مجاہد عالم ندوی
اُردو ہندوستان کی وہ شیریں زبان ہے جو سنسکرت اور ہندی کی طرح ہی اس ملک میں پیدا ہوئی اور پروان چڑھی ۔ یہی نہیں بلکہ یہ آج بھی عوام کے قلب و ذہن پر راج کر رہی ہے ۔ یہ وہ زبان ہے جسے بجا طور پر ہندوستانی کہلانے کا حق حاصل ہے ۔ اردو ایک مشترکہ قومی زبان ہے ۔ یہ ہماری تہذیب و ثقافت کی شناخت ہے ۔ یہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت ہے ۔ یہ انسانی بھائی چارہ ، مذہبی رواداری اور باہمی خیر سگالی کی علامت اور دلوں کو جوڑنے والی زبان ہے ۔ یہ ہندوستان کی عظیم تہذیبی روایات کی آئینہ دار اور سب ہی مذہبوں کے ماننے والوں کا مشترکہ قومی ورثہ ہے ۔ حب الوطنی ، وطن دوستی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ میں اس زبان نے جو نمایاں کردار ادا کیا ہے وہ اردو شعر و ادب کی تاریخ میں دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اردو ہماری شناخت ہے ۔ ہمارے تہذیبی و ثقافتی اظہارات کے ساتھ اردو جو شدت احساس پیدا کرتی ہے ، دیگر زبان میں وہ ممکن نہیں ۔بطور خاص برصغیر ہند و پاک کے حوالے سے اردو مسلم قوم کو ایک لسانی اتحاد بھی عطا کرتی ہے ۔ہمارے ملک ہندوستان میں جن بائیس زبانوں کو آئینی حیثیت حاصل ہے ان میں اردو زبان بھی شامل ہے ۔ یہ کسی مخصوص فرقے کی زبان نہیں ہے ۔ اس نے لوگوں کے دلوں کو جوڑنے اور محبت کا پیغام دینے کا کارنامہ انجام دیا ہے یہ پیدا ہی ہوئی تھی کئی مختلف قوموں اور تہذیبوں کو آپس میں نزدیک لانے کے لیے ۔ ہر علاقہ میں اس نے یہ فریضہ بخوبی انجام دیا ۔ یہ صد رنگ زبان ہندوستان کی وسیع تہذیب کی رنگا رنگی کی نمائندگی بھی بخوبی کرتی ہے ۔
ہرعلاقہ کی مٹی کی خوشبو سے معطر یہ زبان ہندوستان کے اجتماعی سائے کی زندہ علامت ہے ۔ جو لوگ اس کے رسم الخط سے واقف نہیں ہیں وہ بھی اپنے جذبات کا اظہار اکثر اردو میں کرتے نظر آتے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں بھی فلموں اور ٹی وی سیریلس اور خبروں کو مقبولیت حاصل کرنے کے لیے اپنے مکالموں میں اردو کا استعمال لازماً کرنا پڑ رہا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہندوستانی تشخص کے اظہار کا سب سے بڑا اور طاقتور میڈیم اردو ہی ہے ۔
اردو زبان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہر زبان کے خوبصورت اور حسین لفظوں کو اپنے دامن میں جگہ دینے میں اسے کوئی گریز نہیں اور یہی اس کے عدم تعصب کی دلیل ہے ۔ یہ بات اور ہے کہ یہ خود بیچاری اتنے تعصب کی شکار ہوئی کہ اپنے ہی گھر میں بیگانی سی لگنے لگی ہے ۔اردو آج جن مسائل سے دوچار ہو رہی ہے ان سے مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یونیورسٹیز اور دوسرے تعلیمی ادارے اردو کو معاشیات اور اقتصادیات کی تعلیم سے وابستہ کریں اور اردو زبان کے فروغ کے امکانات روشن کریں ۔
