رزن اْلنجار کی خونیں داستاںغزہ کے غیور عوام کی جانفشانی کا ایک اور باب ہے۔یہ داستاں فلسطین کے عوام عموماََ اور غازہ کی پٹی کے لوگ خصوصاََ اپنے خون سے رقم کر رہے ہیں ۔غاضب اسرائیل اور مغرب کی اِس اولاد نا خلف کی پشتْ پناہ امریکی سرکار پچھلے کم و بیش دو مہینوں سے غازہ کے عوام کے ساتھ خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔دیکھا جائے تو یہ خونیں سلسلہ پچھلی سات دَہائیوں سے چلتا آ رہا ہے جب سے مغربی طاقتوں نے اعراب کے بیچوں بیچ ایک ایسی ریاست قائم کی جس کا کوئی قانونی جواز نہیں بنتا لیکن پچھلے دو مہینوں سے بیشتر اِس خونریز داستاں میں شدت آ چکی ہے۔رزن اْلنجار غازہ کی مایہ ناز بیٹی بھی پچھلے دنوں اسرائیلی بر بریت کا شکار ہوئی۔وہ غازہ کے شہیدوں میں ایک اور شہید ہی سہی لیکن رزن کی شہادت نے پوری دنیا کی توجہ جلب کی ۔رزن کے ہاتھوں میں نہ ہی کوئی پتھر تھا نہ ہی کوئی اسلحہ بلکہ وہ غازہ کے مظلوموں کی مرہم پٹی کرنے کیلئے ہر جمعہ کے دن جس دن مظاہرے ہوتے ہیں اُس خونیں سرحد پہ پہنچ جاتی تھی جو کہ غاضب اسرائیل نے اپنی نا جائز ریاست کو تحفظ بخشنے کیلئے اپنی ریاست اور غازہ پٹی کے بیچوں بیچ کھنچی ہے۔پچھلے دو مہینوں سے بیشتر یہ رزن کی روش بن چکی تھی کہ وہ جمعہ کے دن صبح سویرے خونیں لائن کے قریب پہنچ کے زخمیوں کی مرہم پٹی میں مشغول رہے۔ ایک حساس نرس ہونے کے ناطے رزن اِسے اپنے مقدس پیشے کی ذمہ واریوں کو نبھانے کا وسیلہ مانتی تھی۔
آج گئے کم و بیش دو ہفتہ پہلے جون کی پہلی تاریخ کو جب کہ جمعہ کا روز تھا رزن حسب المعمول سرحد کے قریب پہنچ گئی جہاں مظاہروں میں شریک ہونا غازہ پٹی کے جوانوں کا معمول بن چکا ہے۔سفید ایپرن میں ملبوس رزن نے ایک زخمی کو سرحد کے قریب گرتے دیکھا اور وہ مرہم پٹی کرنے کیلئے دھوڑ پڑی اتنے میں ایک اسرائیلی سپاہی نے اُس پہ نشانہ باندھا۔ ایک عینی گواہ کا بیاں کے مطابق جو کہ نیوز ایجنسی ’ریو ٹر‘ کو دیا گیا’’رزن نے اپنے ہا تھ صاف طور پہ اوپر کر لئے لیکن اسرائیلی سپاہی نے فائر کر لیا اور گولی رزن کے سینے میں لگیــ‘‘۔ ظاہر ہے رزن کے ہاتھ میں مرہم پٹی کا سامان تھا ویسے بھی وہ ایپرن پہنے ہوئے تھی اور یہ شناخت کرنے میں کہ وہ ایک میڈیکل پرسنل،ایک طبی مدد گار ہے اسرائیلی سپاہی کو کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے تھی لیکن یہ سب جانتے ہوئے بھی فائر ہوا اور گولی رزن کے سینے کو لگی ۔ ایک اور معصوم نے اپنی جاں عزیز گنوا دی۔ ظاہر ہے اِسے قتل عمد ہی مانا جانا چاہیے۔