شیخ ولی محمد
علم سے دوری کی ایک وجہ یہ بھی کہ علم کو دو خانوں میں تقسیم کیا گیا ۔(ا) دینی علم اور ( ۲) دنیوی علم ۔ علم کے اس تقسیم کے نتیجے میں مسلمان کئی غلط فہمیوں کے شکار ہوئے ۔ یہاں پر اس حوالے سے چند علمائے اسلام کے تاثرات بیان کیے جاتے ہیں :
٭’’ مسلمانوں نے اپنے دور تنزل میں علم کو جدید و قدیم اور دینی و دنیوی کے خانوں میں تقسیم کردیا ور اب اس تقسیم پر ان کو ایسا اصرار ہے جیسے یہ بھی کوئی شرعی تقسیم ہو اور منزل من اﷲ ہو ۔ ااور جیسے ہر قدیم مقدس اور ہر جدید مکروہ ۔اس خود ساختہ اور غلط تقسیم کا نتیجہ یہ ہے کہ مدارس دینیہ کے فضلاء اور عصری دانش گاہوں کے فارغین کے درمیان بے گانگی کے پردے حائل ہوگئے ہیں ۔ ایک زمانہ کے تقاضوں سے ناواقف اور طاقت کے سرچشمہ سے بے خبر اور دوسرا احکام دین سے ناآشنا اور ملت کے مسائل سے بیگانہ ۔ ایک کے پاس و ہ کشتی نہیں جو طوفانوں کا مقابلہ کرسکے ، دوسرے کے پاس کشتی ہے لیکن ساحل نجات کا اسے علم نہیں ۔
٭ہر علم جو لوگوں کو نفع پہنچائے ، ہر علم جس سے دنیا یا آخرت کی بھلائی یا فائدہ مندی متعلق ہو ، ان تمام علوم کا حاصل کرنا شریعت میں قابل تعریف اور مطلوب ہے ۔ رسول اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم جب علم کے دعُا ء فرماکرتے تھے ۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ عِلْماً نَافِعاً ’’ ۔’’اے اﷲ ہم آپ سے ایسا علم مانگتے ہیں ،جس سے لوگوں کو نفع پہنچے‘‘ اور یہ بھی دعا فرماتے تھے کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنْ عِلْمٍ لَّایَنْفَعُ ’’ ہم ایسے علم سے آپ کی پناہ چاہتے ہیں جو لوگوں کے لیے فائدہ مند نہ ہو‘‘ تو ہر علم جو فائدہ مند ہو اور انسان کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی اس سے متعلق ہو وہ تمام علوم اسلام کی نظر میں قابل تعریف ہیں اور دین و شریعت میں اس لائق ہیں کہ ان کو حاصل کیا جائے‘‘۔) مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی (
٭قرآن کا تصور علم آفاقی اور کائنات کے تمام علوم و فنون پر محیط ہے ۔ ہماری سوچ کی طرح قرآن نے کبھی اور کہیں علم کو محدود دائرے میں یا تنگ خانوں میں محصور نہیں کیا ۔ جب بھی علم کا لفظ استعمال کیا، اس میں زمینوں کی وسعت ، سمندر کی گہرائی اور آسمان کی بلندیاں سمیٹ کر رکھ دیں۔ دینی اور دنیوی علوم کی تقسیم یہ بہت بعد کے دور کی بدعت ہے ۔ نفع بخش علوم دینی اور دنیوی کی تقسیم قبول نہیں کرتے ۔ سائنس ، ہندسہ اور قانون کی تقسیم اگر خالق کی معرفت دنیا کی حقیقت اور احقاق حق کی خاطر ہے تو وہ دینی تعلیم ہے۔ اس کے برخلاف قرآن و حدیث کی تعلیم بھی اگر دنیا طلبی ، جاہ و منصب کے حصول ، شکوک و شبہات کی تخم ریزی اور علمائے اسلام سے چھیڑ چھاڑ ، بحت و مباحثے کے لیے حاصل کی جائے تو وہ دنیا داری ہی نہیں آخرت میں ذلت و رسوائی کا اہم سبب ہوگی‘‘ ۔) مولانا حفظ الرحمان عمری مدنی(
