آج کل پورے جموںوکشمیر میں رشوت سے پاک جموںوکشمیر ہفتہ منایاجارہا ہے اور ہر جگہ یہ عزم ظاہر کیاجارہا ہے کہ کورپشن کی کوئی معافی نہیںہے اور کسی کو اس معاملے میں استثنیٰ حاصل نہیں ہے ۔ا س سلسلے میں ڈیجیٹل حکمرانی کو مثال کے طور پیش کیاجارہا ہے اور یہ باور کرایاجارہاہے کہ آن لائن خدمات کی فراہمی سے رشوت ستانی ختم کرنے میںمددملی ہے اور یہ اس ناسور کا تریاق ہے۔وزیراعظم نریندر مودی نے بھی بنا کسی بھید بھائو کے کورپشن کے خلاف جنگ جاری رکھنے کی تلقین کی اور یہاں تک کہہ گئے کہ اس ضمن میں سیاسی اثر ورسوخ کو بھی آڑے نہ آنے دیا جائے۔جموںوکشمیر میںبھی رشوت سے پاک انتظامیہ کی فراہمی کیلئے گزشتہ چند برسوں سے لائق تحسین کام ہورہا ہے اور شفافیت لانے کیلئے سسٹم کو فول پروف بنایاجارہا ہے۔اسی سلسلے کی ایک کڑی کے تحت جموںوکشمیر میں انسداد رشوت ستانی ادارہ ’’اینٹی کورپشن بیورو‘‘چند برس قبل قائم کیاگیاجس نے قلیل مدت میں اپنے طریقہ کار سے عوام کے دل جیت لئے ہیں ۔ کورپشن سے نمٹنے کیلئے ایک نوزائد ادارے، جس کی عمر ابھی محض چند سال ہی ہے ،نے ان ابتدائی ایا م میں بڑے بڑوںکی ناک میں دم کرکے رکھا ہے ۔ 2020سے اب تک اس ادارے نے انسداد رشوت ستانی قانون کی مختلف شقوں کے تحت سرکاری ملازمین و دیگر لوگوں کے خلاف رشوت ستانی کے300کے قریب کیس درج کئے ہیں ۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اپنی سرکاری پوزیشن کا ناجائز استعمال کرنے اور رنگے ہاتھوں رشوت لیتے ہوئے پکڑے گئے لوگوں کے خلاف اب تک اس سال میں85سے زیادہ کیس درج کئے گئے ہیں۔اسی طرح 2021میں بیورو نے61جبکہ 2020میں71کیس درج کئے تھے ۔گزشتہ کچھ عرصہ سے محکمہ مال کے حکام کے پیچھے بیورو ہاتھ دھو کر پڑاہے اور یکے بعد دیگرے محکمہ کے حکام کو رنگے ہاتھوں دھر لیاجارہا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اینٹی کورپشن بیورو کورپشن کے خاتمہ اور شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے کئی ایک اقدامات کررہا ہے۔
اے سی بی نے ایک ایسا میکانزم اپنا ئے رکھا ہے جہاں ایک عام آدمی کو سرکاری سسٹم میں کسی راشی اہلکار یا عہدیدار کی شناخت کرکے بیورو کو اپروچ کرنا آسان بنادیاگیا ہے جس کے بعد شکایت کنندہ کے الزامات کی پہلے تحقیق کی جاتی ہے اور بیورو جال بچھا کر راشی ملازمین کو رنگے ہاتھوں دھر لیتا ہے۔اب ایل جی منوج سنہا نے اے سی بی اور عمومی انتظامی محکمہ کو رشوت ستانی کے انسداد میں نئی مثال قائم کرنے کیلئے مشترکہ طور کام کرنے اور جدید ترین ٹیکنالوجی کا سہارا لینے کو بھی کہا ہے اور اسی سلسلے کی ایک کڑی کے تحت سرکاری سطح پر ایسی کمیٹیا ں بھی قائم کی گئی ہیں جو ملازمین کی رشوت ستانی شکایات کا جائزہ لیکر ان کی قبل از وقت سبکدوشی کی بھی سفارشات سرکار کو پیش کرتی ہیں۔