بشارت بشیر
اس کار گہہ حیات میںانسان نے جو ں ہی قدم رکھے اُسے اپنی زیست کی سانسوں کو برقرار رکھنے کے لئے محنت ومشقت کرنے کی ترغیب خود فطرت نے دی ۔یوں اُس نے خورد ونوش اور ستر وزینت تن وتوش کے لئے مختلف ہنر وکسب سیکھ کر چراغ زندگی کو روشن رکھنے کی سعی ہر زمین وزمان میںکی۔ اُس نے اپنی حیثیت کے مطابق مکانات کی تعمیر کی ، باغات بنائے اور زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ مختلف آسائشوں اور سہولیات سے استفادہ کرنا شروع کردیا۔کوئی دنیا کا وافر حصہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا، کسی کے حصہ میںکچھ کم سرمایہ آیا اور کوئی تہی دست ہی رہا ۔لیکن محنت ومشقت کا سلسلہ بہر حال ہر طبقہ میںجاری رہا کہ یہ فطرت کا مطالبہ ہے اور جن لوگوں نے رزق حلال کے حصول کے لئے کاوشوں اور کوششوں سے جی چرایا ہر معاشرہ وسماج میںاُنہیں لوگ دیکھ کر ناک بھوں چڑھاتے رہے یہاں تک کہ کسی کی میراث میں اگر کوئی جائیداد آتی ہے اور وہ اس کا کوئی حصہ بیچ کر ساری عمر کھاتا رہا ۔ اس عمل کو بھی لوگوں نے کبھی اس لئے تحسین کی نظروں سے نہیں دیکھا کہ ایسا آدمی محنت سے جی چراکر شب وروز بیکار رہتے ہوئے ملت ومعاشرہ کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
اسلام نے تو کسب حلال کے لئے انسانوں کو آمادہ کیا ہے اور اس حوالہ سے اُس کے احکام ظاہر وباہر ہیں۔ وہ رزق کے حصول کے لئے ٹوٹکوں طلسمات اور آن کی آن میں دولت مند بننے کے کوئی محیر العقول نسخے نہیں بتاتا۔ بلکہ سعی و کوشش کرکے تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر کاروبار دنیا میں شامل رہنے پر اُبھارتا ہے۔ یہ دین رہبانیت کا قائل ہی نہیں اور غاروں ،گھپائوں میںبیٹھ کر عبادت وبندگی کے لئے ہمہ وقت بیٹھے رہنے اور نہ ترک دنیا کرکے یکسوئی اختیار کرنا ہی اسے پسند ہے۔ بلکہ اپنے عیال کو محنت ومشقت سے کمایاگیا ایک لقمہ حلال بھی اس کے صدقے میں گردانتا ہے۔ رزق کی تلاش وسعی کے لئے اس نے احکام دیئے اور پھر جب (جمعہ) کی نماز ختم ہوجائے اللہ کا فضل یعنی رزق تلاش کرو۔[سورۃ الجمعۃ ]نیز یہ بھی فرمایا کہ: ’’انسان کو وہی ملے گا جس کے لئے وہ سعی کرے گا‘‘۔(سورۃ:نجم) یہ بھی ارشاد ہے: ’’ پس تم اللہ کی بارگاہ سے رزق طلب کرو اور اُسی کی عبادت کرو اور اس کا شکر بجا لایا کرو ‘‘ [ سورۃ:ا لعنکبوت]
ہم اپنے ماضی کو دیکھ لیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں عرب کے بادیہ نشینوں نے محنت وجدوجہد کو اپنایا۔ وہ صحرائے عرب سے اُٹھ کر ایک دنیا پر چھاگئے۔ اور اسی محنت و جان فشانی کے بل پر بحر وبر کو مسخر کرکے رکھ دیا ۔ غرض اسلام تن آسانی سے گریز کرنے اور جفا کشی پر آمادگی کا کام کرتا آیا ہے اور محنت کشوں کو ہمیشہ اس نے تحسین وتعریف کی نگاہوں سے دیکھا ہے۔ تن آسانوں، کاہلوں اور سست رو لوگ اس کے پسند یدہ نہیں اور جو حصول رزق کے حوالہ سے محنتوں سے جی چرانے والے ہوں اس کی آنکھوں کا تارا کبھی نہیں بن پاتے ہیں نہ آئندہ ایسا ممکن ہے حصول رزق کے لئے اس کی اہم ترین شرط بس اتنی ہے کہ تم جو کچھ کمائو وہ حلال ہو اور تب جاکر ہی تمہاری دعائوں میں اثر اور فریادوں کو اجابت مل سکتی ہے۔ تمہیں دنیا کا وافر حصہ مل جائے یا کچھ کم بس زیر نظر حاصل شدہ چیز کا حلال ہونا رہے۔ کسی کا حق مار کے،کسی کی زمین پر ہاتھ مار کے، حرام دھندوں سے، ملاوٹ، دھوکے، فریب اور ناپ تول میںکمی کے نتیجہ میںکمائی دولت دنیا میں انسانی تن ونوش کو کچھ موٹا تازہ تو کرنے کو کرے لیکن آخرت میںخسران وگھاٹے کا نہ صرف سامنا ہوگا بلکہ سرِ حشر رسوائیوں اور خجالتوں کے طوق جب پہنائے جائیں گے تو پھر شرمندگی کیسی ہوگی ؟کیا بیان کیا جاسکتا ہے؟
