دنیوی خوشی اور راحت کا حصول انسانی فطرت میں ودیعت ہے لیکن یہ احساس کبھی کبھار اس قدر غالب آتا ہے کہ سکون قلب اور ذہنی راحت جیسی عظیم نعمت سے انسان محروم ہوجاتا ہے۔ دراصل انسانوں کی غالب اکثریت ایک دوسرے کو مسابقت کی دوڑ میں پچھاڑنے میں لگی ہے۔ نوکری، پرموشن، تجارت میں منافع، ماتحتوں پر غلبہ اور آقاؤں کی چاپلوسی، رشتہ داروں کی دیکھا دیکھی وغیرہ وغیرہ ہمارے اجتماعی شعور پر اس قدرحاوی ہیں کہ امتحانی پرچوں کی خریداری تک پر ہم لاکھوں روپے خرچنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔پس ایک خیالی دنیا ہے جس میں ہم ایک دوسرے پر سبقت لینے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے جا رہے ہیں۔ اس اندھی دوڑ کے دوران دو گروہ وجود میں آتے ہیں: اول تو وہ جو اپنی خوابوں کی دنیا میں اس قدر غرق ہوجاتے ہیں کہ اپنے ارد گرد لوگوں کو ہیچ سمجھتے ہیں، دوم وہ جو اپنے اَرمانوں کی نگری بسانے میں ناکام ہوجاتے ہیں اور بعد میں سرمایہ داری کو دنیا کا سب سے بڑا مسلٔہ قرار دیتے ہیں۔ یہ گروہ مسلسل ذہنی کشمکش اور کرب میں مبتلا رہتا ہے۔ ایسے پریشان حال آدمی کے لئے دنیا ایک تعذیب گاہ بن جاتی ہے، اُسے ہر شخص کی سوچ ’’غلط‘‘ دکھائی دیتی ہے، وہ پورے معاشرے پر یہی ’’غلط‘‘ لیبل چسپاں کرتا ہے اور اپنے حلقہ ٔیاراں یہاں تک کہ رشتہ داروں کو بھی اسی لیبل کا مصداق سمجھتا ہے۔ یہ رویہ انسان میں شکایتی مزاج پیدا کرتا ہے اور یہ سوچ اسے ہر عمل یا واقعہ کے منفی پہلو ؤں کو سب سے بڑا مسلٔہ قرار دینے پر مجبور کردیتی ہے۔
امیر ہو یا غریب، ادنیٰ سماجی حلقے ہوں یا سربر آوردہ طبقے، آج کل سبھی لوگ ذہنی پریشانی کا شکار رہتے ہیں۔ دنیا میں فی الوقت لوگ بلالحاظ مذہب و ملت ، رنگ و نسل یا علاقہ کسی نہ کسی طرح کے ذہنی خلجان کے شکار ہیں۔ پوری دنیا گویا ڈپریشن کی دبیض چادر میں لپٹی ہوئی ہو۔ سب لوگ ذہنی سکون کے طالب ہیں۔ کچھ لوگ تفریح گاہوں کی تعمیر میں اس کا علاج ڈھونڈتے ہیں، کچھ لوگ آسودہ حالی اور سرمایہ کی ریل پیل سے سکون حاصل کرنا چاہتے ہیں، کچھ لوگ اس کا علاج کسی اور چیز کو سمجھتے ہیں۔ لیکن اصل مسلٔہ یہ ہے کہ سکون ِ قلب کا دارومدار یہ حقیقت سمجھنے پر ہے کہ خالق کائنات اس دنیا کو کیسے چلاتا ہے۔ جو کوئی دنیا کو سمجھنے اور اس کے نشیب و فراز کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنے میں کامیاب ہو ، وہ ذہنی سکون بھی حاصل کرپائے گا۔ اس بات کو ذرا گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
لوگوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ موت زندگی کا خاتمہ ہے، لہٰذا وہ مختصر دنیوی زندگی میں اپنے سبھی اَرمانوں اور آرزؤں کی عملی تصویر دیکھنا چاہتے ہیں۔ بس یہیں سے وہ اندھی دوڑ شروع ہوجاتی ہے جس کا اوپر ذکر کیا ۔ گویا ہر شخص کو ایک طرح کی ڈیڈلائن دی گئی ہے کہ اُسے ساٹھ یا ستر سال کی عمر میںسب کچھ کر گزرنا ہے، اور یہی اُس عالمگیر بیماری کی جڑ ہے جسے ہم ذہنی تناؤ یا ڈپریشن کہتے ہیں۔ اگر کوئی یہ بات سمجھ پاتا ہے کہ اللہ اس دنیا کو کس طرح چلاتا ہے تو اس کی زندگی کے تمام مسائل خودبخود حل ہوجائیں گے۔ بزرگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جس نے یہ راز جان لیا کہ خدا دنیا کو کیسے چلاتا ہے اور کس اصول پر چلاتا ہے، تو گویا اس نے خد ا کو جان لیا۔ یہ ایک خالص اور سادہ سی بات ہے، کوئی بڑا فلسفہ نہیں۔بات یہ ہے کہ یہ دنیا عارضی ہے، یہ جنت یا دوزخ میں جانے سے قبل ایک امتحان گاہ ہے، یہ ہاتھ بھی آئے تب بھی کچھ نہیں آتی کہ آخر کار مرنا تو خالی ہاتھ ہی ہے۔ اس کے برعکس آخرت ابدی دنیاہے، جس کی سنور گئی تو ابداً ابدا اسی کی ہوگئی۔اس نگاہ سے دنیا کو دیکھئے تو یہ محض کھیل تماشہ معلوم ہوگی۔
اللہ تعالیٰ سورۃ الانعام کی آیت نمبر32میں فرماتا ہے: ’’یہ دنیا کی زندگی تو بس ایک کھیل اور تفریح ہے، جب کہ آخرت کا گھر متقی لوگوں کے لئے زیادہ بہتر ہے۔(تم اس فرق کو)کیوں نہیں سمجھتے‘‘۔ اسی طرح سورۃ الملک کی دوسری ہی آیت میں اللہ فرماتاہے:’’زندگی اور موت کو ہم نے اس لئے بنایاتاکہ یہاں رہنے والے لوگ آزمائے جائیں۔‘‘ قرانِ کریم کے ان حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اس دنیا کی اصل حقیقت کیا ہے۔ جوں جوں ہم اس قرانی مزاج سے دُور ہوتے ہیں توں توں ہم ذہنی تناؤ کی مختلف شکلوں والی بیماریوں میں مبتلا ہو کر رہ جاتے ہیں۔ عدم برداشت، وسوسہ، اندیشہ ہائے دوردراز، تناؤ، قلبی تذبذب، نااُمیدی، حزن ویاس، حسد، کینہ پروری، قنوطیت وغیرہ دراصل ایک ہی بیماری کی مختلف شکلیں ہیں۔عجب نہیں دل کا دورہ، برین ہیمریج یعنی دماغ کا دورہ، زیا بیطس وغیرہ بیماریاں عام ہیں۔ موت تو بہرحال معین ہے ، لیکن فکر دنیا سے ہم ان بیماریوں کو خود پر مسلط کردیتے ہیں، اور موت تک کا سفر خود اپنے ہی ہاتھوں مشکل بنادیتے ہیں۔اس غلط اور غیرفطری زاویہ نگاہ کی بعض عیاں علامات حسب ذیل ہیں: غیرضروری توقعات اور اُمیدیں باندھنا،روپے پیسے کی کمی یا فوری نفع کا سراغ نہ پانے پر ٹھنڈی آہیں بھرنا،ہر دم شکایتیں کرتے رہنا،ہر پل رشتہ داروں یا اقرباء کے تئیں بدظنی، اوروں کی غلطیاںمعاف کرنے میں ہچکچاہٹ اور بیوی بچوں کے ساتھ اکثر ناچاقی کرنا،لوگوں پر اعتبار نہ کرنا،اور تمام ذمہ داریوں کا بوجھ خود ہی اُٹھانے پر بضد رہنا،جہیز نہ ملنے پر بیوی کو ہراساں کرنا اور غلطاقدام پر مجبور کرنا،امتحان یا نوکری میں خود ساختہ اہداف حاصل نہ کرنے پر پریشان ہونا،ذہنی تناؤ سے بچنے کے لئے منشیات یا جرائم کی طرف مائل ہونا وغیرہ وغیرہ آج کل لوگ بلڈپریشر کے لئے جسمانی ورزش کرتے ہیں، شوگر کے خلاف عجیب غریب جڑی بوٹیوں کا رس پیتے ہیں، موٹاپے کے لئے مہنگی مشینوں پر گھنٹوں آسن کرتے ہیں۔ ان سب چیزوں کی طبی یا تکنیکی اہمیت اپنی جگہ مگر ذہنی تناؤ اور بے دلی کا علاج ان سب میں نہیں۔ بیماری کی جڑ تو زندگی کے بارے میں وہ غلط زاؤیہ نگاہ ہے، جس کی عینک سے اکثر لوگ دنیا اور مسائل ِ دنیا کو دیکھتے ہیں۔
رابطہ : 9469679449
ای میل: [email protected]