رضی اللہ قاسمی
اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو بالخصوص رزقِ حلال اور حرام کے درمیان تمیز کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایک مسلمان اور مؤمن یہ گوارا ہی نہیں کر سکتا ہے کہ اس کے پیٹ میں حرام کا ایک لقمہ تک بھی جائے، کیونکہ رزقِ حلال کمانا اور رزقِ حرام سے اجتناب کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ نماز روزہ اور دیگر فرائض پر عمل کرنا بلکہ کسبِ معاش میں حلال و حرام کی تمیز نہ رکھنا امن وسکون کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے ۔ حلال و حرام کا تصور صرف چند امور تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ یہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر گوشہ پر محیط ہے اور یہ محض عارضی نہیں بلکہ مستقل اور دائمی ہے۔
انسان دنیا کی محبت میں پڑ کر حرام و حلال کا فرق مٹادیتا ہے ۔ دنیا داری نبھانے کے لئے ہی اسے مال و دولت و دیگر ضروریات زندگی سے سابقہ پڑتا ہے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اپنے آپ کو امیر کبیر ثابت کرنے کے لئے انسان رزقِ حلال کی راہ سے ہٹ کر کسبِِ حرام کی طرف چلتا ہے اور ایسا چلا جاتا ہے کہ اسے واپسی کی راہ تک نہیں دکھائی دیتی ہے۔ جب حرام مال بدستور اس کے پیٹ میں پڑتا رہتا ہے تو اس کے دل میں سیاہی بڑھتی چلی جاتی ہے، دنیا کی محبت غالب آجاتی ہے اور احکامِ خداوندی کو وہ پسِ پشت ڈال کر صرف مال وزر اکٹھا کرنے کی طرف راغب ہو جاتا ہے اور یہیں سے وہ رزقِ حرام کے اتھاہ اندھیروں میں گم ہو جاتا ہے، جہاں سے واپسی کی کوئی راہ اسے نظر نہیں آتی ،حلال و حرام کے فرق کو مٹا کر دولت کمانے کے لئے لوگ کیا کچھ نہیں کرتے اور اس کے لئے وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اس کا اثر ان پر اور ان کی اولاد پر کیا پڑ رہا ہے۔ بعض دفعہ انسان دولت کمانا چاہتا ہے مگر وہ محنت نہیں کرنا چاہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کسب ِمعاش میں وہ حلال وحرام کے فرق کو مٹا ڈالتا ہے،جبکہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ آیت168میںفرماتا ہے: ’’اے لوگو! جو چیزیں زمین میں حلال اور پاکیزہ ہیں، اس میں سے کھاؤ،اور شیطان کے نقشِ قدم پر مت چلو ،یقیناً وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ۔‘‘
اسی طرح احادیث ِ مبارکہ میں بھی رزق حلال کی فضیلت اور رزقِ حرام کی نحوست کو بیان کیا گیا ہے اور بہت سخت وعید سنائی گئی ہے ،ایسے شخص کے بارے میں جو حرام کمانے اور کھانے سے نہیں بچتا، بلکہ اس کی نحوست کی وجہ سے وہ حلال و حرام کے درمیان امتیاز بھی نہیں کرپاتا، جیساکہ بخاری شریف میں آپؐ کی پیشین گوئی موجود ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان اس کی پرواہ نہیں کرے گا کہ مال اس نے کہاں سے کمایا، حلال طریقہ سے یا حرام طریقہ سے۔
جیسا کہ ہم سب اپنے معاشرے میں دیکھ رہے ہیں ، رزقِ حلال و حرام کی تمیز بالکل مٹ چکی ہے،ہم اس سے بچنے کےلئے تیار ہی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم مصیبتوں میں گھرے ہوئے ہیں اور ہماری دعائیں قبول نہیں ہورہیں،جیساکہ حضرت سعد ابن وقاصؓ کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ انھوں نے عرض کیا:’’یارسول اللہؐ! دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے مستجاب الدعوات کردے یعنی میری ہر دعا قبول ہو، تو حضور پر نورؐ نے فرمایا:’’اے سعد! اپنی خوراک پاک کرو، مستجاب الدعوات ہوجاؤ گے۔ اس ذات پاک کی قسم جس کے قدرت میں محمد مصطفیٰ کی جان ہے، آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا ایک لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں کیا جاتا اور جس بندے کا گوشت سود اور حرام خوری سے اُگا، اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔‘‘(معجم الاوسط، من اسمہ محمد، ۵ /۳۴)۔اور آگ کیسی ہوگی ،اس کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: یعنی جب کبھی وہ بجھنے لگے گی تو ہم اسے اور بھڑکا دیں گے۔(شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب الایمان، ۴ / ۳۹۶)
ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ حلال روزی کمائے اور حلال روزی سے ہی کھائے اور پہنے ،اسی طرح دوسروں کو بھی جو مال دے وہ حلال مال میں سے ہی دے ۔مگر آج انسان ایک دم سے امیر اور دولت مند بننے کے چکر میں حلال و حرام اور نا پاک میں فرق بھول جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے کاروبار ایجاد ہو گئے ہیں، جن کی بدولت انسان جلد امیر بن جاتا ہے مگر یہ حرام کا روبار ہوتا ہے ۔
شاہ ولی اللہؒ لکھتے ہیں :’’راتوں رات امیر بننے کی خواہش نے ایسے کاروبار پیدا کر دیئے ہیں جن کی بدولت لوگ محنت سے کتراتے ہیں اور تھوڑی دولت والے اس قسم کے کاروبار کے ذریعے سے بے انتہا دولت کے مالک بننا چاہتے ہیں۔‘‘اس لئے ایسے سودی کاروبار سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمارے بزرگان دین رزق کے حلال ہونے میں کس قدر احتیاط کرتے تھے ،اس کا اندازہ صدیقِ اکبرؓ کے اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بار امیرالمؤمنین حضرت ابو بکر صدیقؓ کا غلام آپ کی خدمت میں دودھ لایا۔ آپؓ نے اسے پی لیا ۔ غلام نے عرض کیا، میں پہلے جب بھی کوئی چیز پیش کرتا تو آپؓ اس کے بارے میں دریافت فرماتے تھے لیکن اِس دودھ کے بارے میں کچھ دریافت نہیں فرمایا؟ یہ سن کر آپؓ نے پوچھا، یہ دودھ کیسا ہے؟ غلام نے جواب دیا کہ میں نے زمانۂ جاہلیت میں ایک بیمار پر منتر پھونکا تھا ،جس کے معاوضے میں آج اس نے یہ دودھ دیا ہے ۔ حضرت صدیق اکبرؓنے یہ سن کر اپنے حلق میں اُنگلی ڈالی اور وہ دودھ اُگل د یا ۔ اس کے بعد نہایت عاجزی سے دربارِ الٰہی میں عرض کیا ،’’ یااللہ! جس پر میں قادر تھا، وہ میں نے کر دیا ، اس دودھ کا تھوڑا بہت حصہ جو رگوں میں رہ گیا ہے وہ معاف فرما دے۔اللہ تعالی ہم سب کو بھی رزق حلال کمانے اور رزق حرام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
[email protected]