رحیم رہبر
سنہری شام جھیل میں اُترنے کو تیار تھی۔ ملاح کشتیوں کو باندھ رہے تھے۔ بابا شُکر الدینؒ کی زیارت کے گنبد پر کبوتر مناجات پڑھ رہے تھے۔ اسی دوران مسجد کے فلق بوس میناروں سے ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدائیں گونج اُتھیں۔ چاروں اطراف ایک دِلُربا سکوت سا چھا گیا۔ اچانک میری نظر ایک جوان خوبصورت لڑکی پر پڑی جو جھیل کے کنارے بیٹھ کر پانی میں اپنے ٹوٹے ہوئے عکس کو سمیٹنے کی ناکام کو کوشش کررہی تھی۔
جونہی میں اُن کے قریب پہنچا میں چونک گیا۔ وہ رانی تھی۔
’’رانی تُم!؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’ہاں میں!‘‘ اُس نے تحمل سے جواب دیا۔
’’تم یہاں اکیلی کیا کررہی ہو؟‘‘ میں نے حیرانگی میں پوچھا۔
’’میں اس جھیل کو اپنی رودادِ غم سُنا رہی ہوں‘‘۔ رانی کی غزالی آنکھیں نم ہوئیں۔ اس کے بعد وہ زور زور سے چلائی۔
’’سُسرال والوں سے میری نہیں بنتی ہے۔ میں وہاں رینگ رینگ کر زندگی بسر کرتی ہُوں۔ میں اپنے کلچر، اپنی ثقافت اور اپنی زبان سے محروم ہوگئی ہوں۔ میری احساسات کی دُنیا اُجڑ گئی۔ میں ٹوٹ چکی ہوں۔ میں بکھر گئی ہوں‘‘۔ وہ زور زور سے چلائی، یہاں تک کہ بے ہوش ہوکر کنارے پر گر پڑی۔
بیس سال قبل رانیؔ اور میں اِسی مقام پر ملے تھے۔ ہم دونوں یونیورسٹی سے اکھٹے فارغ ہوکر نکلے تھے۔ ہم نے انسانی بقاء کے لئے کچھ کر دکھانے کا وعدہ کیا تھا۔ پر ایسا نہیں ہوپایا۔ حالات کی مار رانی پر پڑی۔ ہمارے راستے الگ ہوگئے۔
وہ اذیت ناک منظر مجھے آج بھی یاد ہے جب مادھو رام بیٹی رانی اور بیوی کاکی کو لیکر گھر اور گائوں کو چھوڑ کر دور چلے گئے۔ اُس روز کسی کے گھر میں چولہا نہیں جلا۔ ساری بستی ماتم کدہ میں تبدیل ہوئی! بچے جوان بوڑھے ہر ایک اُداس تھا۔
رانی کو ہوش میں لانے کے بعد اس کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے آیا۔ راستے میں جس کسی نے بھی رانی کو دیکھا اُس نے بے پناہ خوشی و مسرت کا اظہار کیا۔ رانی کو دیکھ کر میری ماں اس قدر جذباتی ہوگئی کہ اُس نے رانی کو اپنے بانہوں میں لیا اور زور زور سے چلائی۔۔۔۔
’’بیٹی اب تجھے کہیں نہیں جانے دوں گی‘‘۔ میری ماں نے رانی کو بچپن میں دودھ پلایا تھا۔ رانی کو کھونے کا غم ہمارے گائوں میں سب سے زیادہ میری ماں کو ستارہا تھا!
’’رانی! تم کہاں تھی؟‘‘ میں نے رانی سے پوچھا۔
’’پریشان۔۔۔ حالِ حیران۔۔۔ دربدر‘‘ اُس نے دھیمی آواز میں جواب دیا اور اُس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے۔
’’مطلب میں سمجھا نہیں‘‘۔ اُس نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔ غمِ دوران سے اس کا بُرا حال ہوا تھا۔
’’جو ایک بھائی بہن کے لئے کر سکتا ہے‘‘۔ میں نے دفعتاً جواب دیا۔
’’میرے مجبور باپ نے2مرلے زمین کے عوض میری شادی ایک ٹرک ڈائیور کے ساتھ کی۔‘‘
اس کے بعد رانی پھر سے بے ہوش ہوکر فرش پر گر پڑی۔
���
آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ، بڈگام،موبائل نمبر؛9906534724