11؍نومبر ۱۹۴۷ ء کے دورپُر آشوب میں کو مسلم کانفرنس راجوری کے جنرل سکریٹریری مرزا فقیر محمد راجوروی،حکیم فیض عالم صدیقی اور سید عبد اللہ شاہ آزاد کی ثالثی کے باعث راجوری کی ہندو برادری کی اعتدال پسند قیادت جن میں لالہ نرسنگھ داس ایڈووکیٹ،دینا ناتھ مودی ایڈووکیٹ،بہاری لعل صراف اور بہاری لعل پنچ وغیررہ شامل تھے اور گوریلا فوج کے کمانڈر کیپٹن رحمت اللہ خان منہاس ،سدھن قبائل کے کمانڈر راجہ سخی دلیر خان اور مقامی حریت پسندوں کے درمیان راجوری شہر خالی کرنے اور غیر مسلم برادری کو تحفظ فراہم کرنے کا جو باہمی معاہدہ ہوا تھا، اُسے ناکام کرنے اور راجوری میں پیش آمدہ ناگفتہ بہ واقعات کی پوری ذمہ داری راجوری کے چند شدت پسندوں پر عائد ہوتی ہے ،جس کی قیادت دینا ناتھ کیلا ، دواریکا داس بھرونیاں اور جیا لعل صراف کررہے تھے ۔راجوری کی سنجیدہ اور امن پسندہندو قیادت کے ساتھ امن معاہدہ ہونے کے بعد مذکورہ اشخاص نے معاہدہ شکنی کرتے ہوئے حریت پسند گوریلا فوج پر ۱۲ ؍اور ۱۳؍ نومبر کی شب کو شہر کی اونچی عمارتوں سے چھچھیرا جنگل کی طرف فائرنگ کرنی شروع کردی ۔ اس وجہ سے دونوں گروپوں کے درمیان خونی تصادم ہوا اور ۱۳ نومبر کی صبح تک حرت پسند گوریلوں نے راجوری شہر پرقبضہ کرلیا اور شدت پسند دھڑے کے تمام لوگ اپنے ساتھیوں سمیت لڑتے ہوئے مارے گئے۔البتہ ۱۴؍نومبر ۱۹۴۷ ء کو انقلابی وار کونسل کے قیام کے بعد مسلم قیادت نے راجوری قصبہ کی ہندو برادری کے تمام مرد و زن اور بچوں کو ادھر اُدھر سے تلاش کر کے قصبہ کے نواح گردھن گاؤں میں ایک عارضی پناہ گزیں کیمپ میں بحفاظت منتقل کیا۔یہاں ان کے خورد و نوش اور حفاظت کا معقول بند و بست کیا گیا تھاجب کہ ہندو برادری کی ایک بڑی تعداد حملہ کے وقت رات کی تاریکی میں شہر سے بھاگ کر راجوری خطہ کے دور دراز دیہاتوں میں اپنے مسلم دوست و احباب کے پاس چلی گئی تھی۔ان پناہ گزینوں کومقامی مسلمانوں نے پورے چھ ماہ ۱۳؍اپریل ۱۹۴۸ ء تک اپنے گھروں میں بہ سلامت رکھ کر ان کے جان و مال اور عزت کو پوری حفاظت کی مگر افسوس کہ پھر بھی آج کچھ نافہم لوگوں کو گلہ ہے کہ ’’ہم دل دار نہیں ‘‘ اور ۱۹۴۷ ء کے گھمبیرحالات و واقعات کی اُلٹی تعبیرکرکے مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ اگرچہ صوبہ مسلمانان جموںکے لئے ۱۹۴۷ء کا دور کسی قیامت صغریٰ سے کم نہ تھا اور فرقہ پرست ہندوؤں کے جبر و استبداد کے شکنجے میں پھنسے مسلمانوں کو آرایس ایس بھگتوں ، مہاراجہ پٹیالہ کے مسلح دستوں ،پنجاب و جموں کے لٹیروں اورمہاراجہ ہری سنگھ کے ڈوگرہ فوجیوں نے روند تے ہوئے زائد از تین لاکھ بے گناہ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ورجموں ،ادھمپور،کٹھوعہ ،ریاسی ، اکھنور کے علاقوں سے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا نسلی صفایا کر دیا گیا مگر افسوس کہ تاریخ کے اتنے بڑے المیے اور نسلی تطہیر پر آج تک کوئی مستقل تحریری دستاویز مرتب نہیں ہوسکی ۔ اس ظالم زمانے کے حالات وواقعات کے چشم دید گواہ بھی اب خال خال ہی باقی رہ گئے ہیں ۔
