سید مصطفیٰ احمد
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ذہانت ناپنے کا جو طریقہ ہمارے زندگیوں میں پایا جاتا ہے جس کو ہم انگریزی میں Intelligence Quotient کا نام دیتے ہیں، بالکل غلط ہے۔ یہ اس لیے کیونکہ ایک کثیرالجہت زندگی کو کسی مخصوص پیمانے سے ناپنا، عقل سے پرے ہے۔ جب سے انسان نے افریقہ اور دیگر علاقوں سے نکل کر پوری دنیا میں ایک تہذیب کو جنم دیا ،جس کو آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھانے والے تاریخ کے پروفیسر Yuval Noah Harariنے Intellectual Revolution کا نام دیا ہے، تب سے لے کر آج تک انسان کی ذہنیت کو ناپنے کے جتنے بھی آلات ہیں، وہ خامیوں سےبھرے پڑے ہیں۔ ان میں ایک IQ ہے۔ اصل میں دنیا میں رائج تعلیمی اور تہذیبی اصول اس قدر رَچ بس گئی ہیں کہ ان کے خلاف کوئی بھی بات قابل قبول نہیں ہے، اس کا اطلاق ذہنی پیمانے پر بھی ہوتا ہے۔ لیکن جب کووڈ وباء نے پوری دنیا میں تباہی کے سامان ہر سو پیدا کئے، تب لوگوں پر یہ حقیقت آشکارا ہوگئی کہ ذہانت کے سارے پیمانے وباء کے دوران بے کار ہوجاتے ہیں۔ موت کا رقص جب آنکھوں کے سامنے ناچنے لگتا ہے تو عقلیت کے بجائے جذباتی پختگی کی جیت ہوتی ہے۔ جب موت کا خوف چہارسُو ہو، تو اُس وقت جذبات کی رَو میںنہ بہنا ہی کمال ہے۔ مصنوعی ذہانت کے اس دور میں جب جذبات سے کھالی روبوٹس ہماری زندگیوں پر راج کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں، تو حقیقی جذبات کی فکر لاحق ہوجاتی ہیں۔ذہنی پختگی قدرت کے پیچیدہ سوالات کو حل کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے لیکن جب ایک انسان جذبات کے آتش فشاں پر بیٹھا ہو تو اُس وقت ایک ہی ہتھیار کام آتا ہے، وہ EQ ہے۔ جذباتی پختگی کا پیمانہ کیوں اتنی اہمیت کا حامل ہے، اِس کا ذکر آنے والی سطروں میں کیا جارہا ہے۔
پہلا فائدہ ہے، مطمئن زندگی۔ اس کی سب سے بڑی اہمیت ہے کہ ایک انسان طوفانوں میں بھی جذبات کی رسّی کو تھامے رکھتا ہے اور جذبات کی نقصان دہ رَو میں بہہ نہیں جاتا ہے۔ اس سے دنیا کی مصیبتوں سے لڑنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ کسی دوسرے انسان کی موجودگی ایک انسان کو دُکھ اور خوشی کے دونوں قسم کے لمحات میں ایک معتدل مزاج رکھنے کا اہتمام،جذباتی پختگی ہی کرتی ہے۔ جب ایک انسان دوسروں سے ملتا ہے تو اس وقت جذبات کو ٹھیس پہنچنا یقینی بات ہے۔ اس صورتحال میں جذباتی پختگی کی راہ پر ڈٹے رہنا ہی اصلی کامیابی ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جذباتی ہونا فطری بات ہے، لیکن جذبات کا غلام بننا کسی بھی طریقے سے ایک صحت مند دماغ اور باہری صحت کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔
دوسری اہمیت ہے وقت کا صحیح استعمال۔ وہ شخص جو ذہنی پختگی کی معراج کو پہنچ گیا ہو، وہ ہمیشہ جذبات کا بہتر سے بہترین فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ جذبات کی چالاکیوں سے واقف ہوتا ہے، وہ انسان ان کو اپنے قابو میں رکھتا ہے اور اُن سے طرح طرح کے فائدے لیتا ہے۔ کبھی خوش اور کبھی غم کے ملے جُلے تجربات سے ایک ماہر انسان جذبات کی کشتیوں میں سوار ہوکر مختلف قسم کے تجربات سے گزرتا ہے اور دونوں طرح کے جذبات سے اسباق لے کر ایک مکمل انسان بننے کی دوڑ میں لگا رہتا ہے۔ اس طرح ذہنی پختگی کی اصلی شکل سامنے آتی ہے۔
