مقصوداحمد ضیاؔئی
19جنوری 2025ء کی شام جناب محمد سلیم وانی صاحب جامعہ ضیاءالعلوم پونچھ تشریف فرما ہوئے۔موصوف کے والد گرامی جناب فاروق مضطر صاحب کی عنایت سے “انجمن دبستانِ ہمالہ راجوری کی خصوصی پیشکش “دھنک” کے چھ شمارے مجھے ملے۔ راجوری ایک باوقار خطہ ہے، کاروبار کی ہماہمی اور شب و روز کی طویل مصروفیت کے باوجود اس خطہ میں علم و فن کے چرچے ہیں،انجمنوں کی بہتات ہے ، دین و دانش دوست حلقے کی بھی وسعت ہے ۔ “دھنک” کے مدیر جناب فاروق مضطر صاحب اس خطہ کے مشہور و تاریخ ساز انسان ہیں جنھوں نے اپنی زندگی کا بہترین وقت علم کی خدمت اور افراد سازی میں صرف کر دیا۔ آج وہ ایک ممتاز درسگاہ کے بانی اور کارکن حلقے کے مخلص رہنما کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں اشاعت پزیر سہ ماہی “دھنک” شمارہ کا تجدیدی روپ منظر عام پر آیا اور اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کہ تبصرہ نگار نے اس کے مشمولات کو دیکھا اور اسم بامسمّٰی پایا بلاشبہ یہ مجلہ بڑی محنت اور کاوش سے گل و گلاب کی طرح سجایا گیا اور چمن بندی میں خوشگوار قرینہ کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ “دھنک” کی پیشانی پر درج ذیل الفاظ ” بیسویں صدی کی آخری دہائی میں شائع ہونے والا رجحان ساز ادبی مجلہ (دھنک) معیار و اقدار کا نیا میزان” منفرد قسم کے الفاظ ہیں جو قاری کو مطالعہ کی دعوت دیتے ہیں۔ پہلے تو “دھنک” کی نشاة ثانیہ جدیدہ پر مبارک باد پیش خدمت ہے کہ آپ بھرپور شان کج کلاہی کے ساتھ “دھنک” کے نو شمارے منصہ شہود پر لائے۔ واقعہ یہ ہے کہ ملک و ریاست میں فروغ و اشاعتِ علم و فن کے حوالے سے جہاں ارباب دانش و بینش اپنی گراں بہا خدمات کے طور پر تاریخ کا حصہ نظر آتے ہیں ، وہاں کئی ایسے رسائل و جرائد بھی عوام میں مقبول ہیں۔ انہی میں زیر تبصرہ رسالہ “دھنک” بھی ہے۔ جاننا چاہیے کہ زبان و ادب صحافت کا ایک
ناگزیر شعبہ ہے جس سے زبان و ادب کی تشہیر ہوتی ہے۔ منجملہ خصوصیات کے “دھنک” اردو ادب کے باب میں ایک اضافہ ہے ۔بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کے بہی خواہ اپنے لیے ہر ضلع میں ایک متحدہ پلیٹ فارم پیدا کریں۔ اردو کی تعلیم و ترقی کے لیے ٹھوس تجاویز بروئے کار لائیں اور اپنی قوت اور اپنی کوشش اور اپنے سرمایہ سے ان تجاویز کو عملی شکل دی جائے۔ انگریزوں کے ہندوستان میں آنے کے بعد جب انگریزی زبان اور تمدن کو آگے بڑھانے کے لیے سرکاری کوششیں کی گئیں تو اردو داں طبقہ نے اپنی زبان کو محفوظ رکھنے کے لیے بساط بھر عمدہ اقدامات کیے جو پُرخلوص مؤثر اور مسلسل تھے لہذا ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ اردو کے آثار بھی باقی رہے اور اردو بولی اور پڑھی بھی جاتی رہی ۔اس وقت بھی اگر اردو کے سچے عشاق جابجا اردو کی درسگاہیں قائم کر دیں۔ اردو لٹریچر کو چھاپنے اور اسے پڑھنے کا شوق پیدا کریں۔ اردو اخبارات اور رسائل کو ترقی دیں۔ اردو بولنے اور لکھنے کا التزام کریں۔ اردو کے فاضل اور مصنفین اپنی تصانیف سے اردو کی فنی اور علمی حیثیت کو اتنا بلند کر دیں کہ وہ دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کے مقابلہ میں بلاتکلف کھڑی ہوسکے تو کوئی وجہ نہیں کہ اردو زندہ نہ رہ سکے۔ الحاصل “دھنک” کے تین تا آٹھ شمارے دیکھنے اور پڑھنے کا موقع ملا۔ مجھے کسی طور بھی بلحاظ رسالہ اس کے شماروں میں کمی کا احساس نہ ہوا کیونکہ اس کے شماروں میں علم و ادب اور فکر و فن کی تشنگی کو پورا کرنے کے لیے بڑے قیمتی مضامین کو شامل کیا جاتا ہے۔ “دھنک” کے مشمولات میں جامعیت ہوتی ہے۔ اس کا ہر شمارہ ایک انتخاب معلوم ہوتا ہے۔ “دھنک” کے اداریے پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ابھی اسے مزید ارتقائی سفر کرنا باقی ہے۔ جیسا کہ مدیر مکرم نے بھی تیسرے شمارے کے اداریہ میں لکھا ہے کہ ہماری تلاش جاری ہے۔یہ جستجو _ کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں!
آخری بات
دھنک یا قوس قزح فطرت کا ایک مظہر ہے۔ جس میں بارش کے بعد فضا میں موجود پانی کے قطرے ایک منشور کی طرح کام کرتے ہیں۔ جب ان میں سے سورج کی شعائیں گزرتی ہیں اور یہ گزرنے کے بعد سات رنگوں میں بدل جاتی ہیں اور یوں آسمان کے اوپر ایک سترنگی کمان یا دھنک بن جاتی ہے۔ اسے قوس و قزح بھی کہتے ہیں۔ بعینہ زیر تبصرہ رسالہ “دھنک” کی نشاة ثانیہ جدید نے اپنا اثر ادبی و فکری دنیا پر چھوڑا ہے۔ غرضیکہ ادبی و فکری تخلیقات میں “دھنک” اپنے معیار اور وقار کے لحاظ سے ایک قابل قدر اضافہ ہے جس کی ادبی حلقوں میں پزیرائی ہونی چاہیے یہ اس کا حق بھی ہے۔ مدیر محترم اور ان کے کارکنان اس ادبی خدمت کے لیے مبارکبادی کے مستحق ہیں۔
رابطہ۔96823 27107