بے شک کسی بھی مسئلے یا معاملے میں تب تک کوئی تبدیلی لانا ممکن نہیں اور نہ ہی کوئی تبدیلی خو د بخود وقوع پزیر ہوتی ہے،جب تک کہ انسان کے ذہن میں یکسوئی نہیں ہوتی۔ کیونکہ ذہنی یکسوئی سے ہی انسان اپنی زندگی کی تمام قوتوں کو یکجا کرکے کوئی تبدیلی پیدا کرلیتا ہے اور یہ تبدیلی ہمیشہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہی پیدا ہوجاتی ہیں اور پھر انقلابی شکل اختیار کرکے مسائل اور معاملات کا حل نکال دیتی ہے۔ہمارے کشمیری معاشرے کی جو موجودہ صورتحال ہے، اگر اس کاحق پرستی سے جائزہ لیا جائے تو یہ دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے کہ ہم اپنے درپیش کسی بھی مسئلے یا معاملے میں تبدیلی لانے کے لئےذہنی یکسوئی کی قوت کو یکجا نہیںکر پاتے،بلکہ تواتر کے ساتھ شعور کی پسماندگی کا مظاہرہ کرکے ذہنی انتشار کو مزید بڑھاوا دے رہے ہیں۔جس کے نتیجے میں ہماری موجودہ صورت حال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی اور ہم لکیر کے فقیر بن کر اپنے مسائل و معاملات کو دن بہ دن پیچیدہ بناتے چلے جارہے ہیں۔جس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہےکہ معاشرے کے زیادہ تر افراد میں قول و فعل کا تضادہے۔ جن مسائل نے معاشرے کو کھوکھلا کردیا ہے ،اُن پرہر کوئی بے حِسی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ اگر محض شادی یا تعزیت کی ہی بات کریں توتمام دینی اقدار کو بالائے طاق رکھ کر شادی کی تقریبات اور ماتم کی مجلسوںکے سبھی معاملات میںوہ کچھ کیا جاتا ہے کہ یہود بھی شرما جائے۔جبکہ فضول خرچی اور نمود و نمائش ،بے جا اسراف و رسومات ِ بَد پر فخرمحسوس کیا جاتا ہے۔ یہ صورت حال اب متوسط طبقے اور عام لوگوں کے لئے بھی ایک ایسی مجبوری بن گئی ہے جو وباء کی طرح پھیل چکی ہے۔ایک اہم مسئلہ جہیز ، شاہانہ لوازمات اورنمود و نمائش کا بھی ہے،جن کی عدم دستیابی کے باعث بیشتر سلیقہ مند ،پڑھی لکھی ،خوبرو اور خوبصورت دوشیزائیں،دُلہن بننے کے خواب آنکھوں میں سجائے اندر ہی اندر گُھٹتی و گلتی جارہی ہیں۔گویا ہمارے مسلم معاشرے میں جو دوغلا پَن فروغ پا چکا ہے،وہ ہماری نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کی شادی میں زبردست رکاوٹ بنا ہوا ہے۔تعجب یہ بھی ہےکہ جہاں ہمارے نوجوان بتدریج تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں اور ان کی تعلیم ،ہنر اور دیگر صلاحیتوں کا گراف بھی بڑھ رہا ہے،وہاں اُن کے سوچ و فکرکے بہتر و مثبت نتائج معاشرےپر مرتب نہیں ہورہے ہیں ۔یعنی ہمارے نوجوانوں کی ذہنی یکسوئی میں کوئی ایسی معقولیت بھی پیدا نہیں ہورہی ہے،جس سے معاشرے کے مسائل اور معاملات میں تبدیلی آنے کے آثار ممکن ہوں۔جس سےاس بات کی دلالت ہوتی ہے کہ ہماری نوجوان نسلکی تربیت میں ہی خامی ہےاور ناقص تربیت سے ہی اُن میں وہ بگاڑ پیدا ہوچکا ہے،جس کے باعث بیشتر والدین کے لئے اب اپنی اولاد رحمت کے بجائے زحمت بن گئی ہے۔ہم سب کے لئے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہےکہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اُس ذہنی انتشار یت میں مبتلا ہےجس کے منفی اثرات مختلف صورتوں میں ہماری نوجوان نسل پر مرتب ہورہے ہیںاور وہ بُرائیوں اور خرابیوںکی طرف راغب ہورہی ہے۔بعض اوقات ایسی خبریں بھی سامنے آتی ہیں کہ اپنی خواہشوں کو پورا کرنے کے لئےہمارے نوجوان کوئی بھی ناجائز اور انتہائی قدم اٹھانے سے گریز نہیں کرتے، یہاں تک اپنی جسم وجان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔اسی طرح جھوٹ بولنا،کم تولنا ، رشوت لینا ، لوٹ کھسوٹ کرنا،سخت خُوہونااور ایک دوسرے پر بالا دستی دکھانا ہمارے معاشرےکا شیوہ بن چکا ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہےکہ
ہم معاشرے کے فرد ہونے کے ناطے جہاںانفرادی طور پر اپنے آپ کا اصلاح کرنے پر آمادہ ہوجائیں ،وہاں مجموعی طور پرمسلمان ہونے کے ناطے دین اسلام کی تعلیمات کے تحت اپنے قول و فعل کے تضاد کو مٹائیںاور اپنے ظاہر و باطن کو یکسان بناکر معاشرے کو درپیش مسائل اور معاملات کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔جس کے لئے اہم بات ذہن میں یکسوئی لانے کی ہے۔جب افراد کے مجموعے کے ذہنوں میںیکسوئی آئےگی تو معاشرے کی سوچ بھی ایک ہوجائے گی۔جس کے نتیجے میںہر کوئی کسی بھی معاملے میں سادگی اورمیانہ روی دکھانے پر راضی ہوگا۔ہمیں چاہئے کہ معاشرے کے بگڑے ہوئے معاملات کو سدھارنے کے لئے عزم و استقلال کے ساتھ میدان میں اُتر جائیں اور یکجہتی کا مظاہرہ کرکے ذہنی یکسوئی کے ساتھ معاشرے میں بہتری لانے کا مقصد حاصل کریں۔