قاتل جنم سے امریکی ہے اور وہ بوسٹن کا رہنے والا ہے جس نے یہودی ہونے کی وجہ سے یہ اپنا وظیفہ مان لیا کہ وہ اسرائیلی فوج میں بھرتی ہو جائے اور رزن جیسی معصوم جانوں سے اپنے ہاتھ رنگ لے۔رزن کو اِس حقیقت کے باوجودقتل کیا گیا کہ جنیوا کنونشن کے تعین کردہ اصولوں کے مطابق تصادم کے دوران کسی میڈیکل پرسنل کی جان لینا جنگی جرم مانا جاتا ہے لیکن اسرائیل بین الاقوامی ضابطوں کو جوتے کی نوک پہ رکھنے کا عادی بن چکاہے کیونکہ اُسے عالمی چودھری امریکہ کی کھلی پشت پناہی حاصل ہے۔مغرب کے اولاد نا خلف کو نہ ہی حقوق بشر خیال ہے نہ ہی عالمی قانونی حد و بند کا اور اِس نا جائز ریاست کو یہ گماں ہو چلا ہے کہ وہ کچھ بھی کر گذرے اُسے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی۔
غازہ میں مزاحمت کا تازہ دور 30مارچ کو شروع ہوا اور اِسکے کئی محرکات تھے۔ایک تو یہ کہ امریکہ نے اپنے سفارت خانے کو تل اویو سے یروشلم منتقل کیا جو کہ عالمی ضوابط کے خلاف ایک مذموم کاروائی ہے ثانیاََ فلسطینی عوام کو اپنے گھروں سے بیدخل کرنے کے 70 سال پورے ہو چکے ہیں ۔سات دَہائیوں سے فلسطینی عوام پہ اسرائیلی ریاست کا قہر ٹوٹا ہوا ہے۔ 1948ء میں اسرائیل نے 750,000فلسطینوں کا انخلا کر کے بیسویں صدی کی بد ترین تاریخ رقم کی۔ اپنے گھروں،اپنے شہروں ،قریوں،کھیت و کھلیانوں سے ایک پوری قوم کا انخلا ہوا تاکہ یورپ کے یہودیوں کو عربی دنیا کے وسط میں آباد کیا جائے۔ صہیونیت کی تحریک نے یہودی ریاست کی بنیاد کا منصوبہ تورات میں درج شدہ حکایتوں پہ رکھا ہے جو کہ تین ہزار سے ساڑھے تین ہزار سال پہلے رقم ہوئیں اور جن میں یہ ذکر ہوا ہے کہ حضرت طالوت، حضرت داؤد ؑو حضرت سلیمان ؑ اسرائیلی ریاست کے شاہاں تھے اور اِن میں حضرت داؤد ؑو حضرت سلیمانؑ کا شمار برگذیدہ پیغمبروں میں ہوتا ہے۔ حضرت طالوت اسرائیلی ریاست کے پہلے بادشاہ ہوئے اور اُ نکے بعد حضرت داؤد ؑ نے تخت و تاج کی ذمہ واریاں سنبھالی۔ حضرت طالوت کے زمانے میں یہ شمالی اسرائیلی ریاست کہلاتی تھی جبکہ حضرت داؤد کے زمانے میں جنوبی علاقے بھی اُس میں شامل ہوئے اور اِس طرح یہ متحدہ اسرائیلی ریاست بن گئی۔
قوم یہود کے بارے میں ایک حقیقت عیا ں ہے اور وہ یہ کہ اِس قوم نے حتّی اپنے برگذیدہ پیغمبروں کی بھی قدر نہیں کی۔قوم یہود نسلاََ عبرانی ہے اور یہ قوم اپنے بر گذیدہ ترین پیغمبر حضرت موسی ؑ جنہوں نے یہودیت کی بنیاد ڈالی سے پہلے اور اُنکے بعد کسی ایک مقام پہ اپنے کرتوتوں و سیاہ کاریوں کی وجہ سے آرام و آسائش سے زندگی گذارنے کے قابل نہ رہی۔