عصر حاضر میںہمارے معاشرے میں انسانی رشتوں کی اہمیت دن بہ دن ختم ہو تی جا رہی ہے، خونی رشتے اور ان کے جوڑ تک ٹوٹ رہے ہیں۔ باہمی محبت ،ایثار،اپنائیت ،ہمدردی اورایک دوسرے کے خوشی اور غم میں شرکت کی رونقیں بھی معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ خاندان بکھر رہے ہیں ،فاصلے بڑھ رہے ہیں، ہر ایک کومحض اپنی ہی پڑی ہے۔اگرچہ انسان کے لئے رشتوں کے تقاضوں کو بحسن و خوبی پورا کرنا بھی اہم ہوتا ہے،مگر آج اکثر یہی دیکھا جارہا ہے کہ مادہ پرستی ، جاہ پرستی،اَنّا پرستی اور خودسَری نے انسانی رشتوں میں بڑی بڑی دراڑیںڈال دی ہیں۔ خود غرضی اور تکبُر نے ہمیں اپنے جال میں پھنسا رکھا ہے اور ہم نام و نمود اور ترقی کی دوڑ میں شامل ہو کر اپنے رشتوں کو فراموش کر تے جا رہے ہیں ۔ مادیت نے ہماری سوچ تک محدود کرکے رکھ دی ہے اور ہم یہی سمجھ رہے ہیں کہ خاندان محض ایک سماجی رواج ہے جو وقتی ضرورتوں کے تحت وجود میں آیا اور جب ضرورت باقی نہیں رہے تو اس سے چھٹکارا حاصل کر نا ہی انسان کے ارتقا ءکا تقاضا ہے ۔حالانکہ اسلام میں اس تصور کی کوئی بھی گنجائش نہیں لیکن مسلما ن اپنی تمام تر خوبیوں کو خیر باد کہہ کے اِس تصور کو بھی گلے لگاچکاہے ،جس کے نتیجے میں اب آئے روز انسانی رشتے پامال ہورہے ہیں،رشتہ دار کے ہاتھوں رشتہ دار کا قتل ہورہا ہے۔گویا انسانیت پر درندگی ایسے غالب ہوچکی ہے کہ چاچا بھتیجے ،ماما بھانجے،ساس بہو،بھابی نند کی بات تو کُجا ،یہاں تو باپ کے ہاتھوں بیٹے کا اوربیٹے کے ہاتھوں ماں و باپ کا قتل ہورہا ہے۔وقفہ وقفہ کے بعد اخباروں میں اس طرح کی وارداتوں کی خبریں پڑھنے کو مل رہی ہیں۔ایسی المناک وارداتیں رونماں ہونے سے بجا طور یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ اب ہماری معاشرتی زندگی کا مختصر اور جامع مسئلہ صبر و برداشت کی کمی اور ایک دوسرے کے تئیں دلی محبت اور جذبۂ احترام کا فقدان ہے ۔ یہ وہ خامی یا خرابی ہے ، جس نے اوپر سے نیچے تک ہمارے معاشرے کا احاطہ کررکھا ہے ۔ظاہر ہے کہ صبروتحمل اور جذبۂ احترام کا فقدان سے انسان معاشرتی تقاضوں کا شعور بھول جاتا ہے اور یہ معاملہ ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پنپ رہا ہے۔معاشرتی تقاضوں کو پورا کرنے میں ہم دن بہ دن پست و خست ہورہے ہیںاور ہر میدان میں ہمارا نقصان ہورہا ہے۔یہاں تک کہ ہماری تہذیب و تمدن ،اقدار اور ہماری اسلامی روایات کی عکاسی تک معدوم ہوتی جارہی ہے۔حالانکہ یہ طے ہے کہ صبر وتحمل اعلیٰ درجے کی اخلاقی صفت نمایاں ہوکر بروئے کار آتی ہے۔لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہم اس صورت حال پر سنجیدہ غور وفکر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے کہ جس راستے پر ہمارےمعاشرے کے زیادہ ترافراد چل پڑے ہیں،وہ کسی صورت میں ہمارے معاشرتی اقدار کے حق میں نہیں جاتا بلکہ معاشرے کو زوال پذیر بنانے میں انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہےجبکہ اس سلسلے میں مسلسل کوتاہی عبرت ناک ثابت ہوسکتی ہے۔کیونکہ جس معاشرہ میں صبر وبرداشت کی کمی اور ایک دوسرے کے تئیں احترام کی صفت نہ پائی جائے، ایسا معاشرہ کسی دُوررس اور صائب فیصلے تک کبھی نہیں پہنچ سکتا۔خاندان اور رشتوں کو جو نظام انسان کو حاصل ہے ،وہ صرف انسانوں کا امتیاز ہے اور انسانی شرف کی ایک علامت ہے ۔ رشتوں کا یہ نظام حالات و ضروریات کے تحت انسانوں کی اپنی اختراع نہیں ہے بلکہ زندگی کے دیگر امتیازی انتظامات کی طرح یہ خاص انسانی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کر نے والا امتیازی نظام ہے جو انسانوں کو خصوصی طور پر عطا کیا گیا ہے ۔ انسانی ضرورتوں کی تکمیل غول اور جھُنڈ سے پوری نہیں ہو سکتی ہے ، اسے قدم قدم پر رشتوں کی ضرورت ہو تی ہے ۔غرض خرابی انسانوں کے اندر تو ہو سکتی ہے لیکن خود رشتوں میں کوئی ایسی خرابی نہیں پا ئی جا تی کہ کسی رشتے کو نفرت کا رشتہ قرار دیا جا ئے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے دانشور حضرات ، ہمارے اکابرین،ہمارے علمائے کرام اس تبدیلی کو کا سنجیدہ نوٹس لیںاور معاشرے کو انفرادیت کے نقصانات اور اجتماعیت کے فوائد کا احسا س دلانے کے لئے یک جُٹ ہوجائیں تاکہ معاشرے کے افراد رشتوں سے دوری بنانے یا نفرت کرنے کے بجائے زندگی گذارنے کے لئے رشتوں کی اہمیت سمجھیں اوررشتوں کی قدر دانی کرنے کو فوقیت دے سکیں۔