حالیہ دنوں میں سرکار نے ایسی ہی محکمانہ کمیٹیوںکی سفارشات پرکئی ملازمین کو قبل ازوقت نوکریوں سے سبکدوش کردیا۔ گوکہ موجودہ لیفٹنٹ گورنرکی نیت پر شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور کورپشن کے خلاف ان کے موقف کو مستحسن ہی قرار دیاجاسکتا ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ محض چند ملازمین کے خلاف کارروائی کرکے حکومت کورپشن کا قلع قمع نہیں کرسکتی ہے ۔ارباب اختیار کو اس حقیقت کا ادراک و اعتراف ہونا چاہئے کہ جموں وکشمیر میں کورپشن کی لعنت انتہائی گہرائی تک سرایت کرچکی ہے اور اس کو محض چند ملازمین کو چلتا کرکے جڑ سے نہیں اکھاڑاجاسکتا ہے ۔سابق وزیراعلیٰ مرحوم مفتی محمد سعید جب 2002سے 2005کے دوران بھی وزیراعلیٰ تھے تو اُس وقت بھی ایسے ہی الزامات کے تحت چند درجن ملازمین ،جن میں کئی بیروکریٹ بھی شامل تھے ،کو نوکری سے چلتا کیاگیا تھا تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں کیس کمزور ہونے کی وجہ سے ان میں سے بیشتر ملازمین کو عدالتوں نے بحال کردیا وہیں چند ملازمین نے بعد میں پی ڈی پی میں ہی پناہ لی اور انہیں پارٹی میں عزت و وقار بھی ملا تھا۔اُس وقت جن ملازمین کو بر طرف کیاگیا تھا ،اُن کے خلاف شواہد اس قدر کمزورتھے کہ چند سماعتوں کے بعد ہی حکومتی موقف کی ہوا نکل گئی اورمعزز عدالت کو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے انہیں بحال کرنے کے سواکوئی چارہ نہیں رہا تھا اور یوں شفاف انتظامیہ کے غبارے سے ہوا ہی نکل گئی ۔کالعدم قرار دئے جاچکے احتساب کمیشن کے آخری ایام انتہائی درد ناک تھے۔انتہائی طمطراق سے معرض وجود میںلائے گئے اس کمیشن کو آخر کے برسوں میںعضوئے معطل بنا کر رکھاگیاتھا ۔ اگرلیفٹنٹ گورنر انتظامیہ کورپشن مخالف جنگ میں واقعی سنجیدہ ہیں تو شروعات بڑے مگر مچھوں سے کی جانی چاہئے ۔اگراعلیٰ سطح پر انتظامی مشینری کو کورپشن سے پاک کیاجاتا ہے تو پھرنچلی سطح پر سرکاری مشینری کو شفاف اور جوابدہ بنانا کوئی بڑا کام نہیں ہے اور اگر اعلیٰ انتظامی سطح پر کورپشن کی پشت پناہی جاری رہی تو چھوٹے ملازمین کو زیر نہیںکیاجاسکتا ۔ضرورت اس امر ہے کہ چھوٹے ملازمین پر ہاتھ ڈالنے کی بجائے لیفٹنٹ گورنر اوپر سے ہی شروعات کریں ۔ اینٹی کورپشن بیورو کو اس قدر مضبوط بنائیں کہ وہ رشوت خوری کے سمندر میں ڈبکیاں مارنے والے انتظامیہ کی اعلیٰ کرسیوں پر براجمان عہدیداروں اور سیاستدانوں کا احتساب کرسکے ۔اگر ایسا ہوتا ہے تو سرکاری مشینری کا پوسٹ مارٹم کرنا آسان بن جائے گا ورنہ ان دکھاوے کی دلیلوں سے کوئی متاثر ہونے والا نہیں ہے ۔