کبھی شاہ ایران بخت ناصر نے اُنہیں بابل سے بیدخل کیا اور کبھی حضرت موسی ؑ کی پیغمبرانہ کاوش نے اُنہیں فرعون کے غیص و غصب سے بچایا۔ یہ قوم یہود ہی تھی جنہوں نے حضرت عیسی ؑ کو صلیب پہ چڑھوانے کی سازش کی لیکن بارگاہ ایزدی سے یہ حکم نازل ہوا کہ اِس سے پہلے کہ وہ صلیب کی اذیتوں کا شکار ہوں اُنہیں آسمانوں پہ بلایا جائے ۔آج جب عیسائیت اور یہودیت کی ہم آہنگی کی باتیں منظر عام پہ آتی ہے تو دور کہیں تاریخ داں زمانے کی ستم ظریفی پہ مسکراتے نظر آتے ہیں۔ مشرق وسطی اور ایشیائی کوچک میں جب طلوع اسلام سے پہلے سینٹ پال کا دور دورہ تھا تو یہودی شدیداََ عیسائی عصبیت کا شکار تھے ۔طلوع اسلام کے بعد مسلمانوں کی پناہ میں آکے یہودیوں نے اطمیناں کی سانس لی لیکن اِس قوم کی بد ترین عادت یہی ہے کہ جب بھی اقتدار اُنکے ہاتھوں میں آ جاتا ہے تو یہ کسی کو بخشتے نہیں ۔اقتدار انواع و اقسام کا ہوتا ہے گر چہ عرف عام میں اُسے سیاسی اقتدار ہی مانا جاتا ہے لیکن سچ تو یہ ہے اِس میں اقتصادی دسترس اور مطبوعاتی کنٹرول بھی شامل ہے۔ مدینہ منورہ میں طوع اسلام سے پہلے مدینہ میں اقتصادی دسترس بھی قوم یہود کو حاصل تھی اور مطبوعاتی کنٹرول بھی جبکہ اُس زمانے میں مطبوعات کا انحصار اُن شعرا پہ ہوتا تھا جنہیں قصیدہ گوئی اور ہجو گوئی پہ ید طولے حاصل تھا۔اپنے قبیلوں کے لئے قصیدہ گوئی اور دشمن قبیلوں کیلئے ہجو گوئی اُن کا شیوہ تھا جو وہ عوامی مقامات پہ انجام دیتے تھے۔ مدینہ کے نواحی علاقوں کے بسکین یہودی قبائل نے اپنی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے مدینہ کے دو قبیلوں بنو اُوس و بنو خزرج کو مدتوں آپس میں محاز آرائی کروائی۔دونوں قبیلوں کو اسلحہ خریدنے کیلئے سود در سود اور شعرا کو جنگ کی آگ بھڑکانے کیلئے پس پردہ پیسے بھی ملتے رہے اور یہ سلسلہ تب ہی بند ہوا جب آقائے نامدار پیغمبر بر حق آنحضور ؐ مدینہ تشریف لائے او ر سود پہ قائم اقتصادی نظام پہ ضرب کاری لگائی۔
عصر حاضر میں عالمی نظام پہ یہودیوں کی اجارہ داری کم و بیش اُسی اقتصادی نظام اور مطبوعاتی کنٹرول پہ ٹکی ہوئی ہے جو اُنہوں نے طلوع اسلام سے پہلے مدینہ منورہ میں قائم کیا تھا گر چہ آج اُسکی نوعیت مختلف ہے اور دور حاضر کی تکنیکی پیش رفت کی مرہون منت ہے۔ عالمی بنک کاری پہ یہودی کنٹرول ایک مانی ہوئی بات ہے اور مطبوعات پر بھی پکڑ اتنی سخت ہے جہاں عصر حاضر کی بڑی طاقتیں اسرائیل کے خلاف کسی واضح اقدام سے کتراتی ہیں ۔سپر پاور امریکہ اسرائیل کے سامنے بے بس نظر آتا ہے ۔بارک اوباما کے زمانے میں اسرائیل اُن سے نالاں نظر آیا تو کاخ سفید میں ایسی تبدیلی پیش آئی جس کا وہم و گماں بھی نہیں تھا۔