دنیا کو قرآن نے متاع غرور ہی کہا ہے اس لئے بہتر ہے کہ اس سے اتنا ہی لیا جائے جس سے گذر بسر ہو سکے۔ کچھ اللہ نے زیادہ ہی دیا تواس کے حقوق کی ادائیگی لازمی ہے، نہیں تو یہ سودا بھی عذاب وعتاب کا باعث ہی بن کے رہے گا ۔ ادھر پھر عرض کرتا چلوں کہ تکاثر بھی انسانی فطرت میں رچا بسا مرض ہے۔ یعنی ایک چیز ملنے کے بعد یہ دوسری کی عطائیگی کے لئے کوشاں رہتا ہے ۔یہاں تک کہ اسے دنیا کا بہت بڑا حصہ مل جائے تو مزید کی طلب کرنے سے رکے گا نہیں ۔ ٹھوس بات قرآن حکیم نے سورہ تکاثر میںبیان کی ہے کہ دنیا کی محنت اور اس کے پانے کی کوشش نے تمہیں آخرت کی طلب اور نیکیوں سے بے پروا کرکے رکھ دیا تم اسی دنیا کی ادھیڑ پن میں مست و محو بن کے رہے اچانک موت آگئی توتم قبروں میںپہنچ گئے ۔‘‘
مسند أحمد کی حدیث میں ہے کہ ابن آدم بوڑھا ہوجاتا ہے لیکن دو چیزیں اس کے ساتھ باقی ہیں لالچ اور اُمنگ۔ غرض انسان بے انتہا حریص ہے کہ اس کا پیٹ ہی نہیں بھرتا ٗ جیسے تیسے کسی قاعدے قانون سے بالا وہ حصول سیم وزر میںاپنی ساری زندگی تج دیتا ہے اور جب موت اچانک آجاتی ہے تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں ۔چاہتا ہے کہ اب مہلت زندگی ملے کچھ خیرات کرے، کچھ صدقہ دے، لیکن کوچ کا حکم ٹالا نہیں جاسکتا۔ہاں اس دنیا کے حصول کے لئے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جیسا کہ ابتداء میں عرض کرچکا جو آرام طلب اور تن آسان واقع ہوئے ہیں وہ آسمانوں سے نعمتوں اور خوانوں کے نزول کے منتظر رہتے ہیں ۔ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں ٗ اور خیالوں کے رنگین محلات سجانے میں مست ومدھوش رہنا اُن کا شعار ہے۔کام کرنا بُرا لگتا ہے بس کوئی ایسا نسخہ یا ٹوٹکا اُنہیں چاہیے جو بہ یک آں اُنہیں امیر زماں بنادے اور ساری دنیا ہاتھ باندھے اُن کے خیالی محلات کی غلام گردشوں میں فرشی سلام کرتی رہے، وہ چلیں تو ہٹو بچو کی صدائیں ہوں اور رکیں تو دنیا قدم روک لے۔ بات کرلیں تو ہر سو سکوت چھا جائے۔ ایسے لوگ عام لوگوں سے ہمیشہ الگ پائے گئے اور یہ ہر زمین وزمن میںکہیں کم کہیں زیادہ نظر آتے ہیں۔ رہی عصر رواں کی بات تو ایسے لوگ بس اسکیموں ، انعامات اور لاٹریوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور جہاں سے بھی حصول مال کا کوئی ’’جادوئی نسخہ ‘‘ ہاتھ آئے عمل پیرا ہونے میںلمحات کی دیر بھی نہیں لگاتے۔ کئی بار اسی وادی مینو سواد میںایسے لوگوں کو پھر اپنے کئے کو بھگتنا بھی پڑا لیکن یہ سوچ ہمیشہ حسین خواب دکھلانے والوں کے ہتھے بار بار چڑھ جاتی ہے۔ ابھی حالیہ دنوں میں بھی مبینہ طور ایسے کچھ واقعات وقوع پذیر ہوئے کہ بغیر محنت کے اپنی چھوٹی بڑی رقم کو دوگنا کرنے کی خواہش نے کتنے ہی ایسے لوگوں کی نیا ہی ڈبو کے رکھ دی ۔خوابوں کے سوداگر شب ِتاریک میں دکان بڑھاکرکیا گئے کہ ان بے چاروں کی آنکھ کھل گئی وہ سڑکوں پر آگئے۔تو بقول کچھ لوگوں کے اُنہوں نے اپنی متاع وجائیداد اُن کے حوالہ اِس اُمید سے کی تھی کہ رقم مختصر عرصہ میںدوگنی ہوگی ،یوں ماہ بہ ماہ اُنہیں نفع کی خطیر رقم ملے گی اور وہ ہر قسم کی محنت ومشقت سے بے نیاز ہوکر پائوں پسار کر سوتے ہوئے کاروبار ِدنیا سے آزاد ہوجائیں گے وہ رورہے تھے اور حساس لوگ اُن کی تن آسانی اور ناسمجھی پر افسوس کر رہے تھے پھر اس کے معاً بعد ایک اور ایسا ہی واقعہ منظر عام پر آگیا یوں کوئی ان لوگوں کو لوٹتا رہا اور وہ ہنسی خوشی لٹتے رہے۔ المختصر یہ کہ محنتوں سے جی چرا کر انسان یہ تمنا کرے کہ دولت وثروت اُس کے صحن میں برف وباراں کی طرح گرے یہ خلل ِدماغ ہے اور کچھ بھی نہیں۔ دنیا کا کوئی بھی دین دھرم اس قسم کی تعلیمات نہیں دیتا بلکہ وہ کچھ کر گذرنے اور جانفشانی سے کام کرنے اور جفاکشی کو شعار بنانے کی تلقین کرتا ہے۔
یاد رکھیں فطرت کا قانون ہے کہ اگر کھیت میںبیچ نہ ڈالا جائے تو کچھ وقت کے بعد اللہ تعالیٰ اس کھیت کو گھاس پھوس سے بھر دیتا ہے۔ اسی طرح اگر دماغوں کو اچھے افکار سے نہ بھر دیا جائے تو ان میںکج فکری ڈیرہ ڈالتی ہے بالکل اسی طرح اگر سعی وعمل اور کدو کاوش سے کام نہ لیا جائے تو انعام نہیں ملتا، زینے چڑھا نہیں جاسکتا، پھل نہیں ملتا، منزل کا حصول نہیں ہوتا ۔ سائنس بتاتی ہے کہ غبار ہ اپنے رنگ کی وجہ سے نہیں بلکہ اندر موجود گیس سے اُڑتا ہے۔ کیا اس بات سے کوئی فرق پڑتا ہے کہ آپ امیر ہیں یا غریب ،عربی ہیں یا عجمی ٗ گورے ہیں یا کالے ، شہری ہیں یا دیہاتی ،اَن پڑھ ہیں یا تعلیم یافتہ! نہیں بالکل نہیں بلکہ یہ انسان کی سوچ اور جذبہ ہی ہوتا ہے جو اس کو سرفرازی اور بلند کرداری کی جانب لے جاتے ہیں۔
حاصل کلام یہ کہ کچھ کئے بغیر اور محنتوں سے کنارہ کشی کرکے امیر زماں بننے کے خواب بس ایک سراب ہوتے ہیں۔ دماغوں کو اچھے افکار سے بھر دیجئے اور کارگہہ حیات میںعزم وہمت سے کام لے کر آگے بڑھئے ۔ جفا کشی عادت بنائیے، واقعی اللہ نے ہمیں بے پناہ جسمانی اور دماغی صلاحیتوں سے نوازا ہے، اُنہیں بروئے کار لاکے اور دنیوی ترقی اور اُخروی بلندی کے راستے آسان بنائیے۔ دنیا میںکتنے اپاہج اور معذور لوگ ایسے ہیں جو بے پناہ دولت کے مالک ہیں اور کتنے صحت منددانے دانے کے محتاج ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ اول الذکر لوگ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں اور ثانی الذکر صر ف خوابوں کی دنیا میں جی رہے ہیں کہ آج نہیں تو کل یہ کھوکھلے خواب شرمندئہ تعبیر ہوں گے۔ لیکن یاد رکھئے خسران کے سوا ان خوابوں کی کوئی تعبیر نہیں۔ نئی نسل تجارت وکسب وہنر کے میدان میں ترقی کے ریکاڈ قائم کرسکتی ہے۔ارادوں کو مستحکم بنائیں حقیقت کی دنیا میںآکر محنت کو شعار بنائیں چھوٹے پیمانے پر کوئی کام شروع کیجئے ۔ کو الٹی صحیح ہو قیمت مناسب رکھیں ٗ خوش خلقی کا مظاہرہ کرکے اپنے نفع کی ایک حد قائم کریں۔کفیات شعاری کو اپنائیں کام کے تئیں دل چسپی کا مظاہرہ کریں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ سے لو لگایئے اور اُسی سے رزق میںبرکت اور کاروبار میںترقی کی فریاد یں کیجئے۔ یقینا دعائوں کو شرف اجابت عطا ہوگا۔ یاد رکھئے،اللہ ہی رازق ورزاق ہے۔اُسی پر توکل رکھئے۔
اور اُس کا یہ ارشاد سامنے رہے :ترجمہ :’’اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے ٗ اللہ اُس کے لئے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے ٗاور اُسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے ٗ جس کا اُسے گمان بھی نہ ہواور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا، اللہ اُسے کافی ہوگا۔ اللہ اپنا کام پورا کرکے ہی رہے گا۔ اللہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کررکھا ہے۔‘‘
رابطہ۔7006055300