محمد الطاف ثاقِب ۔سرنکوٹ
آزادی کے بعد سے ہی ملک میں تعلیم کے میار کو بڑھانے کے لئے مختلف سطحوں پر کام کئے جا رہے ہیں۔چاہے وہ سرو شیکشا ابھیان کی بات ہو یا پھر مفت تعلیم کا قانون ہو، تمام کوششوں کا واحد مقصد ملک میں تعلیم کی سطح کو بڑھانا ہے۔ لیکن اس کے باوجود نتائج تسلی بخش نہیں رہے ہیں۔ ملک میں تعلیم کی سطح ابھی بھی ہدف سے بہت دور ہے۔ خصوصاً دیہی علاقوں میں تعلیم کا میار بہت کم درج کیا جاتاہے۔ این جی او پرتھم کی 18ویں سالانہ اسٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹ (اثر)2023 میں ملک کے دیہی علاقوں میں تعلیمی صورتحال پر بہت تفصیل سے بات کی گئی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق دیہی علاقوں کے سرکاری اسکولوں میں اب بھی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔یہ رپورٹ ملک کے 585 میں سے 550اضلاع کے 14,724سرکاری اسکولوں میں کئے گئے سروے کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق جہاں 7-16سال کی عمر کے 2.3فیصد لڑکے اور لڑکیاں اسکول سے دور ہیں وہیں 15-16 سال کی عمر میں یہ تعداد بڑھ جاتی ہے۔لڑکوں کے سات فیصد کے مقابلہ 7.9فیصد دیہی علاقوں کی لڑکیاں اسکول سے دور ہو جاتی ہیں۔حالانکہ 2018سے 2022کے دوران دیہی علاقوں میں اسکول سے دور رہنے والے بچوں کی تعداد میں کمی تو آئی ہے لیکن اب بھی 7.5فیصد بچے اسکولی تعلیم سے محروم ہیں۔
دیگر علاقوں کی طرح مرکز کے زیر انتظام جموں کشمیر کے دیہی علاقوں میں بھی ایسی ہی صورتحال نظر آتی ہے۔جہاں دیہی خواندگی کی شرح بہت اچھی نہیں ہے اور اگر خواتین کی خواندگی کی شرح کی بات کی جائے تو یہ اور بھی تشویشناک ہو جاتی ہے۔ اس میں اسکول میں بنیادی سہولیات کی کمی کے ساتھ ساتھ دیگر کئی وجوہات ہیں جو بچوں خصوصاً لڑکیوں کو اسکول چھوڑنے پر مجبور کر دیتی ہے۔اس کی ایک مثال جموں کے پونچھ ضلع کے منڈی میں واقع دور دراز علاقہ بائیلہ گاؤں کی پندرہ سالہ صوبیہ تبسم ہے۔ جو بائیلہ کے محلہ ٹنڈیاں کی رہائشی ہے اورہا ئی اسکول بائیلہ میں نویں جماعت میں زیر تعلیم ہے۔وہ بتاتی ہے کہ’’میں اپنے تین بھائی بہنوں میں سب سی بڑی ہوں۔ میں دسویں جماعت تک ہی پڑھ پاؤں گی ،اس سے آگے تعلیم حاصل کرنا میرے لیے ممکن نہیں ہوگا کیونکہ میرے والد نہایت ہی غریب ہیں۔ وہ اتنی استطاعت نہیں رکھتے کے ہماری تعلیم کا خرچ اٹھا سکیں۔‘‘
صوبیہ تبسم نے بتایا کہ ہمارے گھر میں میرے والد کے علاوہ اور کوئی کمانے والا نہیں ہے، والد کی دیہاڑی کبھی لگتی ہے اور کبھی نہیں۔ جو پیسہ کما کر گھر لاتے ہیں وہ شام کو کھانے پینے کے سامان میں ہی خرچ ہو جاتے ہیں۔ وہیں ہم جب ایک ایک جماعت اوپر جا رہے ہیں تو اخراجات بڑھ رہے ہیں، کاپی پنسل، وردی کے پیسے بھی نہیں پورے ہوتے ہیں۔ ہر آئے دن مہنگائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ خرد ونوش کی اشیاء بھی مہنگائی میں آسمان چھو رہی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ ہمارے گاؤں میں ہائر اسکینڈری اسکول نہیں ہے، اس کے لئے مجھے منڈی جانا ہوگا۔ لیکن وہاں تک کا کرایہ دینے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے ہیں۔اس نے بتایا کہ ابھی میری عمر اٹھارہ سال بھی نہیں ہوئی ایسے میں میں سرکار کی’’ویشوا کرما‘‘ اسکیم کے تحت کپڑے سیلنے کی مشین لا کر ابو کے ساتھ کچھ ہاتھ بٹاؤں۔صوبیہ کہتی ہے کہ ہمارے گاؤں میں ان پریشانیوں سے صرف میں ہی نہیں جوجھ رہی بلکہ زیادہ تر لڑکیوں کے ساتھ ایسی ہی پریشانیاں ہیں۔