ڈونالڈ ٹرمپ میدان سیاست کے دست راست کے ایک انتہا پسند کھلاڑی ہیں۔ امریکی سفارت خانے کو تل اویو سے یروشلم منتقل کر کے اُنہوں نے اسرائیل کے دیرینہ خواب کو پورا کیا۔اسرائیل کا یہ خواب حضرت داؤد ؑ کی متحدہ اسرائیلی ریاست ہے جسے پورے فلسطین پہ دسترس حاصل ہو اور جس کا دارلخلافہ یروشلم ہو جہاں حضرت سلیمان ؑ نے ہیکل سلیمانی کی بنیاد ڈالی ۔
ازمنہ قدیم کی حکایتوں پہ اگر عصر حاضر کی ریاستوں کی بنیاد ڈالنے کی روش چل پڑے تو پھر علامہ اقبال ؒ کا وہ شاعرانہ سوالیہ یاد آتا ہے جس میں یہ ذکر ہوا ہے کہ اگر فلسطین پہ یہودیوں کا حق ماضی کی تاریخ کو مد نظر رکھ کے مانا جائے تو پھر مسلمانوں کا حق ہسپانیہ پہ کیوں نہ مانے جائے جہاں مسلمانوں نے کم و بیش آٹھ سو سال حکومت کی؟فلسطین 1947/48ء سے پہلے ایک ایسی ریاست تھی جہاں مسلمان، عیسائی اور ایشیائی یہودی مل جل کے رہتے تھے ۔ اِن فرقوں کے مابین کسی قسم کا بھید و بھاؤ نہیں تھااور یہ امن و آشتی سے رہتے تھے لیکن یورپی یہودی جن کو ایک یہودی ریاست کی تلاش تھی جسکی بنیاد وہ تورات میں بیاں شدہ حکایتوں پہ رکھنا چاہتے تھے خرمن امن پہ بجلی بن کر گرے ۔ اِنہی حکایتوں کو لے کے صیہونی تحریک کی بنیاد پڑی اور سفید فام یورپی یہودی قدیم اسرائیل کی تلاش میں نکلے۔ اِنہیں یورپین طاقتوں کا ساتھ حاصل ہوا جن میں برطانیہ پیش پیش تھا ۔مغرب کے اِس اولاد نا خلف کے جنم میں برطانیہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ آرتھر جیمز بالفور نے دائی کا کردار ادا کیا اور جنگ عظیم دوم کے بعداِسے امریکہ نے گود لیا۔ اقوام یورپ کیلئے ویسے بھی یہودیوں سے نمٹنا مشکل ہو رہا تھا کیونکہ یورپ میں عوام الناس کا خاصہ حصہ یہودی اجارہ داری کے خلاف تھا جبکہ حکومتوں پہ اُن کا کنٹرول تھاجس کا سبب جیسے کہ پہلے ہی ذکر ہوا تھا اقتصاد پہ اُنکی دسترس اور مطبوعات پہ کنٹرول تھا۔ یورپی یہودی جوق در جوق فلسطین میں آباد ہونے لگے اور بہ گذشت زماں اُنکی کئی دہشت گرد تنظیموں نے فلسطین کا امن و چین برباد کیا اور پھر بات یہاں تک پہنچی کہ اُنہوں نے فلسطین کے باشندوں کا انخلا شروع کیا اور آج سات دہائیاں گذرنے کے بعد فلسطینی خاصکر غازہ کی پٹی کے غیور عوام تنگ آمد بجنگ آمد کے دہانے پہ پہنچے ہیں اور ہر جمعہ کو احتجاج کی ایک لہر غازہ پٹی سے نمودار ہوتی ہے جو کہ اپنے آبائی گھروں میں واپسی کی مانگ پہ منتج ہوتی ہے۔