راجوری جموں سے جنوب مغرب اور پیر پنچال پہاڑیوں کے دامن میں ڈیڑھ سو کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے لیکن راجوری کا پونی پارکھ ،کانگڑی بھجوال ،راہ سیوٹ ،لمیڑی اور نو شہرہ سے آگے کااکثر علاقہ جو اکھنور اور ریاسی کے ساتھ ملتا ہے ،جہاں کے مسلمان بڑی بڑی بڑی جاگیروں،زرخیز زرعی زمینوں کے مالک او ر کھاتے پیتے خوشحال گھرانوں کے مالک تھے ،وہ اکثر سنگھی قاتلوں کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے جب کہ بچے کھچے پاکستان ہجرت کر گئے ۔اس طرح نوشہرہ سے آگے دریائے چناب تک سارا علاقہ مسلمانوں سے خالی ہو گیا ۔پونی کے جاگیردار مرزا رائے اقبال اور بھجوال کے جاگیردار مرزا رائے غلام حسین اگرچہ اپنے کنبے کے چیدہ چیدہ افراد کے ساتھ پاکستان بھاگ جانے میں کامیاب ہو گئے لیکن ان کے خاندان کے اکثر لوگوں کو شہید کر دیا گیا ۔صرف پونی اور پارکھ علاقے میں بیس ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا گیا ۔البتہ راجوری خطہ کے اکثر مسلمان جو پیر پنچال کے دامن میں رہتے تھے، محفوظ رہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جموں خطہ میں وسیع پیمانے پر مسلمانوں کی نسل کشی اور قتل عام کے رد عمل میں راجوری خطہ میں آباد ہندو اقلیت کے کے خلاف ردعمل میں مقامی مسلمانوں نے کسی قسم کی زیادتی یا انتقامی کاروائی نہیں کی ۔حالانکہ اس خطہ کے مسلمانوں کو یہاں کے مٹھی بھر سود خور ہندو مہاجنوں نے بری طرح بیگار اور سودی نظام میں ایک لمبے عرصے سے نسلاًبعد نسل ٍجکڑے رکھا تھا ۔ یہ غریب مسلمان ہر لحاظ سے مظلوم وبے دست و پا تھے،اس کے باوجود راجوروی مسلمانوں نے اس نازک موقع پر بڑے صبر و تحمل ،روا داری اور فراخدلی کا بہترین مظاہرہ کیا۔بنابریں یہاں کی غیر مسلم ہندو اقلیت ظالم زمانے کے دست و برد سے محفوظ رہی ۔اس کا کریڈٹ اُس وقت کی راجوری کی مسلم قیادت اور عوام کو جاتا ہے۔ ان قائدین میں چودھری دیوان علی ،مولانا صلاح محمد ،حاجی نوران شاہ ،چودھری سلطان محمد فتح پوری ،مرزا محمد حسین ،مولانا مہر الدین قمر راجوروی وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔انہوں نے یہاں کے مسلمانوں کو باہمی رواداری، انسانیت ، مروت اوراسلام کے اعلیٰ اصولوں کی پاسداری کا احساس دلا کر محصور غیر مسلم اقلیت کی جان و مال اورر عزت و ناموس کی حفاظت ممکن الوقوع بنایا ۔دوسری طرف دیوان علی چودھری نے یہاں کے مسلمانوں کو جموں و اکھنور کے حالات سے با خبر کرکے انہیں منظم و بیدار رکھا اور اپنے اجتماعی دفاع و تحفظ کے اقدامات اٹھانے کی بر محل ترغیب دلائی ۔اس حکمت عملی سے دونوں فرقے شرارتی عناصر کی منفی سرگرمیوں سے محفوظ رہے ۔غور طلب ہے کہ چودھری دیوان علی کے سارے خاندان کو اکھنور میں بری طرح چن چن کر شہید کردیا گیا تھااور بہت سارے نوجوان بیٹیوں کو اغواء بھی کر لیا گیا تھا مگر وہ پکے مسلمان کی طرح حالات کے آگے سینہ سپر ہوئے ۔ ان کے خاندان کی اغواء شدہ بیٹیوں کا اب تک کوئی سراغ نہ مل سکا۔اس لحاظ سے مرحوم دیوان علی بڑے سچے مسلمان ،دور اندیش اور صابر انسان تھے جن کی ملّی اور سیاسی خدمات بشمول روا داری خطۂ پیر پنچال کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے ۔
