سلّفی مشتاق۔ کپواڑہ
آئے روز ہم کسی نہ کسی دلدوز یا دلخراش واقعہ کی خبر سنتے ہی رہتے ہیں جو ہمارے قلب و روح کو تڑپا دیتی ہے اور تو اور ہمارے ذہن کو مفلوج کر کے رکھ دیتی ہے ۔اسی طرح کا ایک واقعہ جولائی8تاریخ کی شام کو راجوار کے مضافات میں پیش آیا، جس نے ہر ذی حس روح کو مفلوج ہو کے رکھ دیا۔ کیوں نہ کرتا، حادثہ کچھ اسی نوعیت کا تھا جس نے ایک ہی پل میں ایک ہی گھر کے چار افراد کو نگل لیا تھا۔ اس مسئلےنے عام و خاص کی توجہ اپنے طرف اس لیے زیادہ مبذول کرائی کیونکہ اس میں دو معصوم بچیوں کے ساتھ ساتھ اس گھر کے واحد کماؤ بھی شامل تھا۔ ورنہ تو آج کل اس قوم کو حادثے کے ذریعے اموات یا اپاہج ہونا ایک معمول کا مسئلہ نظر آتا ہے ،قطع نظر اس کے کہ یہاں ہر روز حادثے ہوتے رہتے ہیں میں قارئین کی توجہ اس حادثہ راجوار کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔کل سے سوشل میڈیا کے ذریعے سے اس حوالے سے مختلف دلائل سامنے آئے،ان میں جو سب سے اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ علاقہ راجوار میں پانی کی قلت ہے اور وہ پانی کی بوند بوند کے لئے ترس رہے ہیں چونکہ زندگی کا دِیا جلانا پانی کے بغیر نا ممکن ہے اس لیے یہ بد نصیب اپنی زندگی کا دِیا جلا رکھنے کی خاطر وہاں نزدیک ہی کسی چشمے کے پاس چلے گئے لیکن انھیں کیا معلوم تھا کہ یہ سفر ہماری زندگی کا دیا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گل کر کے رکھ دے گا ۔کہا جاتا ہے جب ان لوگوں نے پانی بھر لیا اور واپسی کی راہ لینی چاہی تو قدرت نے انھیں اس راستے پہ سوار کیا جہاں سے اب واپس لوٹنا ناممکن ہے ۔یہاں یہ سوال ہر کسی کے ذہن میں ابھرتا ہے کہ اس کنبے کو اتنا دور پانی لینے کے لیے کیوں جانا پڑا۔ بات صاف ہے دنیا کا کوئی بھی باپ اپنے لخت جگروں کے ساتھ بلا وجہ مشکل راستے پہ نہیں جائے گا اور اپنے جان کے ساتھ اپنے لخت جگروں کو بھی موت کی گھاٹ اتارے گا ۔یہاں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ سارا معاملہ محکمہ جل شکتی کی لاپرواہی کی وجہ سے پیش آیا، اگر محکمہ نے بر وقت کاروائی کر کے پانی فراہم کیا ہوتا تو شاید یہ دن ہمیں دیکھنے کو نہیں ملتا ۔ہم نہیں جانتے کہ اس میں کون کتنا ملوث ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ محکمہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں پوری طرح ناکام ہے۔تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ کسی بھی چھوٹی مال بردار گاڑی میں اصولی طور ڈرائیور کے علاوہ صرف ایک آدمی کی جگہ ہوتی ہے، اب ایک کے بجائے جب ہم دو آدمی بٹھا دیں گے، پھر توقع کریں کہ ہم صحیح سلامت منزل مقصود پر پہنچ جائے، یہ ناممکن ہے۔ اب مسئلہ یہی کہ ہے جہاں محکمہ جل شکتی کو ذمہ داری قبول کرنی چاہیے اور لوکل باڈیز یعنی پنچوں اور سرپنچوں کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور قوم سے معافی مانگنی چاہیے اور فوراً سے پیشتر وہاں پینے کے صاف پانی کا انتظام کر کے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہیے، وہاں ڈرائیور حضرات کو بھی ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کر کے ایسے دلخراش حادثوں سے بچنا چاہیے۔
[email protected]>