٭’’تعلیم ایک اکائی ہے ۔ اسے دینی اور دنیاوی خانوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن بدقسمتی سے تعلیم کے دودھارے بنادئیے گئے : دینی اور دنیاوی ۔ پھر انہیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کردیا گیا ۔ انہیں ایک دوسرے کا ضد سمجھ لیا گیا ہے ۔ دینی درس گاہوں کا نصاب تعلیم اور وہاں کا ماحول اس طرح بنایا گیا کہ عصری علوم کا وہاں گزرہی نہ ہوسکے ۔ اسکولوں کا نصاب اور نظام اس طرح ترتیب دیا گیا کہ کہیں سے اس کو اسلام اور اسلامی اقدار کی ہوا تک نہ لگے‘‘۔( انعام اﷲ فلاحی )
علم کی دوئی غلط اور غیر اسلامی ہے ۔ دراصل یہ ایک ایسی وحدت ہے جسمیں اصولاً جدید اور قدیم کی تقسیم ہوہی نہیں سکتی ۔ مسلمانوں کے ماضی کی تاریخ پراگر نظر ڈالیں تو وہاں دینی اور دنیوی کی تقسیم نہیں ملتی ۔ ایسی کوئی تفریق نظر نہیں آتی ۔ ماضی میں مسلمان ہر علم کے شیدائی تھے ۔ ایک طرف قرآن ، حدیث ، تفسیر ، فقہ ، عقائد وغیرہ علوم حاصل کرتے تھے تو دوسری طرف اس کے ساتھ ساتھ مذکورہ علوم کی روشنی میں سائنس ، جغرافیہ ، طب ، ریاضی ، کیمیا ، طبعات ، نجوم وغیرہ وغیرہ بھی حاصل کیا کرتے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ساتویں صدی سے سترہویں صدی تک دنیا کے تمام علوم پر جو کام ہوا اور ان میں بے انتہا ترقی بھی ہوئی ۔ ان صدیوں میں جوا یجاد اور انکشاف ہوئے ان کے امام صرف اور صرف مسلم علماء ہی تھے ۔ جیسے جن درسگاہوں سے امام غزالی ، امام رازی ، امام تیمیہ جیسے جلیل القدر علماء نکلے ،انہی درسگاہوں سے جابر بن حیان ، فارابی ، ابن القیم ، ابوعلی سینا ، البیرونی وغیرہ وغیرہ جیسے بلند پایہ سائینس دان اور محقق بھی پیدا ہوئے ۔ ( ڈاکٹر عبد الباری۔ بحوالہ زندگی نو ، جون 2016)
٭’’ میرا عقیدہ ہے کہ علم ایک اکائی ہے جو بٹ نہیں سکتی ۔ اس کو قدیم اور جدید ، مشرقی اور مغربی علمی اور عملی میں تقسیم کرنا صحیح نہیں اور جیسا کہ اقبال نے کہا ؎
حدیثِ کم نظراں ہے یہ قصئہ جدید و قدیم
’’میں علم کی دینی اور دنیوی تقسیم کا بھی قائل نہیں ہوں ۔ میں علم کو ایک صداقت مانتا ہوں یا ایک انسانی تجربہ جو کسی قوم اور ملک کی ملک نہیں اور نہ ہونی چاہیے ۔ میں زندگی کے دوسرے سرچشموں کی بھی جغرافیائی نسل تاریخی یاسیاسی حد بندیوں کاقائل نہیں ۔ میں علم کو ایک وحدت مانتا ہوں اور جس کو کثرت کہا جاتا ہے ، اس کثرت میں بھی مجھے وحدت نظر آتی ہے علم کی وہ وحدت سچائی ہے سچائی کی تلاش ہے۔ علمی ذوق ہے اور اس کو پانے کی خوشی ہے۔ میں علم کی آفاقیت اور اس کی تازگی کا قائل ہوں‘‘۔(مولانا سید ابوالحسن علی ندوی)۔