میر امتیاز آفریں
اردو زبان انتہائی شیریں اور خوبصورت زبان ہے جو جنوبی ایشیا میں ہی نہیں بلکہ اپنی لسانیاتی وسعت اور ادبی چاشنی کی بدولت پورے عالم میں ایک انفرادی شان رکھتی ہے۔ ادبی دنیا کو اردو نے غالب، اقبال، فیض، پریم چند، منٹو جیسے سخنور دئے اور اس طرح اپنی ایک پہچان قائم کردی۔ اردو کی ثقافتی افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے آئین ہند اسے آٹھویں شیڈول میں رکھتا ہے۔2018 کے ایک سروے کے مطابق اردو دنیا کی دسویں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ اردو ہماری قومی ملکی مشترکہ گنگا جمنی تہذیب و تمدن کی عکاسی کرتی ہے۔اردو ایک زبان ہی نہیں بلکہ ایک خاص مخلوط معاشرے، تہذیب، معیار اور طرز زندگی کی علامت ہے۔ اردو زبان کی قومی افادیت کو اجاگر کرتے ہوئے گاندھی جی نے ایک بار کہا تھا:’’ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ اردو ہندوستان میں پیدا ہوئی اور یہ خالص ہندوستانی زبان ہے۔‘‘
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے: ۔
یہ باتوں میں نرمی یہ تہذیب و آداب
سبھی کچھ ملا ہم کو اردو زباں سے
اردو اعلیٰ و متنوع اخلاقی و ثقافتی اقدار کا ایک خوبصورت مرقع ہے۔یہ زبان کانوں میں رس گھولتی ہے، ذہن کو فرحت بخشتی ہے اور قلب و روح کو معطر کردیتی ہے۔
جموں و کشمیر کے تناظر میں اردو زبان زبردست اہمیت کی حامل ہے، یہ نہ صرف ہماری سرکاری زبان ہے بلکہ ہمیں آپس میں جوڑنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔یہ ہمارے لئے اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ برصغیر میں دینی لٹریچر زیادہ تر اردو زبان میں ہی پایا جاتا ہے، قران و حدیث کے تراجم ہوں یا دیگر علومِ اسلامی، اردو کی کلیدی حیثیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو کشمیری کے بعد اردو ہماری دوسری مادری زبان ہے۔ یہاں زیادہ تر لوگ کشمیری بولتے ہیں مگر جب کچھ لکھنا ہو تو زیادہ تر کشمیری کے بجائے اردو کی طرف رخ کرتے ہیں۔ سماجی، سیاسی، مذہبی اور ادبی اجتماعات میں زیادہ تر اردو زبان کا استعمال کیا جاتا ہے، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اردو کا مستقبل روشن دکھائی دیتا ہے۔ مگر سکے کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ آہستہ آہستہ انگریزی زبان کے فروغ سے مقامی زبانوں پر ایک سنگین خطرہ منڈلانے لگا ہے، جن میں اردو بھی سرِ فہرست ہے۔
ہمارے یہاں طالب علم پہلے پہل اردو کی طرف خاصی دلچسپی دکھاتے تھے اور اردو پر باقی زبانوں سے زیادہ دسترس رکھتے تھے مگر دیکھا جاتا ہے کہ نئی نسل اردو زبان سے دن بہ دن نابلد ہوتی جارہی ہے۔ اردو بولی تو جاتی ہے مگر غلط تلفظ اور انگریزی الفاظ کی آمیزش کے ساتھ۔سب سے زیادہ دِقت ان کو اردو رسم الخط اور لکھائی کے ساتھ ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اب ہمارے طلباء دسویں جماعت تک لازمی طور پر اردو پڑھنے اور سیکھنے کے باوجود اکثر اسے انگریزی رومن اسکرپٹ میں لکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اردو کا زوال ہمارے ثقافتی اقدار کا زوال ہے اور اس کا ادراک ہمیں جتنا جلدی ہوجائے اتنا اچھا ہے۔
دور حاضر میں تعلیمی اداروں میں اردو زبان کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اردو کے فروغ میں مدارس اور کچھ تعلیمی ادارے ملک بھر میں ایک اچھا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے کام کی جتنی بھی سراہنا کی جائے کم ہے مگر ابھی بھی اس سمت میں کافی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عصرِ جدید کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا دور ہے، جس میں ابلاغ و ترسیل کے لئے زیادہ تر ڈیجیٹل موڈ کا استعمال ہوتا ہے۔
ابھی بھی اردو کی بورڈ (Urdu Keyboard)، یونی کوڈ اور اِن پیج فارمیٹس (Unicode and inpage formats)کے حوالے سے کافی سدھار کی گنجائش ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مختلف سوفٹویئرز کے ذریعے اردو کو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی زبان میں جدید معیارات کے عین مطابق منتقل کرکے عوام کی دسترس میں لایا جائے تاکہ اردو زبان کے تحفظ کی سمت میں ایک ٹھوس پیش رفت ہوسکے۔
جلتا رہے زبانِ محبت کا یہ چراغ
فردا ریختہ کا تحفظ تمہیں سے ہے
(فیصل فہمی)
[email protected]