سرینگر//جماعت اسلامی نے کہاہے کہ دنیا کے بڑے بڑے مسائل گفتگو کے ذریعے حل ہوسکتے ہیں بشر طیکہ فریقین اس بارے میں سنجیدہ ہوں اور مسائل کو حل کرنے کی نیت سے ہی گفتگو کا آغاز کیا جائے خاص کر طاقتور فریق‘ عدل و انصاف کا قائل ہو اور کمزوفریق کا جائز حق تسلیم کرنے کا حوصلہ اور ارادہ رکھتا ہو۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ موجودہ دنیا میں عالم انسانیت دیگر مسائل کے علاوہ دو نازک ترین مسائل سے دوچار ہے جن کے حل طلب رہنے سے ماضی میں کئی جنگیں ہوچکی ہیں اور جنگی ماحول اب بھی موجود ہے جس کے نتیجہ میں ان خطوں میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوچکی ہے اور خون خرابہ بھی جاری ہے۔ یہ دو مسائل‘ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین ہیں۔ مسئلہ فلسطین ۱۹۴۸ء میں اُس وقت پیدا ہوا جب عالمی طاقتوں کی سازش سے یہودیوں نے فلسطین میں داخل ہوکر مقامی لوگوں کو وہاں سے جبراً بے دخل کرکے اس خطہ زمین پر اپنا ناجائز قبضہ جمالیا۔جبکہ مسئلہ کشمیر ۱۹۴۷ء میں معرض وجود میں آگیا۔ جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے اس کے تین فریق ہیں جن میں کشمیری عوام بنیادی فریق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ۱۹۴۷ء میں جب بھارت کی فوج یہاں داخل ہوئی تب بھارتی حکومت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی وساطت سے یہ وعدہ کیا کہ حالات سدھرنے کے ساتھ ہی یہاں کے عوام کو اُن کے سیاسی مستقبل کے بارے میں فیصلہ لینے کا آزادانہ موقعہ فراہم کیا جائے گا لیکن 70 سال گزرنے کے باوجود یہ موقعہ فراہم کرنا ہنوز باقی ہے۔ اب اس وعدے سے ہی انکار کیا جاتا ہے یہاں تک کہ حتمی فیصلہ ہونے تک جو خصوصی پوزیشن اس خطے کو قانونی تحفظات کے ساتھ دی گئی تھی‘ اُس کو بتدریج کم کرکے تقریباًبے اثر بناکر رکھ دیا گیا ہے۔ یہاں کے عوام ۱۹۴۷ء سے ہی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں اور اس میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔ جماعت اسلامی کے مطابق ان کی تنظیم ہمیشہ اس بات کی قائل رہی ہے کہ دنیا کے تمام مسائل کا حل سنجیدہ اور بامعنی مذاکرات میں مضمر ہے اور مسئلہ کشمیر کے بارے میں بھی اس کا یہی مؤقف ہے جس کا بار بار اعادہ کیا جاتا ہے۔ اس بار بھی جماعت اپنے اس مؤقف کا اعادہ کرنا ضروری سمجھتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل یہاں کے عوام کی خواہشات کا احترام کرنے سے ہی تلاش کیا جاسکتا ہے جس کا طریق کار اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں موجود ہے یا جس کو تینوں فریق باہمی طور آپسی گفتگو کے ذریعے تلاش کرسکتے ہیں۔ بھارتی حکومت کے مقرر کردہ مذاکرات کار دنیش ور شرما کو بھی یہی طریق کار اختیار کرنے کا مشورہ اپنی حکومت کو دینا چاہیے تاکہ وقت کو ضائع کئے بغیر زمینی حقائق کی روشنی میں اس دیرینہ انسانی مسئلہ کو جموں و کشمیر کے جملہ عوام کی مرضی کے مطابق دائمی طور پر حل کیا جاسکے۔