سید مصطفیٰ احمد
اسی اخبار کے پہلے صفحے پر دس ۱۰ فروری ۲۰۲۴ کو ایک خبر شائع ہوئی تھی جو دیکھنے میں تو عام سی خبر لگ رہی تھی لیکن اگر اُس کی گہرائی میں اُترا جائے تو ایک ایسے خاموش طوفان کی نشاندہی کرتی ہے جو اپنے ساتھ تباہیوں کے سامان چھپائے بیٹھی ہے۔یہ خبر ایک تحقیق پر مبنی ہے جو ملک کے ساتھ ساتھ کشمیر کے بارے میں بھی کچھ اہم معاملات کے متعلق جانکاری فراہم کرتی ہے۔ اس تحقیق کے مطابق ہندوستان60 سال کے عمرکے 14 کروڑ لوگوں لوگوں میں قریباً ایک کروڑ لوگ کسی نہ کسی ذہنی بیماری کا شکار ہے۔ Dementia بھی اس تحقیق کا خاص موضوع رہا ہے۔ اگر جموں و کشمیر کی بات کریں تو یہاں 60 سے زائد عمر کے لوگوں میں ذہنی امراض کی شرح 13 فیصدی سے زیادہ پائی گئی ہے۔ جموں و کشمیر میں انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیرو سائنسز کی تحقیق کے مطابق بیشتر ذہنی مریض 14 سے 40 سال عمر کے ہیں۔ اس خبر نے سب کو تو نہیں ، لیکن بیشتر افراد کو سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ اس ضمن میں کیا کیا جانا چاہیے۔ وہ لوگ جو ذہنی امراض سے کم و بیش واقف ہیں، ان کے لیے لوگوں کا اس حد تک ذہنی امراض میں مبتلا ہونا اچھے حال اور مستقبل کی قطعاً کوئی نوید نہیںہے۔ ان لوگوں کا حال کیا ہوگا جو آنکھوں سے اوجھل ان امراض میں گُھٹ گُھٹ کر جی رہے ہیں۔ ان کے دن رات کیسے گزرتے ہونگے۔ صبح کی شروعات افسردگی سے، تو رات بے چینی کی نذر ہوجاتی ہوگی۔ چاہ کر بھی خوش رہنا اُن کے نصیب میں نہیں ہوتا ہوگا۔ دوسروں کو اپنے روزمرہ کاموں میں مصروف پاکر وہ بےچینی کی اَتھاہ گہرائیوں میں چلے جاتے ہونگے۔ ماضی کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے آنکھوں سے آنسوؤں کی ندیاں بہتی ہونگی۔ اُنہیںدن کانٹوں کی طرح چُبتے ہونگے،انہیں بہاروں میں بھی خزاں کی جھلکیں دکھائی دیتی ہوں گی۔ گویا اُن پر اب ایسے کالے بادل منڈلا رہے ہیں کہ زندگی موت کا دوسرا نام بن چکاہے۔ اب ہر جگہ صرف موت ہی دکھائی دیتی ہے۔ ہنستے ہوئے چہرے روتے ہوئے دِکھائی پڑتے ہیں۔
اب جو سوال ذہن میں اُٹھتا ہے، وہ یہ کہ آخر ایسے کون سے وجوہات ہیں جو ان اعصابی بیماریوں کو جنم دیتے ہیں۔ وہ کونسے محرکات ہیں جن کی وجہ سے ذہنی طوفان کی نہ تھمنے و الی آندھیاں چلتی رہتی ہیں۔ ذیل میں ہم کچھ وجوہات کا مختصر ذکر کر رہے ہیں۔
پہلی وجہ ہے مادیت پرستی: ۔شائد اب لوگوں کا جینا اور مرنا محض مادیت پرستی تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ ایک انسان کے دن اور رات اِسی فکر میں گزرتے ہیں کہ مادیت کی بے لگام دوڑ میں وہ کس مقام پر کھڑا ہے۔ اُس کے پاس کتنے مکان، گاڑیاں، زمینیں، بینک بیلنس وغیرہ ہیں۔ اُس نے کتنا کمایا اور کتنا خرچ کیا ہے۔ دنیا کا امیر ترین آدمی بننے کے لیے اب اُس کو اور کتنے پیسے بٹورنے ہیں۔ جو بھی شخص مادیت میں مذکورہ شخص سے آگے ہے تو بعدالذکر شخص کو تب تک سکون میسر نہیں ہوتا ، جب تک وہ اس کو کسی بھی طریقے سے پچھاڑ نہیں دیتا۔ لیکن اگر کسی بھی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہوسکا تو پھر افسردگی اور ذہنی بیماری اس شخص کے نصیب میں آتی ہے، اس گھمبیر صورتحال کو ہم ذہنی افراتفری کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ایک انسان خود ہی اپنے آپ کو ذہنی امراض کے دلدل میں دھکیل دینے کا کتنا ذمہ دار ہے۔ دوسری وجہ ہے سیاسی افراتفری: ۔ سیاسی ناہمواریوں کی وجہ سے لوگوں کی حقیقی نشوونما نہیں ہوپاتی ہے، جب لوگ اپنے اندر کی باتوں کا اظہار نہیں کرپاتے ہیں تو وہ اندر ہی اندر سے گھٹن محسوس کرتے ہیں۔ اس سے اُن پرچڑچڑا پن اور مایوسی کا منحوس سایہ ڈھیرا ڈالتا ہے جو دور ہونے کا نام نہیں لیتا ہے۔ سیاسی گھٹن اُس وقت بھی پیدا ہوتی ہے جب حکمرانوں کے ہاتھوں لوگوں پر نازیبا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ جب معصوموں پر زیادتیاں کی جاتی ہیں تو وہ انصاف کادروازہ کھٹکھٹاتے رہتے ہیں اور انصاف کا انتظار کرتے ہوئے ذہنی افراتفری کا شکار ہوتے ہیں۔ کبھی کبھارسیاست کی آڑ میں اپنوں کا پاس و لحاظ نہیں رہتا ہے اور انتہائی قدم بھی اُٹھاتاہے اور پھر جیل کی سلاخوں میں آجاتا ہے جس کا نتیجہ جذباتی کھلبلی کے روپ میں نکل کر آتا ہے۔ لوگ اپنوں سے دور ہونے کا غم سہہ نہیں پاتے ہیں اوراپنے عزیزوںکی یادوںکی لہریں اُن کے دل اور دماغ سے ٹکراتی رہتی ہیں اور طوفان اُٹھاتی ہے۔ تیسری وجہ ہے عالمی تناؤ: ۔ آج پوری دنیا جنگوں اور افراتفری کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ یوکرین پر روس کی جارحیت کے علاوہ غزہ پر اسرائیلی حملے نے پوری دنیا کو مصائب و آلام کے حوالے کر دیا ہے۔ تیل کی قیمتوں کے علاوہ کھانے کی چیزوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، غرباء کا جینا محال ہوگیا ہے۔ مزدوری مشکل سے ہی ملتی ہے، قرضوں کا بوجھ اب اتنا بھاری ہوگیا ہے کہ غرباء یا تو خودکشیاں کرتے ہیں یا پھر ذہنی امراض کے تھپیڑوں کا نذر ہوجاتے ہیں۔ عالمی افراتفری نے امیروں کو امیرتر لیکن غریبوں کو غریب تر بنا دیا ہے۔ دولت اب مخصوص ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔ یہی tycoons دنیا کی بساط لپیٹتے ہیں، یہ لوگ جب چاہتے ہیں تو دنیا کو جنگ کے حوالے کرتے ہیں اور امن کی کنجی بھی اُن کے ہی ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اس صورتحال میں عام انسان کا جینا حرام ہوجاتا ہے، تو ایسے میں ذہنی کوفت میں مبتلا ہونا کوئی بڑی بات بھی نہیں ہے۔ چوتھی وجہ ہے گھریلو جھگڑے :۔ گھریلوجھگڑوں نے بھی ہر کسی کو، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، ذہنی تناؤ میں مبتلا کر دیا ہے۔ بڑوں کی آپسی رنجشیں جہاں بذات خود بڑوں کو تباہ کر دیتی ہے، اس وہیں چھوٹے بچے بھی اِن آپسی رسہ کشیوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ بزرگوں کی زندگیوں میں تو سورج پہلے ہی ڈھل گیا ہوتا ہے، مگر ان کا گھریلو لڑائیوں کا محرک بننا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ لیکن کبھی کبھار اپنے اولادوں کو ایک دوسرے کا گریبان پکڑتے ہوئے ان پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے اور وہ سوچ کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ذہنی بیماریوں کا نرم نوالہ بن جاتے ہیں۔ جس گھر میں ہر روز گالی گلوچ اور مار دھاڑ کی نوبت آتی ہو،وہاں ایک انسان کا جذبات کی رو میں بہنا عام سی بات ہے۔ اس ماحول میں تناؤ کی انتہا ہر گزرتے پَل کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ظاہر ہے ،یہی ہوگا کہ گھر کا ہر کوئی فرد ذہنی مریضوں کی لمبی قطار میں کھڑا ہوجائے گا۔ پانچویں وجہ ہے ہمارا سماجی رویہ: ۔ ہم نے خودہی اپنے منصب کو بھُلا کر اُن راہوں پر چلنا شروع کردیا ہے جو صرف تباہی کی طرف لے جاتے ہیں۔ میں ایک عام انسان ہونے کے ناطے جب خود سے سوال کرتا ہوں کہ میری بے چینی اور افسردگی کی وجہ کیا ہے۔ تو میں صرف اپنے آپ کو ذمہ دار ٹھہراتا ہوں۔ خدا نے مجھے دانائی دی ہے، اس دانائی کا صحیح استعمال کرکے کم از کم میں اپنے لیے خوشی اور اطمینان کے دو پَل تو حاصل کرسکتا تھا۔ لیکن اپنے نفس اَمارہ اور دنیا کی رنگینیوں کا میں اتنا خوگر ہوگیا ہوں کہ مجھے اپنا آپ یاد ہی نہیں رہا ہے اور جو انسان اپنے آپ کو کھوتا ہے وہ ہر چیز سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، آج کے انسان کا یہی حال ہے۔ آج کا انسان وفاداری کتوں میں ڈھونڈتا ہے۔ اپنے من کو بہلانے کے لیے جانوروں کے ساتھ گھومتا پھرتا ہے، سکون پانے کے لئے جانوروں کے ساتھ جیتا ہے۔اب اس حالت میں ذہنی مرض میں مبتلا ہونا بہت ہی آسان ہے۔ جس انسان کو اعلیٰ مقصد کے لیے دنیا میں بھیجا گیا تھا ،وہ چند مخصوص چیزوں کا شیدائی ہوگیا ہے۔ اس لئے نہ صرف اپنی زندگی کی تباہی بلکہ دوسروں کے لیے بھی پریشانی کا سبب بن جاتاہےساتھ ہی آنے والے کل کے لیے بھی تباہی کا سامان چھوڑ کرچلا جاتا ہے۔
تو ایسی صورت حال میں جیسے کہ مضمون کے ابتداء میں ہی لکھا گیا ہے کہ اس ذہنی امراض کے طوفان کو بہر صورت روکنا ہوگا۔ سب کو اس میں اپنا بیش قیمتی تعاون دینا ہوگا۔ انفرادیت سے لے کر اجتماعیت کی سطحوں پر ہر ذی شعور انسان کو خود بھی اور دوسروں کو بھی اِن زندہ مار دینے والے امراض سے کوسوں دور رہنے کی بھرپور کوششیں کرنی چاہئے۔ اب جو ذہنی امراض میں مبتلا ہیں، ان کے ساتھ نرمی اور پیار سے پیش آنا چاہیے۔ان کو یہ احساس دلایا چاہئے کہ ذہنی بیماریاں کوئی عیب نہیں ، یہ عام بیماریوں کی طرح ہیں۔ اس میں بھید بھاؤ کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ حکومت کو بھی اس ضمن میں اپنا رول نبھانا چاہیے۔ سیاسی ناہمواریوں اور اقتصادی بحرانوں سے ملک کو بچانے کی کوششیں کی جانی چاہئے۔ مزید برآں فیملی نظام کو صحیح راستے پر لانے کی اشدضرورت ہے۔ گھرہی تو پہلا مدرسہ ہے، جو اس مدرسے میں اچھی تربیت پاگیا،اُس کی زندگی میں کوئی بھی سختی توڑنے کے لئے نہیں، بلکہ کچھ تعمیر کرنے کے لئے آتی ہے۔ گھر کی اقتصادی حالات کو ٹھیک کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں بھی دماغی صحت پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ نصاب میں ایک کتاب کو شامل کیا جانا چاہیے جو mental health کے موضوع پر ہو۔ پہلے ہی دن سے طلباء کو یہ بات واضح ہوجائے کہ دماغی توازن سے بڑھ کر اور کوئی توازن نہیں ہے۔ اس دولت کے آگے باقی ساری دولت بے وقعت ہے۔ جاتے جاتے ہم سب کو چاہئے کہ اس دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کی کوششیں کریں۔ اختلافات تو ختم نہیں ہوسکتے ہیں لیکن ان کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اطمینانِ قلب کے دروس کو بھی عام کرنا اب سب کی اولین ذمہ داری ہے۔ مادہ پرستی تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اپنے آپ کو مادیت سے اوپر اٹھانا ہوگا۔ وقت کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ہم سب کو ذہنی بیماریاں کا کوئی نہ کوئی حل نکالنے کی دوڑ میں لگنا چاہیے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے۔
حاجی باغ، بمنہ، سرینگر
رابطہ۔ 9103916455