریاستوں کی طرح انہیں کارکردگی کی بنا پر مستقل بھی کیا جائے گا‘‘۔ لیکن مستقل کرنا تو دور کی بات تھی،جب 5 اگست 2019 کو دفعہ 370 اور 35A کو ختم کیا گیاتو محض پانچ دن بعد10 اگست 2019 کو رمسا اساتذہ کو اس عارضی روزگار سے بھی برطرف کر دیا گیا۔ ایک ایسے وقت میں جب پورا ملک آزادی کی خوشیاں منانے کی تیاری زور و شور سے کر رہا تھا، اِدھر رمسا اساتذہ کے 550 کنبوں سے منہ سے نوالہ چھینا گیا۔ہم حکومت اور انتظامیہ سے یہی سوال کر رہے تھے کہ آخر کیوں انہیں استعمال کر کے پھینک دیا گیا؟ کیوں ان کے کیریئر کو دائو پہ لگایا گیا؟ بہت سے رمسا اساتذہ ایسے بھی تھے جنہوں نے روزگار کی خاطر اپنی اعلیٰ تعلیم کو چھوڑ کر یہ پوسٹ جوائن کی تھی۔ اس سلسلے میں جموں و کشمیر کے رمسا اساتذہ سے بات کی تو مختلف اضلاع کے اساتذہ نے الگ الگ انداز میں اپنے اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔
پونچھ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان مشتاق احمد صدیقی کا کہنا تھا کہ انہوں نے رمسا جوائن کرنے کے لئے جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری چھوڑ دی تھی تاکہ وہ روزگار پا سکیں۔ شمالی کشمیر کے ایک رمسا استاد محمد اقبال زرگر نے سوال کیا کہ ’’آخر کون سی ہماری بات انتظامیہ کو پسند نہ آئی اور ہمیں بر طرف کر دیا گیا‘‘؟ ہم نے دور دراز کے علاقوں میں خدمات انجام دیں، ہم نے شرحِ خواندگی میں اضافہ کیا، ہم نے نتائج میں بہتری لائی ،ہم نے بچوں کو معیاری تعلیم دلوائی، کیا یہ باتیں انتظامیہ کو پسند نہ آئیں؟ ہم نے اپنے کیریئر کو داو پہ لگا دیا اور خدمات کو سر انجام دیا تا کہ ہمیں محنت کا کوئی صِلہ مل سکے لیکن ہمیں محکمہ نے ہمیں بر طرف کرکے بے روزگار بناکر رکھ دیا۔ کپوارہ سے تعلق رکھنے والے رمسا استاد محمد آصف کا کہنا ہے کہ ’’میں دو بچوں کا باپ ہوں، میں ایم فل پی ایچ ڈی ہوں ، مزدوری کررہا ہوں تب بچوں کو کچھ کھلا پارہا ہوں‘‘۔ میرا ایل جی انتظامیہ اور محکمہ تعلیم سے یہ سوال ہے کہ کیا ہم نے مزدوری کرنے کے لیے ایم فل،پی ایچ ڈی کی تھی؟ادھم پور سے رمسا استاد پون ٹھاکر کا کہنا تھا’’ہم میں سے بہت سے اساتذہ ملازمت کی عمر کی آخری حد کو پار کرنے والے ہیں، اس دور میں ہمیں کہیں اور سے اُمید کی کوئی بھی کرن نظر نہیں آ رہی ہے۔ انتظامیہ ہمارے ساتھ انصاف کرے اور ہماری خدمات کو بحال کرے۔ جموں سے تعلق رکھنے والی چاند سودن اور شیتل آنند کہتی ہیں’’10 اگست 2019 سے لے کر آج تک کوئی بھی ایسا دَر نہیں جو ہم نے انصاف کے لئے نہیں کھٹکھٹایا ہو، کہ مستقل نہ سہی لیکن جب تک یہ پروجیکٹ ہے تب ہمیں عارضی بنیادوں پر ہی خدمات انجام دینے کا موقع دیا جائے، لیکن سوائے یقین دہانیوں کے سوا ہمیں کچھ نہیںملا‘‘۔
رمسا مضامین مخصوص اساتذہ اس بات کو لے کر بھی برہم ہیں کہ صرف مضامین مخصوص اساتذہ کو ہی کیوں انکی خدمات سے برطرف کیا گیا۔جبکہ ان کے ساتھ ایک ہی معاہدے کے تحت اور ایک ہی حکم نامے کے مطابق کمپیوٹر پروگرامرزاور ایس ای ٹی وغیرہ بھی تعینات ہوئے تھے اور وہ بدستور اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جبکہ مضامین مخصوص اساتذہ کو برطرف کر کے یوٹی انتظامیہ و محکمہِ تعلیم نے نہ صرف دوہرے معیار کا مظاہرہ کیا بلکہ سرکاری حکم نامے کی کھلے عام خلاف ورزی بھی کی ہے۔ ریاسی کی ایک خاتون استاد نیشا شرما کا کہنا ہے کہ’’جب اپنے ساتھ ہو رہی ناانصافی کی روئداد ہر جگہ سُناسُنا کر تھک ہار گئے تو مجبوراً عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور عرضی دائر کی کہ ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے،اس حکم نامے کے تحت تعینات باقی اساتذہ کی طرح ہماری خدمات کو بھی بحال کیا جائے۔‘‘اس حوالے سےجب ڈپٹی چیف ایجوکیشن آفیسرنریندرموہن سوری سے بات کی گئی تو ان کا صاف کہناتھاکہ اب رمساء نام کی کوئی پالیسی یاا سکیم رہی ہی نہیں ہے۔یہی معاملہ جب کوٹ کا سہارا لیکر محکمہ کو گھیراگیااور نوٹس بھیجے گئے تو پہلے تو کئی دنوں تک محکمہ نے اس کا جواب دینا ہی ضروری نہ سمجھا۔ لیکن جب ان تھکے ہارے نوجوانوں نے تنگ آ کر محکمہ کے خلاف توہینِ عدالت کا مقدمہ درج کروایا تو اس وقت ان کا جواب تھا کہ’’اب رمسا نام کی کوئی اسکیم ہے ہی نہیں اور نہ ہی ہمارے محکمہ میں کوئی خالی آسامیاں ہیں۔ جہاں ان اساتذہ کو بھرتی کیا جا سکے‘‘۔
سوال یہ ہے کہ اگرا سکیم نہیں ہے تو اس اسکیم کے تحت باقی تعینات لوگ کس اسکیم کے تحت کام کر رہے ہیں؟ اور رہی بات کہ محکمہ تعلیم میں کوئی بھی خالی آسامیاں نہیں ہیں تو یہ بات حقیقت سے کوسوں
دور ہے۔ جبکہ جموں و کشمیر کے نوے فیصد اسکولوں میں خالی آسامیاں پڑی ہیں۔ ان کے مطابق کورٹ سے بار ہا نوٹس بھیجے جانے کے باوجود بھی محکمہ تعلیم لیت و لیل سے کام لے رہی ہے اور رمسا اساتذہ کی خدمات کو بحال کرنے میں تاخیر کررہی ہے۔جس سے نہ صرف طلبا، والدین و رمسا اساتذہ کے ارمانوں کا گلا گھونٹا جا رہا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کامستقبل بھی دھندلا دکھائی دے رہا ہے۔ (چرخہ فیچرس)