ہارون ابن رشید ،ہندوارہ
انسانی رشتوں میں خون کے رشتوں کے علاوہ بلکہ بعض اوقات خونی رشتوں سے بھی زیادہ جس رشتے نے بڑا مقام پایا ہے وہ ہے دوستی ،کہا جاتا ہے کہ ہمارا بھائی ہمارا بازو ہوتا ہے ، لیکن ہمارا دوست ہمارا دل ہوتا ہے کہ جس کو ہم اپنے سارے راز بتاتے ہیں اور جس سے ہم اپنی ہر خوشی اور غم بانٹتے ہیں ، جس کو ہم ہر دکھ سکھ کا ساتھی بناتے ہیں ۔کسی حکیم نے کہا تھا دوست ایک چھتری کی طرح ہوتا ہے ، جب بھی مسائل اور مشکل کی بارش ہوتی ہے ہم کو اس کی ضرورت بڑی شدت محسوس ہوتی ہے۔ تجربہ اور مشاہدہ بھی یہی بتاتا ہے کہ خوشیوں سے زیادہ غمکے وقت انسان کو اپنے دوست کے کندھے کی ضرورت پڑتی ہے کہ جس پر سر رکھ کر وہ رو بھی سکے اور اسی کندھے کے سہارے اس تیز و تند آندھی میں وہ چل بھی سکے ۔ ایک انسان کی زندگی میں دوست اور دوستی کی اسی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلام نے بھی دوست کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اس سلسلے میں نہایت مفید ہدایات بھی دی ہیں تاکہ انسان اس کے فوائد سے بہرہ ورہو سکے ، اور اس کے مضر اثرات سے خود کو بچا سکے،کیونکہ دوستی ایک دود ھاری تلوار ہے ، اگر اس کو مکمل احتیاط کے ساتھ نہ برتا جائے تو فائدے سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے ، اسی لئے اسلام نے اس عظیم نعمت کو کسطرح برتنا ہے اس کو واضح کردیا ہے اور اس سلسلے میں نہایت ہی بسیط تعلیمات بھی ہم کو عطا کر دی ہیں ، انسانی زندگی میں دوستی کی اہمیت _،جب سے دنیا بنی تب سے قائم و دائم ہے ، ہر مصیبت میں دوست ایک مضبوط سہارا بن کر انسان کے ساتھ کھڑا رہتا ہے ، وہ مشکل و مصائب کے طوفان سے گھبرا کر خود کو بچا کر نکل نہیں جاتا بلکہ دوست کی جانب آنے تیروں کو بھی اپنے سینے پرلینےسے نہیں ہچکچاتا ہے۔ امام طبری ؒ نے اپنی تفسیر میں یہ بات نقل کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دوستوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا : اپنے بھائیوں ( دوستوں ) کو تھامے رکھو! اس لئے کہ وہ دنیا میں کم ہی ملتے ہیں اور آخرت میں بھی کم ہی ہوں گے ، کیا تم نے اہل جہنم کا ( قرآن میں وارد ) وہ جملہ نہیں پڑھا : سو ( آج ) نہ کوئی ہماری سفارش کرنے والا ہے اور نہ کوئی گرم جوش دوست ہے ( سورہ الشعرا ء ١٠١ – ١٠٠ ) علامہ زمخشریؒ اس آیت میں لکھتے ہیں کہ سفارش کرنے والوں کے لئے جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے جبکہ دوست کے لئے واحد کا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ سفارش کرنے والے بیشمار مل سکتے ہیں لیکن سچا ، پکا ، مخلص اور خیر خواہ ، مخلص اور نیک دوست جب مل جائے تو اس کی حفاظت کرنا اور اس کو کسی صورت حال میں نہ چھوڑنا انسان کیلئے ضروری ہو جاتا ہے ، ورنہ قیامت کے دن کئی سارے لوگ اپنے اپنے کو کاٹ کھا رہے ہوں گے ،صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے بُرے دوستوں کی صحبت اختیار کر لی تھی اور اُن بُرے دوستوں نے ان کو جہنم کے گڑھے میں پھینک دیا ۔ سورہ الفرقان میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے،’’ اور جس دن ظالم انسان حسرت سے اپنے ہاتھوں کو کاٹ کھائے گا ، اور کہے گا، کاش میں نے پیغمبر کی ہمراہی اختیار کر لی ہوتی، ہائے میری بربادی! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا ، میرے پاس نصیحت آچکی تھی ، مگر اس دوست نے مجھے بھٹکا دیا ( سورہ الفرقان ٢٩- ٢٧ )۔_ دوست کی انسانی زندگی میں اہمیت سمجھنے کے لئے ترمذی شریف کی ایک روایت کافی ہے ، بات تو ہم جانتے ہیں کہ دین اسلام ہی دنیا و آخرت میں نجات کا واحد ذریعہ ہے ، دین حق ہی ہے کہ جس پر چل کر کامیابی و کامرانی کی منزلیں طے کی جا سکتی ہیں، _ اس دین سے ہٹ جانا دنیا کی بھی تباہی ہے اور آخرت بھی _ ہمارے حبیب ؐ نے انسان کے دین کے متعلق کتنی اہم بات ارشاد فرمائی ، ’’ انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے ، لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ لوگوں سے دوستی رکھتا ہے _۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ جہاں اچھے دوست کی صحبت ہمیں دین سے اور دینداری سے قریب کر سکتی ہے ، وہیں دوست کی سنگت ہمیں بے دینی کی طرف لے جاتی ہے، _ اسی لئے حدیث کے آخر میں آپؐ نے خبردار کیا کہ جس سے دوستی کر رہے ہو ، اس کی جانچ کرلو ، دیکھ لو کہ وہ اللہ کا حامی ہے یا اللہ کا باغی ہے _۔ عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ اگر وہ اللہ کا حامی ہے تو اس کا ساتھ مرتے دم تک نہ چھوڑو ، اور اگر وہ اللہ کا باغی ہے تو اس کے قریب بھی نہ پھٹکو ، دوست کی سچی خیر خواہی ایسی ہوتی ہے ، اوپر مذکورہ حدیث شریف میں کی گئی نصیحت کی ایک جیتی جاگتی اور تا قیامت مشعل راہ کے طور پر کام کرنے والی مثال حضرت ابو الدرداءؓ کے ایمان لانے کا واقعہ ہے _ ۔حضرت ابو الدرداءؓ اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کے درمیان دور جاہلیت سے بڑی گہری دوستی تھی، _ جب اللہ عزوجل نے حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کے سینے کے لئے کھول دیا ، اور وہ اسلام لے آئے تو اس کے بعد وہ اپنے عزیز دوست حضرت ابو الدرداء ؓ کے گھر پر تشریف لے گئے ، اس وقت تک حضرت ابو الدرداءؓ ایمان نہیں لائے تھے، _ وہ گھر پر نہیں تھے _ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ اور ایک صحابی محمد بن مسلمہؓ نے ان سارے بتوں کو توڑ دیا جو حضرت ابو الدرداءؓ کے گھر میں موجود تھے ، جن کی وہ صبح شام عبادت کیا کرتے تھے۔ _ حضرت ابو الدرداءؓ جب لوٹے تو اپنے بتوں کو جمع کرنے لگے _ اور اپنی بیوی پرغصہ ہوئے کہ تم نے ان دونوں کو ایسا کرنے سے روکا کیوں نہیں، _ وہ بولیں _ اگر یہ بُت نفع کے مالک ہوتے ، یا کسی کو بچانے کے قابل ہوتے تو آج سب سے پہلے وہ خود کو بچاتے۔ _
[email protected]