Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
اداریہ

دیہی خواتین کو ماہر معالج میسر کیوں نہیں؟

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: March 19, 2022 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
8 Min Read
SHARE
نیشنل ہیلتھ مشن یاقومی صحت مشن کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مجموعی طور دیہی علاقوںمیں طبی سہولیات بہتر بنانے کے علاوہ خصوصی طور پر زچگی کے دوران نوزائیدوں کی شرح اموات میں کمی لانے کیلئے ادارہ جاتی زچگی کو فروغ دیا جائے ۔گوکہ اس مشن کے نتیجہ میں ہسپتالوں میں ہونے والے زچگی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے تاہم دیہی علاقوں کے طبی مراکز میں آج بھی ماہر امراض خواتین کی شدید قلت پائی جارہی ہے اور اس پر طرہ یہ کہ ماہر ڈاکٹروںکی عدم موجودگی میں محض ووٹ بنک سیاست گزشتہ کچھ برسوں کیلئے ایک کے بعد زچگی مراکز کھولے گئے۔دستیاب اعدادوشمار کے مطابق دیہی کشمیر کے تقریباً ساٹھ ہسپتالوں میںمحض 44ماہر امراض خواتین تعینات ہیں جبکہ انڈین پبلک ہیلتھ سٹینڈارڈ کی جانب سے وضع کردہ ضوابط کے مطابق ہر ضلع ہسپتال میں کم از کم دو جبکہ ہرکمیو نٹی ہیلتھ سنٹر یا سب ضلع ہسپتال میں ایک ماہرامراض خواتین تعینات ہونا چاہئے ۔دیہی طبی سہولیات کی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 14ہسپتالوں میں سرے سے ہی ماہر امراض خواتین موجود نہیں ہیںحالانکہ کشمیر کے دو میڈیکل کالجوں ،گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر اور سکمز میڈیکل کالج سرینگر سے سالانہ 16ماہر امراض خواتین نکلتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر سے ہی 12ڈاکٹر شعبہ امراض خواتین سے ڈپلومہ حاصل کرکے نکلتے ہیں تاہم ہر سال 28ڈاکٹر دستیاب ہونے کے باوجود کشمیر کے دیہی شفاخانوں میں خواتین مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔اس حساس مسئلہ کی جانب سرکار کی غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ 2005سے2017سے ماہر امراض خواتین کی صرف18اسامیاں تخلیق کی گئی تھیں جو خالی پڑی ہیں جبکہ کمیو نٹی ہیلتھ سنٹروں کی سطح پر بھی ایسے ڈاکٹروں کی34اسامیاں برسہا برس سے خالی پڑی ہیں اور انہیں پُر کرنے کیلئے اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں۔
جموں وکشمیر وہ واحد ریاست تھی جہاں ایم بی بی ایس کی50فیصد نشستیں خواتین امیدواروں کیلئے اس مقصد کے تحت مخصوص رکھی گئی تھیں تاکہ ماہر امراض خواتین کی قلت پر قابو پایا جاسکے تاہم زمینی سطح پر جو صورتحال بنی ہو ئی ہے ،وہ نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ حکومت کے دعوئوں کی قلعی کھول کررکھ دیتی ہے ۔قومی صحت مشن کے تحت مرکزی وزارت صحت کی جانب سے کھربوں روپے دیہی طبی منظر نامہ بدلنے کیلئے سالانہ واگزار کئے جاتے ہیں لیکن کشمیر کی صورتحال یہ ہے کہ یہاں دیہات کا طبی منظر نامہ بدلنے کانام نہیں لے رہا ہے اور یہ مشن محض پیسے کمانے کا ذریعہ بن چکا ہے ۔ایک طرف حکومت کی کوشش ہے کہ شہر میں قائم بڑے ہسپتالوں پر مریضوںکا دبائو کم کیاجائے اور دیہی علاقوں کے ہسپتالوں کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کیا جائے جبکہ دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ دیہی ہسپتالوںمیںجہاں درکار ڈھانچے کا فقدان ہے وہیں لازمی طبی و نیم طبی عملہ کی بھی قلت پائی جارہی ہے جبکہ اس کے برعکس شہر اور اس کے مضافاتی ہسپتالوںمیں اثر و رسوخ رکھنے والے تمام سفارشی ڈاکٹر بیٹھے ہیں جو شہر سے نکلنے کو تیار ہی نہیں ہیں ۔ صحت کے شعبہ میں تمام مرکزی سکیمیں کورپشن کا ذریعہ بن چکی ہیں جبکہ نیشنل ہیلتھ مشن کو صرف روزگار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے استعمال کیاجارہا ہے اور سیاسی اثر ورسوخ کی بناء پر لوگوں کی تعیناتی ہورہی ہے تاہم اس مشن کا جو بنیادی مقصد تھا ،وہ فوت ہوچکا ہے ۔