وہیں تعلیم چھوڑ کرمزدوری کا کام کر رہے شبیر احمد بتاتے ہیں کہ ان کی عمر اٹھارہ سال ہے اوروہ آٹھویں جماعت پاس ہیں۔انہوں نے بتایا کہ میرے گھر کے معاشی حالت بہت اچھی نہیں ہے۔ روزگار بالکل بھی نہیں ہے۔جب وہ اسکول پڑھ رہے تھے تو ان کی توجہ تعلیم حاصل کرنے کی تھی لیکن پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ان کو اسکول چھوڑنا پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے بھائی بھی مزدوری کرتے ہیں، جس سے کہ گھر کا چولہا جلتا ہے۔گھر چلانے کی فکر میں ہی ان کو اسکول چھوڑنا پڑا۔ان کا خیال ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کوئی گارنٹی نہیں کہ ملازمت ملے ہی جائے۔ اگر ملازم نہ ہوئے تو گھر کا چولہا بند ہو جائے گا۔اس لیے میرے گھر والوں نے بھی ادھر ہی توجہ دلائی کہ کچھ کمائیں۔ محلہ ٹنڈیاں کے دو طالب علموں محمد سہیل اور ابرار احمد، جن کی عمر دس اور بارہ سال ہے، اور وہ چھٹی اور ساتوں کلاس میں زیر تعلیم ہیں، انہوں نے بتایا کہ گاؤں میں بجلی کی کٹوتی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اسکی وجہ سے ہم اپنے امتحانات کی تیاری نہیں کر پاتے ہیں۔ وہیں محلہ ٹنڈیاں کے رہائشی اٹھارہ سالہ مہناز انجم اور بیس سال کے راشد لطیف بھی دیہی علاقوں میں تعلیمی نظام پر اپنی رائے رکھتے ہیں۔
مہناز انجم نے اپنی بنیادی تعلیم دسویں کلاس تک ہائی اسکول بائیلہ میں حاصل کی، بارہویں کلاس گرلز ہائر اسکینڈری اسکول منڈی سے پاس کی۔ اس وقت مہناز بی اے چہارم سمسٹر کی طلبہ ہیں اور گورنمنٹ کرشن چندر کالج پونچھ میں زیر تعلیم ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ تعلیم کی اس منزل کو طےکرنے میں میں نے بہت سی پریشانیوں کا سامنا کیا ہے۔اسکول میں میاری تعلیم اور بنیادی سہولیات دونوں کا فقدان رہا۔وہ کہتی ہیں کہ منڈی میں بھی ایک کالج ہے لیکن اس کی حالت بہت ہی خستہ ہے۔ اس کالج کی تعمیر ابھی تک شروع نہیں ہوئی ہے۔ کالج کی عمارت کسی دوسری جگہ ایڈجسٹ کی ہوئی ہے۔ وہیں راشد لطیف جموں یونیورسٹی میں ایم اے کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دیہی علاقوں میں تعلیم کا نظام بہت کمزور ہے۔ سڑک کونیکٹیویٹی بھی نہیں ہے۔ بچوں کو دور دور تک پیدل چل کر جانا پڑتاہے۔ اسکولوں میں اسٹاف بھی نہیں ہے، جس سے طلباء کی بنیادی تعلیم پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ جس کے چلتے بعد میں انہیں بہت پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے اور بہت سے طلبا اپنی تعلیم بیچ میں ہی چھوڑ دیتے ہیں۔
وہیں والدین بھی دیہی علاقوں میں تعلیمی نظام سے خوش نہیں ہیں۔ممتاز احمد، جن کی عمر پینتیس سال ہے، ان کا کہنا ہے کہ ان کے بچے پرائمری اسکول میں پڑھتے ہیں۔جہاں پڑھائی اچھی نہیں ہوتی ہے۔بچے بہت ہی لاپرواہی میں دن گزار رہے ہیں۔جس سے ان کی بنیاد کمزور ہو جاتی ہے۔جموں کشمیر کے محکمہ اسکول ایجوکیشن کی ویب سائٹ کے مطابق یہاں خواندگی کی شرح 68.74فیصد ہے جو قومی سطح کے 74.04فیصد کے مقابلہ کم ہے۔جبکہ دیہی خواندگی کی شرح محض 53.61فیصد ہے۔ وہیں خواتین میں خواندگی کی شرح کی بات کی جائے تو جموں کشمیر میں اس کا فیصد مردوں کے 78.26 فیصد کے مقابلہ محض 58.01فیصد ہے۔یہ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ دیہی علاقوں کے اسکولوں کے بنیادی ڈھانچے کو درست کرنے کی بہت ضرورت ہے۔جب تک اس جانب کوشش نہیں کی جائے گی تب تک دیہی علاقوں کے بچے تعلیمی بحران کا شکار ہوتے رہیں گے۔ اس کے لئے محکمہ کے ساتھ ساتھ سماج کو بھی سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔(چرخہ فیچرس)