مولانا سید مودوی نئے نظام تعلیم کا خاکہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ سب سے پہلی چیز جو اس نئے نظام میں ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ دینی اور دنیوی علوم کی انفرادیت مٹاکر دنوں کو ایک جان کر دیا جائے ۔ علوم کو دینی اور دنیوی دو الگ الگ قسموں میں منقسم کرنا دراصل دین اور دُنیا کی علٰحدگی کے تصور پر مبنی ہے اور یہ تصور بنیادی طور پر غیر اسلامی ہے۔ اسلام جس چیز کو دین کہتا ہے وہ دُنیا سے الگ کوئی چیز نہیں بلکہ دنیا کو اس نقطہ نظر سے دیکھنا کہ یہ اﷲ کی سلطنت ہے اور اپنے آپ کو یہ سمجھنا کہ ہم اﷲ کی رعیت ہیں اور دنیوی زندگی میں ہر طرح سے وہ رویہ اختیار کرنا جو اﷲ کی رضااور اس کی ہدایت کے مطابق ہو اسی چیز کا نام دین ہے ۔ اس تصور دین کا اقتضایہ ہے کہ تمام دنیوی علوم کو دینی علوم بنادیا جائے‘‘۔
عصر حاضر کے عالمی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر ڈاکٹر یوسف القرضاوی علم کے تئیں مسلمانوں کی غلط فہمیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہے ’’ میں نے یونیورسٹوں اور کالجوں میں میڈیکل انجینئرنگ ، ایگریکلچر ، لٹریچر اور سائنس وریسرچ کے ایسے طلبہ کو دیکھا ہے جن کے خلوص میں کوئی شک نہیں اور وہ اپنے تعلیمی شعبوں میں محض کامیابی ہی حاصل نہیں کرتے بلکہ نمایاں پوزیشن لیتے ہیں وہ دعوت و تبلیغ کے لیے اپنے آپ کو وقف کرکے بخوشی اپنی ان تعلیم گاہوں کو خیرآباد کہہ دیتے ہیں حالانکہ تحقیق و تدقیق میں ان کا یہ کام فرض ِ کفایہ ہے اور اگر اس فرض میں کوتاہی رہ گئی تو اس کاگناہ ساری امت مسلمہ کے سرہوگا ۔ نیت درست ہو اور حدود اﷲ کا خیال رکھا جائے تو یہی تحقیق و جستجو ان لوگوں کے لیے عبادت و جہاد بن جائے گی ۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی مشہور حدیث طلب العلمِ فریضۃ علیٰ کل مسلمہ ( علم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے ) کی تشریح کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ یہاں فرض علم سے مراد دین کے علم اور دنیا کے علم کی وہ کم سے کم حد ہے جو ہر مسلمان کے لیے ناگزیر ہے ۔ دنیاوی علم کی کم سے کم حد وہ ہے جو اس ناخواندگی کو ختم کرسکے جس نے اسلامی دنیا کے اندر ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور امت مسلمہ کے ماتھے پر کلنک کا نشان بن کر رہ گئی ہے ۔ اس ناخواندگی کا خاتمہ واجب ہے ۔ مسلمان علماء کو چاہیے کہ وہ اس منکر سے نجات اور خلاصی پانے کو شرعاً واجب ہونے کا اعلان کریں ۔ اس مرض نے امت مسلمہ کو تہذیب یافتہ قوموں کے مقابلے میں پسماندہ بنارکھا ہے اور امت مسلمہ اس وقت تک اپنی ذمہ داری کو پوری کرسکتی ہے نہ اپنے وجود اور منصب قیادت کا ثبوت پیش کرسکتی ہے جب تک اس کا ہر فرد زیور تعلیم سے آراستہ نہ ہوجائے اور جس چیز کے بغیر کوئی واجب پورانہ ہوتا ہے وہ چیز بھی واجب ہوتی ہے ‘‘ ۔ ( رسول ؐ اکرم اور تعلیم )
[email protected]