مشن کا مقصد دیہی صحت منظر نامہ بدلنا تھا ،جو تاحال نہیں بدلا ہے ۔ صورتحال یہ ہے کہ دیہی ہسپتالوں میں ماہر امراض خواتین کی قلت کا یہ عالم ہے کہ سرینگر کے لل دید ہسپتال کے علاوہ جے وی سی ہسپتال کے شعبہ امراض خواتین میں خاتون مریضوں کا رش دیکھنے لائق ہوتا ہے ۔روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں خواتین ان ہسپتالوں کے او پی ڈی شعبہ کے باہر دیکھی جاسکتی ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دیہی ہسپتالوںمیں سہولیات کا یا تو فقدان ہے یا پھر وہاں قابل ڈاکٹر ہی دستیاب نہیں ہیں۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ شعبہ امراض خواتین کے ماہر ڈاکٹروں کی قلت پر قابو پانے کیلئے اقدامات ہی نہیں کئے جارہے ہیں اور برسہا برس سے یہ اسامیاں خالی پڑی ہیں جبکہ دوسری جانب نئے ہسپتال دھڑا دھڑ کھولے جارہے ہیں اور ان ہسپتالوں کو عوام کے نام وقف کرکے لوگوں کو بے وقوف بنایا جارہا ہے ۔ان ہسپتالوں کا کیا فائدہ جہا ں سہولیات ہی دستیاب نہ ہوں۔اعدادوشمار خود بولتے ہیں کہ صورتحال انتہائی مایوس کن ہے اور اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ زبانی جمع خرچ تو بہت ہورہا ہے تاہم عملی طور زمینی سطح پر کچھ خاص نہیں کیاجارہا ہے۔
ایک طرف خواتین کی بااختیاری کی باتیں کی جارہی ہیں تو دوسری جانب خواتین کی صحت کا کوئی خیال نہیں رکھا جارہا ہے ۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ یہاں سالِ رفتہ تک خاتون امیدواروں کیلئے 50فیصد نشستیں ایم بی بی ایس کیلئے وقف توتھیں لیکن خاتون مریضوں کو نہ تو کل ڈاکٹر دستیاب تھے اور نہ آج انہیں معالج میسر ہیں جس کے نتیجہ میںانہیں سرینگر کے ہسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے ۔اگر سالانہ50فیصد لڑکیاں ایم بی بی ایس کیلئے میڈیکل کالجوں میں داخلہ لیتی تھیں تو کیا وجہ ہے کہ ہمارے یہاں ماہر امراض خواتین کی قلت ہے ۔یہ بھی کیا عجیب اتفاق ہے کہ مرد ڈاکٹر اس وقت نامی گرامی ماہر امراض خواتین ہیں ۔ہم قطعی نہیں کہہ رہے ہیں کہ لڑکیاں شعبہ امراض خواتین ہی چن لیں ۔انہیں میڈیسن کے دیگر شعبے چننے کا حق حاصل ہے تاہم اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ دیگر شعبوں میں ڈاکٹروں کی بہتات ہوجائے اور خواتین ،جو ہماری آبادی کا نصف ہیں ،انہیں دیہی علاقوں میں ڈاکٹر ہی میسر نہ ہوں۔خواتین سے بہتر سماج کی تعمیر ممکن ہے ۔خواتین بچوں کو جنم دیتی ہیں جو قوم کا مستقبل ہوتے ہیں ۔اگر ایسی ہی صورتحال رہی تو نہ ہی دیہی طبی منظر نامہ بدلنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا اور نہ ہی صحت مند سماج کی تشکیل ممکن ہوپائے گی کیونکہ جب خواتین کی صحت اور نوزائیدگان کا وجود ہی خطرے میں ہو تو توانا معاشرہ کیسے تشکیل پائے گا؟۔ 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

پیر بابا بڈھن علی شاہ کاسالانہ عرس :صوفی خانقاہیں ہم آہنگی اور امید کے مراکز ہیں: داراخشاں اندرابی
تازہ ترین
ملک میں انگریزی بولنے والے جلد ہی شرمندہ ہوں گے، ایسا معاشرہ بننا زیادہ دور نہیں: امیت شاہ
برصغیر
مسائل کا حل میدان جنگ میں نہیں ، بات چیت اور سفارت کاری آگے بڑھنے کا واحد راستہ :وزیر اعظم مودی
برصغیر
ٹنل کے آرپار گرمی کی شدید لہر،سرینگر میں  35.2ڈگری سیلشس کے ساتھ دہائیو ں کا ریکارڈ ترین گرم دن ریکارڈ
تازہ ترین

Related

اداریہ

ماحولیاتی تحفظ کیلئے راست اقدامات ناگزیر!

June 18, 2025
اداریہ

! جھوٹ کے ہُنرکا بول بالا ہے

June 17, 2025
اداریہ

! ذہنی صحت کا خاص خیال رکھیں

June 16, 2025
اداریہ

! جموں میں شعبہ تعلیم توجہ کا محتاج

June 15, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?