30مارچ سے لے کے جب سے مظاہروں کا نیا سلسلہ چل پڑا ہے پچھلے جمعہ جون کی 8تاریخ تک 124فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد کم و بیش 13,000ہزار ہے۔اِن 124فلسطینی شہدا میں رزن اْلنجار بھی شامل ہے جس کی نماز جنازہ میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی ۔یہ ایک ایسا بھیانک قتل تھا جسے دیکھ کے عالمی روح چیخ اٹھی لیکن عالمی ضمیر ابھی تک اتنا بیدار نہیں ہوا ہے جہاں رزن کے قاتل کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے حالانکہ کئی یورپی طاقتیں اِسے بیحد و حساب زیادتی مانتے ہوئے کچھ کرنا چاہتی ہیں لیکن عالمی چودھری امریکہ کے سامنے سب ہی بے بس نظر آتے ہیں۔امریکہ کے پاس ویٹو کی طاقت ہے اسلئے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں کوئی بھی ایسی قرارداد پاس نہیں ہو پاتی جس میں اسرائیل کی سرزنش کا ہلکا سا اشارہ بھی ہوالبتہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیل کی مذمت تو ہوتی رہتی ہے لیکن جنرل اسمبلی کی قراردادیں گر چہ معنوی طور پہ معنی رکھتی ہیں لیکن اُن کی سفارشات پہ عمل در آمد الزامی نہیں ۔رہی معنویت یا اخلاقیات اُس کا اسرائیل پہ کوئی اثر نہیں ہوتا چونکہ اِس ریاست کے پایے ہی معنویت پہ استوار نہیں۔
پچھلے کئی سالوں سے غازہ کی پٹی محاصرے کی حالت میں ہے ۔ایک طرف سے اسرائیل نے عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے دوسری جانب مصری سرحد بھی بند ہے ۔مغرب کی پشت پہ چلتی ہوئی مصر کی جنرل سیسی کی سر براہی میں چلتی ہوئی تانا شاہی سرکار پس پردہ اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہے اور یہی حال کئی عرب سرکاروں کا بھی ہے جن کیلئے اپنے تاج و تخت فلسطینیوں کی بے بسی سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔رہا عالمی ضمیر تو وہ امریکہ کا یرغمالی ہے حالانکہ عالمی ظابطوں کے مطابق اسرائیل موظف ہے کہ وہ اوسلو میں طے شدہ سمجھوتے کے مطابق دو سرکاروں یعنی اسرائیلی سرکار اور فلسطینی سرکار کی پا پر جائی پہ عمل کرے جو ارض فلسطین پہ قائم کرنا طے پایا ۔1993ء میں طے شدہ اوسلوسمجھوتے کی کسی شق پہ اسرائیل نے عمل نہیں کیابلکہ آج تک اُسکی خلاف ورزی پہ مصمم نظر آتا ہے چاہے وہ دو ریاستوں کا قیام ہو یا یروشلم کے بارے میں حتمی سمجھوتہ بلکہ سمجھوتے کے برعکس اسرائیل فلسطینیوں کی زندگی اجیرن کرنے پہ تلا ہوا نظر آتا ہے جبکہ اقوام عالم بے بسی سے غازہ کی پٹی کا محاصرہ اور رود اُردن کے مغربی کنارے (ویسٹ بنک) پر نت نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کا نظارہ دیکھ رہے ہیں۔!
Feedback on:[email protected]