تیسری ہے دوسروں کے لیے ایک مثال چھوڑنا۔ وہ انسان جو ذہنی ذہانت کو نچلے پائیدان پر رکھ کر جذباتی پختگی کے رنگ میں رنگ جاتا ہے، وہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے بھی مثال چھوڑتا ہے۔ لوگ اس انسان کی جذباتی ذہنیت کی انتہا کو دیکھ کر رشک بھی کرتے ہیں اور اس کے علاوہ اس انسان کی خوبیوں کو اپناتے ہیں، اس شخص کی شخصیت قوم کے لئے باعث فخر ہوتی ہیں۔ سماج ان جیسے لوگوں کی وجہ سے ترقیوں کے مراحل طے کرتا رہتا ہے۔ ایسے لوگ جنگ اور امن کے وقت اپنی شاندار اور جاندار شخصیت کی بدولت سونا چاندی سے زیادہ قیمت رکھتے ہیں۔
اب جب کہ ہر جگہ لوگ جذبات کے رَو میں لگ بھگ بہہ چکے ہیں، ایسے میں یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ IQ سے زیادہ EQ پر زیادہ زور دیا جائے۔ گھر سے لے کر زندگی کے ہر شعبے میں اس کا انتظام کیا جائے۔ اپنے گھریلو افراد کو اس کی تعلیم دی جانی چاہئے۔ گھر میں جذباتی پختگی کی مشق کرانی چاہیے۔ جذبات کا صحیح استعمال کیسے کیا جاتا ہے، اس نام پر پروگرام ہونے چاہئیں۔ مذہبی اداروں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہو کہ وہ خود جذباتی پختگی کو حاصل کرنے کے بعد سماج کے دوسرے افراد کو بھی اس راہ پر چلنے کی تلقین کریں ۔ تعلیمی اداروں میں بھی اس کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ چھوٹی عمر سے ہی بچوں کو یہ بات صاف کرنی چاہیے کہ emotions اور instincts میں کیا فرق ہوتا ہے۔ جذبات کو sublimate یا پھر channelize کیسے کیا جاتا ہے، اس پر الگ سے ایک مضمون ہونا چاہیے۔ جس طرح اقتصادیات کا مضمون اول جماعتوں سے ہی شامل ِنصاب ہونا چاہیے۔
اسی طرح سے جذباتی پختگی پر بھی ایک الگ مضمون نصابوں میں شامل کیا جانا چاہئے۔ اس سے پیٹ کی آگ کے علاوہ جذبات کی ہولناک آگ بھی سرد پڑ سکتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے اس طوفانی دور میں جذباتی پختگی کا ہونا ضروری ہوگیا ہے۔ پیٹ کی بھوک کو ہم لاکھوں طریقوں سے بجھا سکتے ہیںلیکن جذباتی بھوک بہت ہولناک ہے، یہ اپنے اندر تباہی چھپائی بیٹھی ہیں، اس پر قابو پانا ضروری ہے۔ ہر ذی شعور انسان کو جذباتی پختگی کے لئے ابھی سے ہی دوڑ دھوپ کرنی چاہیے۔ حکومت کو بھی اس معاملے میں حساس ہونا چاہیے۔ نہ جانے کتنے ایسے لوگ ہیں جو اپنے اندر جذباتی ناپختگی کی لاتعداد اَن سُنی کہانیاں چھپائے بیٹھے ہیں۔ اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے ہمیں جاگنا چاہیے، خاص کر چھوٹے بچوں اور نوجوانوں کی فکر کرنا اہم ہوگیا ہے۔ وہ ناتجربہ کار ہونے کی وجہ سے زیادہ جذباتی ناپختگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تو آئیے!جذباتی پختگی کی راہ پر ساتھ ساتھ چلیں۔
(حاجی باغ بمنہ، سرینگر،رابطہ۔ 9103916455)
[email protected]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