ڈاکٹر آزد احمد شاہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں میں سے ایک اہم پہلو آپؐ کی سیاسی بصیرت اور قیادت ہے۔ اس بصیرت کے تحت آپ نے نہ صرف عرب معاشرت کو ایک نئی شکل دی بلکہ عالمی سطح پر انسانیت کے لیے ایک مثالی ریاست کا تصور بھی پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی بصیرت میں حکمت، عدل، تدبر، اور انسانیت کی فلاح شامل ہیں، جنہوں نے آپؐ کو دنیا کے عظیم ترین حکمرانوں میں شمار کیا۔
۱۔ریاست مدینہ کا قیام: ایک عظیم حکمت عملی: رسول اکرمؐ کی سیاسی بصیرت کا پہلا نمایاں مظہر ریاست مدینہ کا قیام ہے۔ یہ ریاست نہ صرف اسلام کے بنیادی اصولوں پر قائم تھی بلکہ انسانی حقوق، مساوات، اور انصاف کی اعلیٰ مثال بھی تھی۔ مدینہ منورہ کی معاشرت مختلف قبائل اور مذاہب کے لوگوں پر مشتمل تھی، اور یہاں مختلف سماجی و سیاسی مسائل تھے۔ آپ ؐ نے حکمت و تدبر سے ان مسائل کو حل کیا اور ایک مضبوط اور مستحکم معاشرہ قائم کیا۔میثاق مدینہ، اس بصیرت کا ایک شاہکار تھا۔ اس معاہدے کے ذریعے آپؐ نے مدینہ کے تمام قبائل کو ایک مشترکہ اتحاد میں باندھ دیا، جس میں مسلمانوں، یہودیوں اور دیگر قبائل کو اپنے حقوق و فرائض دیے گئے۔ یہ معاہدہ آپؐ کی فہم و فراست اور سیاسی حکمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ذریعے معاشرے میں امن و امان قائم ہوا اور دشمنوں کے خلاف دفاعی حکمت عملی ترتیب دی گئی۔
۲۔ صلح حدیبیہ: حکمت اور بصیرت کی علامت : صلح حدیبیہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی حکمت اور دور اندیشی کی ایک بہترین مثال ہے۔ یہ وہ معاہدہ تھا جسے بظاہر مسلمانوں کے لیے نقصان دہ سمجھا گیا، لیکن حقیقت میں یہ اسلام کی فتوحات کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ اس معاہدے کے ذریعے رسول اکرمؐ نے نہ صرف قریش کے ساتھ امن کا ماحول پیدا کیا بلکہ اس دوران مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اسلام کو مزید پھیلنے کا موقع ملا۔صلح حدیبیہ کی شرائط مسلمانوں کے حق میں بظاہر سخت نظر آتی تھیں، لیکن آپ ؐ کی دور اندیشی اور سیاسی بصیرت نے مستقبل کی بڑی کامیابیوں کی بنیاد رکھی۔ آپؐ نے اس معاہدے کے ذریعے قریش کو وقتی طور پر طاقتور مان کر انہیں مطمئن کیا، لیکن حقیقت میں یہ مسلمانوں کے لیے ایک عظیم فتح تھی۔
۳۔ فتح مکہ: عفو و درگزر کی سیاست : فتح مکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی بصیرت کا ایک اور اہم پہلو ہے۔ مکہ فتح ہونے کے بعد آپؐ نے اپنے دشمنوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ آپ کی عظیم قیادت اور اخلاقیات کی اعلیٰ مثال ہے۔ جہاں عام طور پر فاتحین اپنے دشمنوں سے بدلہ لیتے ہیں، وہاں آپؐ نے عام معافی کا اعلان کیا۔ آپؐ نے فرمایا: “آج تم پر کوئی گرفت نہیں، جاؤ تم آزاد ہو۔” یہ عفو و درگزر آپؐ کی قیادت کی ایسی خصوصیت تھی جس نے دشمنوں کے دلوں میں اسلام کے لیے محبت پیدا کی۔
فتح مکہ کے دوران رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی حکمت یہ بھی تھی کہ آپؐ نے مکہ کے سرداروں اور عوام کو اپنی طرف راغب کیا، ان کے ساتھ حسن سلوک کیا اور انہیں اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرایا۔ آپؐ نے قریش کے قبائل کو اسلامی ریاست کا حصہ بنا کر ایک مضبوط اتحاد قائم کیا۔
۴۔ سفارتکاری اور بین الاقوامی تعلقات :رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی بصیرت کا ایک اور مظہر آپ کی سفارتکاری ہے۔ آپؐ نے اپنے دور میں مختلف ممالک اور حکمرانوں کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے اور انہیں اسلام کی دعوت دی۔ آپ ؐ نے حبشہ، روم، ایران، اور دیگر علاقوں کے حکمرانوں کو خطوط بھیجے اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دی۔ یہ سفارتی حکمت عملی آپؐ کی عالمی بصیرت اور انسانیت کے لیے فلاح کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔
بین الاقوامی تعلقات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ حکمت، مصلحت، اور انسانی فلاح کو مدنظر رکھا۔ آپؐ نے جنگ و جدل کو آخری حل سمجھا اور ہمیشہ مذاکرات اور امن کی راہ اپنانے کی کوشش کی۔ اسی حکمت عملی کے تحت آپؐ نے مختلف قبائل اور اقوام کے ساتھ معاہدے کیے، جن میں صلح حدیبیہ اور میثاق مدینہ نمایاں ہیں۔
۵۔ جنگی حکمت عملی اور دفاعی بصیرت : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی بصیرت کا ایک اہم پہلو آپ کی جنگی حکمت عملی اور دفاعی تدابیر تھیں۔ آپؐ نے کبھی بھی جنگ کو مقصد نہیں بنایا بلکہ ہمیشہ امن اور مصالحت کو ترجیح دی۔ جب جنگ ناگزیر ہو جاتی، تو آپؐ کی جنگی حکمت عملی میں ہمیشہ اخلاقیات کا پاس رکھا جاتا۔
غزوہ بدر، احد، اور خندق میں آپ ؐکی حکمت عملی، فوجی ترتیب، اور دفاعی تدابیر آپ کی عظیم قیادت کا ثبوت ہیں۔ غزوہ خندق میں مدینہ کے دفاع کے لیے خندق کھودنے کا مشورہ آپ ؐ کی فہم و فراست اور تدبر کی اعلیٰ مثال ہے۔ اسی طرح، غزوہ بدر میں کم وسائل کے باوجود آپؐ نے بہترین حکمت عملی کے تحت جنگ جیتی، جس نے اسلام کی فتوحات کی راہ ہموار کی۔
۶۔ عدل اور انصاف پر مبنی حکمرانی : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی بصیرت کا ایک اور اہم پہلو آپ کی عدل اور انصاف پر مبنی حکمرانی تھی۔ آپؐ نے ہمیشہ عدل و انصاف کو اپنی ریاست کا بنیادی اصول بنایا۔ چاہے وہ مسلمانوں کا معاملہ ہو یا غیر مسلموں کا، آپ ؐ نے کبھی بھی انصاف کے معاملے میں کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا۔
ریاست مدینہ میں آپ ؐ نے قانون کی حکمرانی قائم کی اور ہر شخص کے لیے مساوی حقوق فراہم کیے۔ آپؐ نے کبھی بھی کسی کو اس کی حیثیت یا قبیلے کی بنیاد پر ترجیح نہیں دی، بلکہ ہمیشہ حق و باطل کے درمیان فرق کیا۔ یہی عدل و انصاف آپؐ کی ریاست کی کامیابی کا راز تھا، جس نے معاشرتی امن اور سکون کو فروغ دیا۔
۷۔ اخلاقی قیادت: سیاست کا اعلیٰ معیار : رسول اکرم ؐ کی سیاسی بصیرت کا ایک اور نمایاں پہلو آپ کی اخلاقی قیادت تھی۔ آپؐ نے ہمیشہ اخلاقی اصولوں کو سیاست میں شامل کیا اور اپنے پیروکاروں کو بھی یہی سکھایا کہ سیاست میں اخلاقیات کا اہم کردار ہوتا ہے۔ آپؐ نے کبھی بھی جھوٹ، دھوکہ دہی، یا غیر اخلاقی طریقوں کو اپنانے کی اجازت نہیں دی۔
آپ ؐ کی قیادت میں ریاست مدینہ میں اخلاقیات کو اعلیٰ مقام حاصل تھا۔ چاہے وہ جنگ ہو یا صلح، آپؐ نے ہمیشہ اخلاقی اصولوں کو ترجیح دی اور اپنی ریاست کو ایک مثالی ریاست بنایا۔
۸۔عوام کے مسائل کا حل : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی بصیرت کا ایک اور پہلو آپ کا عوام کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت تھی۔ آپؐ نے ہمیشہ اپنے عوام کے مسائل کو سنا اور ان کے حل کے لیے عملی اقدامات کیے۔ آپ ؐ نے غربت کے خاتمے، غلاموں کی آزادی، خواتین کے حقوق، اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے اہم اقدامات کیے۔آپؐ نے ریاست مدینہ میں معاشرتی اصلاحات کے ذریعے عوام کی زندگیوں میں خوشحالی لائی۔ آپؐ نے معاشرتی انصاف کے اصولوں کو نافذ کیا اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔
الغرض رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی بصیرت اور قیادت انسانی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ آپ ؐ نے نہ صرف ایک مضبوط ریاست قائم کی بلکہ انسانیت کو عدل، امن، اور بھائی چارے کا پیغام دیا۔ آپ ؐ کی قیادت میں اسلامی ریاست ایک مثالی ریاست بنی، جس میں ہر فرد کو مساوی حقوق حاصل تھے۔ آپ ؐ کی سیاسی بصیرت آج بھی دنیا کے لیے ایک مشعل راہ ہے، جو عدل، انصاف، اور اخلاقیات پر مبنی ایک مثالی نظام کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔
(موصوف ایک معروف اسلامی اسکالر ہے)