حسب ضرورت مختلف محکموں اور مقامی اداروں میں ہندی کی طرح اردو افسروں کا تقرر کیا جائے ۔ سرکاری اسکولوں میں خالی اردو اساتذہ کی جگہ پر کی جائیں ۔ ضرورت کے مطابق اردو علاقوں میں اسکول اور اردو شعبے قائم کئے جائیں ۔ اردو کا مسئلہ محض اپیل کرنے اور جلسوں کے انعقاد سے حل نہیں ہوگا ، یہ بھی ہوں، مگر ان کے ساتھ ضرورت ہے سخت اقدام کرنے کی ۔
کوئی بھی زبان کا پہلا اسکول ماں کی آغوش ہے جب بچہ پیدا ہوتا ہے اور جب وہ بولنا شروع کرتا ہے تو وہ ماں کی آغوش میں ہی رہ کر سن سن کر زبان سیکھتا ہے ۔ اس ضمن میں یہ بات ضروری ہے کہ ماں کو اردو کا علم ہونا لازمی ہے تاکہ وہ صحیح بولنا سیکھ سکے ۔ عہد حاضر میں تجربہ و مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ ہمارے گھر کے بچوں کا تلفظ درست نہیں ہے وجہ یہ ہے کہ آج کی ماں بھی موجودہ دورکی پروردہ ہے اور اس نے اردو کے ساتھ دوسری زبان بھی پڑھی ہے ۔ کوئی بھی زبان جب اپنی اہمیت کھو دیتی ہے تو زبان کے ساتھ ساتھ وہ قوم بھی مٹ جاتی ہے ۔ اردو کے ساتھ بھی آج کچھ ایسا ہی عالم ہے یہ قوم بھی اپنی زبان بھولتی جا رہی ہے جس کے سبب اس کی تہذیبی پہچان بھی ختم ہوتی جا رہی ہے ۔ لہٰذا اردو کی بقا کے لیے ہر چاہنے والے کو اپنی استطاعت کے مطابق کوشاں رہنا چاہیے ۔ اردو زبان اس وقت تمام قسم کے مسائل سے جوجھ رہی ہے ۔ یہ بات سچ ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک مسلسل اردو کا زوال ہی ہوا ہے ۔ اس کی ترقی کی جو بھی باتیں ہیں ، وہ کتابوں ، رسالوں اور اخباروں تک ہی قید ہو کر رہ گئی ہیں ۔
آزادی سے پہلے جو زبان دفتروں کی زبان ہوا کرتی تھی ، آج اپنے حق کے لیے ادھر ادھر ماری ماری بھٹک رہی ۔ بول چال اور لکھنے دونوں ہی اعتبار سے اردو کا چلن کم ہوتا جا رہا ہے ۔ یہ بات بڑی دل شکن ہے کہ اردو سے محبت کرنے والے اب بہت ہی کم لوگ نظر آتے ہیں ۔ اگر ہم اردو سے غافل ہوتے ہیں تو ہم اپنی تہذیبی و ثقافتی قدروں سے بھی رفتہ رفتہ دور ہوتے جائیں گے ۔ غور طلب ہے کہ یہ عمل موجودہ نسل کے ساتھ ساتھ زور پکڑتا جا رہا ہے ۔
آج اردو کے تعلق سے بنیادی سوال روزگار اورسرکار کا ہے سرکاریں اردو پر کتنی توجہ دیتی ہیں؟ سیاسی پارٹیاں مسلم ووٹ بینک کو کس طرح استعمال کرتی ہیں؟ اردو کا سوال جوکہ براہ راست مسلمانوں کا ایک بڑا سوال ہے ، نہ تو مرکز میں کوئی اہمیت پاتا ہے اور نہ ہی صوبائی سرکاریں اس پر توجہ دیتی ہیں ۔ اردو کے تعلق سے لیڈران اور سرکاریں اردو والوں کے جذبا ت سے کھلواڑ کرتی رہتی ہیں اور افسوس تو یہ ہے کہ اس کے باوجود اردو والوں کے جذبات کبھی بھڑکتے نہیں اور وہ اردو کے حال سے بے نیاز نیم غنودگی کی حالت میں پڑے رہتے ہیں ۔