ڈوگرہ عہد میں راجوری خطہ کے مسلمانوں کے معاشی استحصال اور ان کی منقولہ و غیر منقولہ جائداد کو سودی نظام کے ذریعے ہتھیانے میں یہاں کے ہندو مہاجن اور کار و باری طبقے کے تمام تر استحصالی حربوں،ظلم و جبر اورر جائدادوں کی قرقیوں اور ضبطیوں کے باوجود ۱۹۴۷ء کے اس دور ظلمت میں جب راجوری شہر اور خطے کا اکثر بیشتر علاقہ فتح ہو چکا تھا ، یہاں مرزا محمد حسین کی قیادت میں آزاد انقلابی وار کونسل قائم ہو چکی تھی اور ہندو طبقہ کی ایک بڑی تعداد گردھن پناہ گزین کیمپ میں بحفاظت قیام پذیر تھی اور کچھ ہندو پناہ گزین خطہ کے مختلف دیہاتوں میں اپنے واقف کار مسلمانوں کے گھروں میں اپنے خاندانوں سمیت پورے چھ ماہ تک قیام پذیر رہے ، مسلمانان ِراجوری نے اس نازک وقت میں اپنے غیر مسلم برادرانِ وطن کے تحفظ کے لئے ایسی ایسی قربانیاں اور مثالیں قائم کیں جو آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
راجوری کی صاحبِ قلم شخصیت جناب نثار حسین راہی صاحب نے اپنی کتاب ــ’’سبز جزیرے‘‘میں ایک واقعہ کا تذکرہ کیا ہے کہ میرے والد صاحب مرحوم غلام محمد نے (دوداسن بالا ) اس بستی کے ایک نہایت شریف النفس شخص ماسٹر دولت رام کو چھ ماہ تک دن میں کوٹھار (غلہ اسٹور) میں چھپا کررکھتے تھے کہ کوئی شر پسند انہیں گزند نہ پہنچا دے، یہاں تک کہ حالات میں تبدیلی آگئی تو ماسٹر دولت رام راجوری شہر میں آگئے ۔جناب اونکار ناتھ راجوری شہر کے ایک نامور تاجر اورذی عزت آدمی ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ ہمارا گھرانہ وسط نومبر ۱۹۴۷ء سے وسط اپریل ۱۹۴۸ ء تک دھنور میں نمبرر دار لعل دین کے گھر مسلمان بن کر رہا تو ان کی بیوی ہم بچوں کو سمجھاتی تھی کہ بچوتم لوگوں کو اگر مسلمان اپنے یہاں ختم نیاز وغیرہ میں بلائیں تو پیٹ میں دررد کا بہانہ بناکر نہ جایا کر و، اس لئے کہ مسلمان بڑا گوشت بناتے ہیں جو تمہارے مذہب میں کھانا ٹھیک نہیں ، اس لئے تم لوگ جان کا خطرہ ٹالنے کے لئے وقتی طور مسلمان بنے رہو ۔کل جب حالات ٹھیک ہو جائیں تو پھر اپنے مذہب میں واپس چلے جاؤ ۔اس لئے ایسے مواقع پر جانے سے پرہیز کیا کرو ۔
چودھری دیوان علی کا ڈیڑھ سو افراد پر سارا کنبہ اکھنور کے انباراں گاؤں میں شہید کر دیا گیا تھا ۔اس کے باوجود انہوں نے تین سو ہندو گھرانوں کو دھنور اپنے خانوادے میں پورے چھ ماہ تک بحفاظت رکھا ۔چودھری گلزار احمد صاحب راوی ہیں کہ ایک دفعہ ان غیر مسلم لوگوں نے خود مطالبہ کیا کہ ہم نے اسلام قبول کر لیا ہے ،اس لئے ہمیں گائے بھینس وغیرہ گوشت کھائیں گے لیکن والد صاحب نے کہا کہ تم لوگ خوف اور ڈر کے باعث مسلمان بنے ہو ،اسلام جبری تبدیلی مذہب کو تسلیم نہیں کرتا ۔کل اگرحالات بدل گئے تو تم لوگ پھر اپنے مذہب میں چلے جاؤگے ۔لہٰذا موٹا گوشت ڈر کے مارے مت کھاؤ ،میں پوری طرح تمہاری حفاظت کروں گا ۔ہاں اگر حالات ٹھیک رہے اور تم اپنی خوشی سے اسلام لاؤ تو پھر جو مرضی کھانا۔ منشی جمال الدین ڈار نے پانچ ماہ تک ایک ذی عزت گھرانے آنند سروپ کھنہ کی نوجوان بیوی اور دو جوان لڑکیوں کو دو ماہ کے دیپک کھنہ اور دس کلو سونا کو حفاظت اپنے گھر درہال میں محفوظ رکھا ۔ بعد میں اس کنبے کو مع مال و اسباب بحفاظت چودھری غلام عباس کی فرمائش پر جہلم پہنچایا، جہاں سے یہ لوگ براستہ واہگہ بارڈر دلی پہنچے ۔بعد میں آنند سروپ کھنہ راجوری پونچھ کا مشترکہ پہلا ڈپٹی کمشنر بنا۔دیپک کھنہ تا دم تحریر دہلی میں ہیں اور اس کی دونوں بہنیں ہری دوار میں آج بھی بقید حیات ہیں ۔ راجوری کے ان فرشتہ خصلت مسلمانوں کوسلام عقیدت جنہوں نے نومبر سنتالیس کی قیامت خیزیوں میں بھی اسلام کی انسان دوست تعلیمات کی لاج رکھی۔
نوٹ :مضمون نگار چیئرمین الہدیٰ ٹرسٹ راجوری ہیں
رابطہ نمبر 7006364495