نیشنل ہیلتھ مشن یاقومی صحت مشن کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مجموعی طور دیہی علاقوںمیں طبی سہولیات بہتر بنانے کے علاوہ خصوصی طور پر زچگی کے دوران نوزائیدوں کی شرح اموات میں کمی لانے کیلئے ادارہ جاتی زچگی کو فروغ دیا جائے ۔گوکہ اس مشن کے نتیجہ میں ہسپتالوں میں ہونے والے زچگی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے تاہم دیہی علاقوں کے طبی مراکز میں آج بھی ماہر امراض خواتین کی شدید قلت پائی جارہی ہے اور اس پر طرہ یہ کہ ماہر ڈاکٹروںکی عدم موجودگی میں محض ووٹ بنک سیاست گزشتہ کچھ برسوں کیلئے ایک کے بعد زچگی مراکز کھولے گئے۔دستیاب اعدادوشمار کے مطابق دیہی کشمیر کے تقریباً ساٹھ ہسپتالوں میںمحض 44ماہر امراض خواتین تعینات ہیں جبکہ انڈین پبلک ہیلتھ سٹینڈارڈ کی جانب سے وضع کردہ ضوابط کے مطابق ہر ضلع ہسپتال میں کم از کم دو جبکہ ہرکمیو نٹی ہیلتھ سنٹر یا سب ضلع ہسپتال میں ایک ماہرامراض خواتین تعینات ہونا چاہئے ۔دیہی طبی سہولیات کی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 14ہسپتالوں میں سرے سے ہی ماہر امراض خواتین موجود نہیں ہیںحالانکہ کشمیر کے دو میڈیکل کالجوں ،گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر اور سکمز میڈیکل کالج سرینگر سے سالانہ 16ماہر امراض خواتین نکلتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر سے ہی 12ڈاکٹر شعبہ امراض خواتین سے ڈپلومہ حاصل کرکے نکلتے ہیں تاہم ہر سال 28ڈاکٹر دستیاب ہونے کے باوجود کشمیر کے دیہی شفاخانوں میں خواتین مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔اس حساس مسئلہ کی جانب سرکار کی غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ 2005سے2017سے ماہر امراض خواتین کی صرف18اسامیاں تخلیق کی گئی تھیں جو خالی پڑی ہیں جبکہ کمیو نٹی ہیلتھ سنٹروں کی سطح پر بھی ایسے ڈاکٹروں کی34اسامیاں برسہا برس سے خالی پڑی ہیں اور انہیں پُر کرنے کیلئے اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں۔
جموں وکشمیر وہ واحد ریاست تھی جہاں ایم بی بی ایس کی50فیصد نشستیں خواتین امیدواروں کیلئے اس مقصد کے تحت مخصوص رکھی گئی تھیں تاکہ ماہر امراض خواتین کی قلت پر قابو پایا جاسکے تاہم زمینی سطح پر جو صورتحال بنی ہو ئی ہے ،وہ نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ حکومت کے دعوئوں کی قلعی کھول کررکھ دیتی ہے ۔قومی صحت مشن کے تحت مرکزی وزارت صحت کی جانب سے کھربوں روپے دیہی طبی منظر نامہ بدلنے کیلئے سالانہ واگزار کئے جاتے ہیں لیکن کشمیر کی صورتحال یہ ہے کہ یہاں دیہات کا طبی منظر نامہ بدلنے کانام نہیں لے رہا ہے اور یہ مشن محض پیسے کمانے کا ذریعہ بن چکا ہے ۔ایک طرف حکومت کی کوشش ہے کہ شہر میں قائم بڑے ہسپتالوں پر مریضوںکا دبائو کم کیاجائے اور دیہی علاقوں کے ہسپتالوں کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کیا جائے جبکہ دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ دیہی ہسپتالوںمیںجہاں درکار ڈھانچے کا فقدان ہے وہیں لازمی طبی و نیم طبی عملہ کی بھی قلت پائی جارہی ہے جبکہ اس کے برعکس شہر اور اس کے مضافاتی ہسپتالوںمیں اثر و رسوخ رکھنے والے تمام سفارشی ڈاکٹر بیٹھے ہیں جو شہر سے نکلنے کو تیار ہی نہیں ہیں ۔ صحت کے شعبہ میں تمام مرکزی سکیمیں کورپشن کا ذریعہ بن چکی ہیں جبکہ نیشنل ہیلتھ مشن کو صرف روزگار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے استعمال کیاجارہا ہے اور سیاسی اثر ورسوخ کی بناء پر لوگوں کی تعیناتی ہورہی ہے تاہم اس مشن کا جو بنیادی مقصد تھا ،وہ فوت ہوچکا ہے ۔مشن کا مقصد دیہی صحت منظر نامہ بدلنا تھا ،جو تاحال نہیں بدلا ہے ۔ صورتحال یہ ہے کہ دیہی ہسپتالوں میں ماہر امراض خواتین کی قلت کا یہ عالم ہے کہ سرینگر کے لل دید ہسپتال کے علاوہ جے وی سی ہسپتال کے شعبہ امراض خواتین میں خاتون مریضوں کا رش دیکھنے لائق ہوتا ہے ۔روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں خواتین ان ہسپتالوں کے او پی ڈی شعبہ کے باہر دیکھی جاسکتی ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دیہی ہسپتالوںمیں سہولیات کا یا تو فقدان ہے یا پھر وہاں قابل ڈاکٹر ہی دستیاب نہیں ہیں۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ شعبہ امراض خواتین کے ماہر ڈاکٹروں کی قلت پر قابو پانے کیلئے اقدامات ہی نہیں کئے جارہے ہیں اور برسہا برس سے یہ اسامیاں خالی پڑی ہیں جبکہ دوسری جانب نئے ہسپتال دھڑا دھڑ کھولے جارہے ہیں اور ان ہسپتالوں کو عوام کے نام وقف کرکے لوگوں کو بے وقوف بنایا جارہا ہے ۔ان ہسپتالوں کا کیا فائدہ جہا ں سہولیات ہی دستیاب نہ ہوں۔اعدادوشمار خود بولتے ہیں کہ صورتحال انتہائی مایوس کن ہے اور اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ زبانی جمع خرچ تو بہت ہورہا ہے تاہم عملی طور زمینی سطح پر کچھ خاص نہیں کیاجارہا ہے۔
ایک طرف خواتین کی بااختیاری کی باتیں کی جارہی ہیں تو دوسری جانب خواتین کی صحت کا کوئی خیال نہیں رکھا جارہا ہے ۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ یہاں سالِ رفتہ تک خاتون امیدواروں کیلئے 50فیصد نشستیں ایم بی بی ایس کیلئے وقف توتھیں لیکن خاتون مریضوں کو نہ تو کل ڈاکٹر دستیاب تھے اور نہ آج انہیں معالج میسر ہیں جس کے نتیجہ میںانہیں سرینگر کے ہسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے ۔اگر سالانہ50فیصد لڑکیاں ایم بی بی ایس کیلئے میڈیکل کالجوں میں داخلہ لیتی تھیں تو کیا وجہ ہے کہ ہمارے یہاں ماہر امراض خواتین کی قلت ہے ۔یہ بھی کیا عجیب اتفاق ہے کہ مرد ڈاکٹر اس وقت نامی گرامی ماہر امراض خواتین ہیں ۔ہم قطعی نہیں کہہ رہے ہیں کہ لڑکیاں شعبہ امراض خواتین ہی چن لیں ۔انہیں میڈیسن کے دیگر شعبے چننے کا حق حاصل ہے تاہم اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ دیگر شعبوں میں ڈاکٹروں کی بہتات ہوجائے اور خواتین ،جو ہماری آبادی کا نصف ہیں ،انہیں دیہی علاقوں میں ڈاکٹر ہی میسر نہ ہوں۔خواتین سے بہتر سماج کی تعمیر ممکن ہے ۔خواتین بچوں کو جنم دیتی ہیں جو قوم کا مستقبل ہوتے ہیں ۔اگر ایسی ہی صورتحال رہی تو نہ ہی دیہی طبی منظر نامہ بدلنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا اور نہ ہی صحت مند سماج کی تشکیل ممکن ہوپائے گی کیونکہ جب خواتین کی صحت اور نوزائیدگان کا وجود ہی خطرے میں ہو تو توانا معاشرہ کیسے تشکیل پائے گا؟۔