جواہر لال یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ایمریٹس محمد حسن نے کسی موقع پر اردو کے متعلق کہا تھا ’’اس کی جڑیں کاٹی جا رہی ہیں اور اس کی پتیوں کو سیراب کیا جا رہا ہے‘‘ غالباً ان کا اشارہ ہم اردو والوں کی جانب تھا جو اپنے بچوں کو بنیادی طور پر اسکولوں میں اور اپنے گھروں میں اردو نہیں پڑھاتے ہیں ۔
شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پنجابی و بنگالی حضرات اپنے گھروں میں اہل خانہ و بچوں سے پنجابی و بنگلہ زبان میں ہی بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اب ہم اپنا محاسبہ خود ہی کریں کہ اردو اخبار و رسائل کو خرید کر پڑھنا کسر شان سمجھتے ہیں ۔ ہم اردو والے ہی آج اردو کو افتخار کی نظر سے نہیں دیکھتے ۔ ہم اپنے سائن بورڈ انگریزی میں بنوانے پر برتری محسوس کرتے ہیں ، اسی کے ساتھ اگر اردو بھی تحریر ہو جائے تو کیا شان میں کمی آجائے گی! بات در اصل ذہنیت کی ہے ۔ اردو کو لیکر جب تک ذہنیت نہیں تبدیل ہوگی ، حالات ہموار نہیں ہوں گے ۔
موجودہ دور میں اردو کے ساتھ کچھ نئی پیچیدگیاں پرورش پا رہی ہیں ۔ مثلاً ہندی میڈیا میں خواہ وہ الیکٹرانک ہو یا پرنٹ ، اردو الفاظ و تلفظات کے استعمال بڑھے ہیں ۔ اسی طرح ہندی ادب میں بھی اردو الفاظ کے استعمال خوب ہو رہے ہیں اور ان کے صحیح تلفظ کے لیے ہندی حروف کے ذیل میں نقطہ لگانے کی ادا بھی زور پکڑ رہی ہے ۔ حالانکہ یہ نقطہ اکثر غلط بھی لگ جاتا ہے اور لفظ کا تلفظ باعث تمسخر ہو جاتا ہے ۔ جو بات مزید غور طلب ہے وہ یہ کہ اردو رسم الخط کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے ، تمام ایسے شعراء ہیں جو دیو ناگری میں لکھ کر غزل پڑھتے ہیں ۔ ہندی میں بھی ہندی غزل کا فن زور پکڑ رہا ہے مگر ان سب سے اردو کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے ۔ زبان کو جب تک اس کے رسم الخط کے ساتھ نہیں استعمال کیا جائے گا زبان کا فروغ ممکن نہیں ۔ البتہ رسم الخط سے نا واقفیت کے باوجود مسلسل زبان کے استعمال سے زبان کے بگڑنے کا خطرہ زیادہ ہے ۔
کسی بھی زبان کی بقا کے لیے یہ لازمی ہے کہ اس کو روزگار سے بھی جوڑا جائے ۔ اردو داں طبقہ کی یہ بد قسمتی ہے کہ آج تک اردو کا رشتہ روزگار سے نہیں جوڑا گیا ۔آج بھی اعلیٰ سطح پر جو پروگرام اردو کی ترویج و اشاعت کے لیے بنائے جا رہے ہیں ان میں ایسے کورسیز کو شامل نہیں کیا جا رہا ہے جو کسی شخص کو روزگار مہیا کرانے میں معاون ثابت ہوں ۔ بالخصوص صوبائی سطح پر تو اس سمت میں بہت مایوسی کا سامنا ہے ۔ البتہ مرکزی حکومت کے ادارے این سی پی یو ایل نے ضرور کمپیوٹر کورس شروع کیا ہے جو کی انٹر میڈیٹ کے بعد اردو کی اہلیت رکھنے والوں کے لیے معاون ثابت ہو رہا ہے ۔ صوبائی حکومت کو بھی اس سمت قدم اٹھانا چاہیے ۔ اس کا بہترین طریقہ گاندھی جی اور وردھا کمیشن کی رپورٹ کے مطابق یہ ہونا چاہیے کہ بچے کو شروع سے ہی کسی پیشہ کی تعلیم دی جائے ۔
[email protected]