میر امتیاز آفریں
انگریزی زبان کے معروف رومانوی شاعر شیلے کے مطابق شاعر ایک بلبل کی طرح ہوتا ہے جو تنہائی میں گاتے ہوئے ماحول کو اپنے نغموں سےدلکش بنا دیتا ہے۔ زیادہ تر شاعر اپنی داخلی روداد کو شعر کا جامہ پہنا کر لوگوں کو محظوظ کردیتا ہے۔ چونکہ بطور انسان ہمارے داخلی و خارجی مسائل ایک جیسے ہیں۔ لہٰذا شاعری سن کر ہمیں ایسا لگنے لگتا ہے گویا کسی نے ہمارے ہی درد کو زبان دے دی ہے۔
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
کشمیری زبان و ادب کے ایک قد آور شاعر اور نقاد رحمان راہیؔ کا انتقال ہو گیا ہے، جو اپنی شاعری کے ذریعے ایک لمبے عرصے سے لوگوں کے دلوں کو گرماتے رہے۔ وہ اپنے پیچھے شاعری کے کچھ سے گرانقدر مجموعے اور کچھ فکر انگیز تنقیدی مضامین ورثے کے طور پر چھوڑ گئے ہیں۔ انہوں نے پہلے پہل اردو میں شعر کہے اور داد و پذیرائی بھی حاصل کی۔ مگر بعد میں انہوں نے اپنی مادری زبان یعنی کشمیری کی طرف رخ کیا اور کشمیری ادب کی عصری تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑے۔ وہ پہلے اور واحد کشمیری ادیب ہیں جنہیں انکے شعری مجموعے ‘سیاہ رودٕ جرین منز کے لیے ہندوستان کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ، گیان پیٖٹھ دیا گیا۔
دراصل وہ 1925 میں سرینگر میں پیدا ہوئے، عبدالرحمن میر نام رکھا گیا، اور وہ کم عمری میں ہی یتیم ہوگئے اور ان کے چچا نے انہیں پالا پوسا۔ تاہم تمام مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے سخت محنت و لگن سے انہوں نے زندگی میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ حتیٰ کہ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ وہ کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ کشمیری کی بنیاد رکھیں ۔ کئی دہائیوں سے وہ کشمیری زبان و ادب کے فروغ اور تحفظ کی کاوشوں کی قیادت بھی کررہے تھے۔ مہجور اور عبدالاحد آزاد کے بعد ترقی پسند ادیبوں سے وابستہ ہو کر انہوں نے کشمیری ادب کو نئی جہتوں سے آشنا کیا۔
رحمان راہی کو تنہائی کا شاعر کہا جا سکتا ہے کیونکہ وہ اکثر غمِ حیات سے نپٹنے کے لئے اپنے اندرون میں ہی پناہ لیتے ہیں۔ وہ جدید انسان کی مایوسی، تنہائی، مجبوری اور محکومی کو خوبصورت انداز میں ظاہر کرتے ہیں۔
بہ صحرا یم سدا راوَن کوت تامَتھ
فلک لا تعلقی ہاوان کوت تامَتھ
یعنی کب تک میری چیخیں صحرا میں گم رہیں گی اور کب تک آسمان نا آشنائی دکھاتا رہے گا؟
راہیؔ کی شاعری جدیدیت سے کافی متاثر ہے اور انہوں نے کشمیری ادب میں ایک نیا آہنگ پیدا کیا۔ انگریزی ادب، کشمیری ادبی سرمائے اور جدیدیت کے اثرات سے ان کی نظمیں اور غزلیں معمور ہیں۔ پیکر تراشی، رمز و کنایہ، تشبیہات و استعارات اور تغزل کے وہ ماہر ہیں۔
اپنی شاعری میں وہ جدید انسان کے وجودی بحران کو فنکارانہ طریقے سے ظاہر کرتے ہیں۔ راہیؔ دلکش اور معنی خیز images بنانے میں ماہر ہیں۔ابتدائی دور میں ان کی شاعری میں عام فہم عکس بندی اور خیال آرائی پائی جاتی تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں دقت پسندی کا غلبہ ہوگیا اور پھر عوام تو عوام خواص کو بھی ان کی شاعری سمجھنے میں مشکلیں آنے لگیں۔ ان کی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ نا امیدی کی گہرائیوں میں بھی امید کی کوئی نہ کوئی کرن نکال لیتے ہیں۔
اس کی مابعد الطبیعاتی نظم ‘پائے چھ ظلماتے وزان کے شروع میں وہ مایوسی کے شکار ہوجاتے ہیں مگر آخر میں اپنے فرزند کے روپ میں نئی امید کی علامت لے کر آتے ہیں۔
غم سے نڈھال ہو کر اور زندگی کی پیچیدگیوں سے پریشان ہو کر کبھی اس طرح کہتے ہیں:
زِندہ روزنہ باپتھ چھی مران لکھ، ژہ مرکھنا
لوتہ پاٹھی چکھا پیالہٕ، کِہو اُف تہ ِ کرَکھنا
(لوگ جینے کے لیے مرتے ہیں، کیا تم نہیں مرو گے؟کیا تم خاموشی سے (موت کا) پیالہ پیو گے اور شکایت بھی نہیں کرو گے؟)
تاہم، وہ جینے کی چاہ اور جدوجہد کو نہیں چھوڑتے۔
وُڈرِ پیٹھ اگر رات لٔج توتہِ کیاہ گو
پگاہ کاروانَس چھِ گلزار چھاونی
(یعنی آج کی فکر نہ کرو کہ پتھریلے پہاڑیوں پر رات گزارنی پڑ رہی ہے، کل ہمارا قافلہ گلستاں کے مزے لوٹے گا)
زندگی کی پیچیدگیوں کا دُکھڑاسُناتے ہوئے بھی اُن کی شاعری جمالیاتی خوبیوں سے خالی نہیں رہتی۔
یہِ نار وُہی نَے یہِ تریش ہُری نَے
گلاب چُھے شاہ، شراب چھے اَچھ
(یہ آگ سلگتی رہے اور پیاس بڑھتی رہے۔تیری سانس گلاب تو آنکھیں شراب ہیں)
راہیؔ موت کی آغوش میں چلے گئے ہیں مگر اپنی نظم ‘سونہٕ لانکی پیٹھ میں اپنے قارئین سے پوچھتے ہیں:
موتہٕ کِس پَنجرَس چُھنا اڈٕ ووژھ تہِ روزان دآر زانہ؟
(یعنی موت کے پنجرے کی کھڑکی کیا کبھی ادھ کھلی بھی نہیں رہتی؟)
ان کی وفات سے کشمیر کے ادبی حلقوں میںسناٹا سا چھا گیا ہے، ایک خلا پیدا ہو گیا ہے اور وقت ہی بتائے گا کہ اس خلا کو پُر کرنے میں کتنا وقت لگ جائے گا۔
یہِ کمی وون اَکی ڈنجِہ پیٹھ روزِ دنیاہ
جنونَس چِھنا کینہہ تہِ زور آزماونی
کون کہتا ہے کہ دنیا ایک ہی ڈگر پر چلے گی، جنوں کو بھی تو اپنی زور آزمائی کرنی ہے۔
[email protected]