محمد تسکین
بانہال //ضلع رام بن کے سب ڈویژن و تحصیل رامسو کے ایک دور افتادہ گاؤں لون پورہ ، تاجنی ہال میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب عبدلطیف لون ولد غلام رسول لون کے گھر میں پیش آئی آگ کی ایک ہولناک واردات میں تین نوعمر بہنیں اس وقت جھلس کر لقمہ اجل بن گئیں جب ان کے گھر کی اوپری منزل اور بالائی خانہ نے آگ پکڑ لی اور ٹین کی چھت کے نیچے گہری نیند سو رہی تینوں بہنیں نیند میں ہی موت کا شکار ہوگئیں۔آگ کی یہ واردات پیر کی ابتدائی ساعتوں میں رات قریب دو بجے رونما ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے مکان کی اوپری منزل اور چھت خاکستر ہوگئی اور نچلی منزل میں سورہے والدین اس اگ سے اسوقت تک بے خبر رہے جب تک ان کی تینوں بیٹیاں آگ کی اس واردات میں زندہ جل چکی تھیں۔پولیس نے آگ کی اس بھیانک واردات میں لقمہ اجل بنی تین بہنوں کی شناخت 18 سالہ بسمہ بانو ، چودہ سالہ سائیکہ بانو اور نو سالہ ثانیہ بانو دختران حافظ عبد اللطیف لون ساکنہ لون پورہ تاجنی ہال تحصیل رامسو کے طور کی ہے۔مقامی لوگوں اور عینی شاہدین نے کشمیر عظمی کو بتایا کہ اس دو منزلہ مکان کی بالائی چھت پر تینوں بہنیں سوئی ہوئی تھیں کہ نامعلوم وجوہات سے لگی آگ نے دوسری منزل ، اس کے بالہ خانہ اور چھت کو اپنی لپیٹ میں لیا اور حاجت بشری کیلئے گھر سے باہر نکلی ان مہلوک لڑکیوں کی نوے سالہ دادی اور والدہ نے گھر سے باہر کا منظر بہت روشن پایا اور تھوڑی دیر میں انہیں معلوم ہوا کہ ان کے مکان کی چھت سمیت اوپری منزل کا بیشتر حصہ آگ کی لپیٹ میں خاکستر ہو چکا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بچاو کی چیخ و پکا کے پیچ تینوں بیٹوں کے والد حافظ عبد اللطیف لون نے کمال جرات کا مظاہرہ کرکے لڑکیوں کی طرف سے پہلی منزل کا بند دروازہ ٹوڑ کرمکان کی چھت پر پہنچنے میں کامیابی حاصل کی اور وہاں سوئی لڑکیوں کو آوازیں بھی لگانا شروع کیں لیکن ان کی آوازوں پر لڑکیوں کیطرف سے کوئی جواب نہ آیا ۔ انہوںنے کہا کہ تب تک تمام بستی کے ہندو مسلمان وہاں پہنچ چکے تھے اور مکان کی اوپری منزل اور چھت پوری طرح سے آگ کے شعلوں میں گھری ہوئی تھی اور یہ سمجھنے میں کسی کو بھی دیر نہ لگی کہ تینوں بہنیں لقمہ اجل بن چکی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ شفقت پدری میں والد عبداللطیف لون نے بچاو کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکا اور ان کا چہرہ بھی اس کوشش میں جھلس گیا تاہم وہ بڑی مشکل سے خود اپنی جان بچا پائے ہیں۔آگ کی اس واردات میں پانچ لیٹر کے کم از کم دو گیس سلنڈر بھی پھٹ گئے اور پہلے ہی سے بھڑکے شعلوں کو مزید تقویت ملی۔ مقامی لوگوں نے کشمیر عظمی کو بتایا کہ تاجنی ہال پنچائت دھنمستہ بی کا علاقہ ابھی تک سڑک رابط سے محروم ہے اور کئی دہائیوں سے عوام کی مانگ کو ابھی تک پورا نہیں کیا گیا ہے اور دھنمستہ ، تاجنی ہال اور کھاروان کو جوڑنے کیلئے رابطہ سڑک کی تعمیر کا خواب سروے میں ہی پھنس کر رہ چکا ہے اور اس کی سزا عام لوگوں کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اْکڑال اور رامسو میں کوئی فائر سروس سٹیشن موجود نہ ہونے کیوجہ سے مقامی لوگوں کیطرف سے آگ پر قابو پانے کی کوشش بھڑکتے شعلوں کے سامنے بے بس ہوگئی تاہم ان کی بھرپور کوشش سے پوری بستی کو آگ کی لپیٹ میں آنے سے بچا لیا گیا اور آس پاس کے مکانوں کو محفوظ کر لیا گیا ۔ اس دوران بانہال سے فائر برگیڈ بھی علاقے میں پہنچا لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور سڑک سے بہت دور ہونے کیوجہ سے فائر سروس کا وہاں پہنچنا ناممکن تھا۔ اس دلدوز واقع کی اطلاع ملتے ہی تحصیلدار اکڑال شیخ ناصرجاوید ، ایس ڈی پی او بانہال اجے سنگھ جموال ، اکڑال سے پولیس حکام موقع واردات پر پہنچے اور بعد میں ڈپٹی کمشنر رام بن چودھری بصیر الحق کے حکم پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر رام بن ہربنس لعل ، ڈی ڈی سی چئیرپرشن ڈاکٹر شمشاد شان اور عالم دین مفتی نظیر احمد بھی موقع پر پہنچے اور سوختہ ہوئے کنبے سے اپنی ہمدردی اور رنج و غم کا اظہار کیا۔ اس موقع پر ای ڈی سی رام بن اور ڈی ڈی سی چیئر پرسن نے متاثرین کو یقین دلایا کہ ان کی ہر مکن مدد کی جائے گی اور فی الحال ضلع انتظامیہ رام بن کی طرف سے مہلوکین کی تجہیز و تکفین کیلئے کچھ نقدی رقم ، راشن اور ضروریات زندگی کی عبوری امداد فراہم کی گئی۔ اس دوران رضاکار تںطیم بانہال والںتیرس کے رضاکاروں نے متاثرہ کنبے کو امداد کے طور پر راشن اور بسترے وغیرہ کی امداد علاقے میں پہنچائی ہے ۔ کئی سیاسی ، سماجی اور دینی انجمنوں نے اس ساںحہ پر اپنے رنج و غم و غم کا اظہار کرتے ہوئے سوگوار کنبے سے اپنی تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔رامسو پولیس نے اتشزنی کے اس واقع میں ایک کیس درج کرکے آگ کی وجوہات کا پتہ لگانے کیلئے تحقیاتی عمل شروع کر دیا ہے۔