عظمیٰ نیوز سروس
نئی دہلی//دہلی بلاسٹ معاملے میں دہلی پولیس اور دیگر تحقیقاتی ایجنسیاں مسلسل تفتیش میں مصروف ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ کئی بڑے انکشافات سامنے آ رہے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق، اس تفتیش کے دوران ایجنسیوں کے رڈار پر اَل-فلاح یونیورسٹی کے 200 سے زائد ڈاکٹر آ گئے ہیں۔ تحقیقاتی ایجنسیاں یونیورسٹی کے کچھ اسٹاف سے بھی پوچھ گچھ کرنے کی تیاری میں ہیں۔ پولیس کو اطلاع ملی ہے کہ بلاسٹ والے دن ہی کئی ڈاکٹر اچانک یونیورسٹی چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ایجنسیاں یہ بھی جاننے کی کوشش کر رہی ہیں کہ دہلی میں بلاسٹ کے بعد آخر کتنے ڈاکٹر اور دیگر ملازمین نے فوراً یونیورسٹی چھوڑ دی۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ کچھ لوگوں نے بلاسٹ کے فوراً بعد اپنے موبائل فون کا ڈیٹا ڈیلیٹ کر دیا تھا۔ اب تفتیشی ایجنسیاں ان کے لیپ ٹاپ اور موبائل فون کی فارنزک جانچ کر رہی ہیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کون سا ایسا ڈیٹا تھا جسے جلدی میں مٹایا گیا۔دہلی بلاسٹ کے بعد اَل-فلاح یونیورسٹی ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔ 10 نومبر کو دہلی میں بلاسٹ کرنے والا خودکش ڈاکٹر عمر اْن نبی اَل-فلاح سے جڑا پہلا ملی ٹینٹ نہیں تھا۔ 2008 کے احمد آباد سیریل بلاسٹ میں شامل مرزا شاداب بیگ بھی اسی یونیورسٹی کا سابق طالب علم تھا۔ اس نے 2007 میں فرید آباد کے اَل-فلاح انجینئرنگ کالج سے الیکٹرانکس اینڈ انسٹرومنٹیشن میں بی ٹیک مکمل کیا تھا اور اگلے ہی سال 2008 میں احمد آباد بلاسٹ میں شامل رہا — یعنی پڑھائی کے دوران ہی حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔
وہ برسوں سے فرار ہے اور اطلاعات کے مطابق اس وقت افغانستان میں موجود ہے۔