اس وسیع و عریض کا ینات میں لا تعداد مخلوقات وجود پذیر ہوئے ہیں،اور ان لاتعداد مخلوقات میں سے انسان کو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کیاگیاہے ۔ اس طرح اسے حیوانی زندگی سے ممیز کر دیا گیاہے کیونکہ حیوانوں اور دوسرے مخلوقات کے پاس کوئی مقصد نہیں ہے ان کے سامنے کوئی نصب العین نہیں ہے ا ور نہ وہ کسی کے سامنے جوابدہ ہے ۔ دنیا کی ابتدا سے لے کر تا ایںدم، ان گنت لوگوں نے اپنی زندگیوں کا سفر طے کیا ہے ۔جن میں سے کچھ کی شخصیات وقت کی تیز دھاروں کے نیچے دب کر خاک میں مل گئیں اور کچھ ہستیاں اپنے نام ا ور کام کی وجہ سے آج بھی مثل ِآفتاب ومہتاب ضوء فشاں نظر آتی ہیں ۔تاریخ کا غائر مطالعہ کرنے سے یہ بات روزِروشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ صفحہ ہستی پر سے وقتاًفوقتاً جیّد شخصیات کا ارتقاء پزیر ہونا سامنے آتا رہا ہے،جن کے کارناموں اورخدمات کو تاریخ شایدکبھی بھلانے کی جسارت نہیں کر سکتی کیونکہ کامیابیاں اور کامرانیاں ہاتھ پر ہاتھ درے رہنے سے حاصل نہیں ہوتیں بلکہ اس میں محنت ِشاقہ درکار ہوتی ہیں۔ان چیزوں کے بغیر کوئی بھی شخص شہرت کے درجوں پر پہنچنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔حیاتِ جاوداں کا سہرا اسی کے سر باندھا جاتا ہے جس نے محنت کر کے اپنا دن رات ایک کیا ہو۔
یہ بات بھی اظہرِ من الشمس عیاںہے کہ کامیابیوں اور کامرانیوں کے راستے میں آلام ومصائب،خوشی اور غمی کے سیلاب در پیش آتے ہیں۔ درد و غم تو انسان کو کبھی کبھی ایسے گھیر لیتے ہیں کہ آدمی دم بہ خود ہو جاتا ہیلیکن ایک محنتی اور جفاکش آدمی مصیبت کی گھڑی میں اسی رومیں بہ نہیں جاتا بلکہ مصیبتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے اور ہار تسلیم نہیں کرتا۔وہ اپنی محنت،لگن،جستجواورخوداعتمادی کی مدد سے کارِ ناممکن کو بھی ممکن بنا دیتا ہے۔وہ کسی مقابلے سے گھبراتا نہیں وہ دریا میں کودتا بھی ہے اور کامیابی کے ساتھ دریا کو عبور بھی کر لیتا ہے۔دوسری طرف بزدل انسان کنارے پر ہی پس و پیش کے چنگل میں پھنسا رہ جاتا ہے- بقول کسے ؎
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
وہ کون سا عقد ہے جو وا ہو نہیں سکتا
دنیا دراصل دردو غم کا گہوارہ ہے، یہاں پرہر کسی انسان کو مصایب ومشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،لیکن بزدل،کاہل اور سست لوگ یہاں پر ہر محاذ پر شکست کھاتے ہیں۔اُن کا جینا محال ہو جاتا ہے۔اْن قافیہ حیات حالات کے بہاؤ میں تنگ ہو جاتا ہے،کیونکہ وہ اس دنیا کو اپنے لیے بوجھ قرار دیتے ہیں اور دنیا سے مقابلہ کرنے کے بجایے خود بہ خود شکست تسلیم کر لیتے ہیں۔ بزدلوں،کاہلوں اور سست لوگوں کے لیے یہ دنیا کبھی کارزارِ حیات نہیں ہو سکتی کیونکہ یہاں پر ہر قدم اور ہر پل مشکلات کے سیلاب اُمڑ آتے ہیں۔یہ دنیا کیونکہ خود ایک چلینج ہے اس میں وہی لوگ صحیح طرح سے گزر بسر کر سکتے ہیں جن میں اس دنیا کے مدوجزر سے مقابلہ کرنے کا مادّہ پیدا ہو جائے۔ وہی اصل جفا کش کہلاتا ہے اور مقدر کا سکندر بن جاتا ہے۔ جفاکش انسان کی نگاہ نیچی مگر حوصلے بلند ہوتے ہیں،اس کی سوچ اعلیٰ اور فکر وسیع ہوتی ہے جو کبھی جمود کی شکار نہیں ہوتی۔وہ ہوتا تو زمین پر ہی ہے لیکن اُس کی فکر افلاک کی سیر کر رہی ہوتی ہے اُس کی نگاہ میں شوق ہوتا ہے۔ا س کے حوصلے بلند ہوتے ہے اس کے ارادے پختہ ہوتے ہیں۔اس کا عزم مستحکم ہوتا ہے ،اس کا چلنا انقلاب،اس کی بات حریف کے لیے ایک چلینج ہوتی ہے۔اس کا اٹھنا،بیٹھنا،سونا،جاگنا،چلنا اور پھرنا، غرض اس کا ہر ایک عمل دوسروں کے لیے باعثِ سبق ہوتا ہے۔وہ سرحدوں یا رکاوٹوں کی زد میں نہیں آتا،وہ بندشوں اور سختیوں سے نہیں گبھراتا،وہ آسانیوں کا قائل بھی نہیں ہوتا لیکن مشکلوں سے کھیلنا اُس کو سکون وراحت بخشتا ہے۔محنت کے بغیر اس کو کسی بھی کام میں مزہ نہیں آتا۔وہ ہمیشہ سوالوں کے بجائے جوابوں کا حصہ ہوتاہے ۔اس کے پاس ایک لائحہ عمل ہوتا ہے وہ ہر کسی مسئلے کا حل تلاش کرتا پھرتا ہے۔اس کے لئے کام مشکل ہو سکتا ہے مگر نا ممکن قطعی نہیں۔وہ ہمیشہ کچھ کرنا چاہتا ہے۔
محنتی انسان نہ سرحدوں کی بندشیں تسلیم کرتے ہیں نہ زبان و تہذیب کی رکاوٹ ،وہ ایک تو خود محنت کی روٹی کھاتے ہیں ،دوم خیالی پلاو کھانے والوں کو روزگارکا مشورہ بھی دیتے ہیں۔وہ کہاوتیں نہیں سنتے رہتے لیکن کہاوتیں بنا کر حال کی دنیا کو جیت کر مستقبل کی دنیا کے لیے مشعلِ رہ بن جاتے ہیں۔وہ تاریخ رقم کرکے تواریخ بناتے ہیں۔محنتی لوگوں نے یہ ثابت کرکے دکھایا ہے کہ یہ دنیا تنگ نہیں ہے۔یہ صرف جاپان سے لے کر شمالی امریکہ تک ہی نہیں ہے۔لوگ صرف خشکی پر ہی نہیں بلکہ قطبِ شمالی اور قطب جنوبی کے علاقوں میں بھی رہتے ہیں۔وہ دنیا کو خوبصورت بنانے کے لیے اپنی راتوں کی نیندیں حرام کرتے ہیںخود نہیں سوتے مگر اوروں کے آرام کے سارے وسیلے تیار کرتے ہیں۔محنتی اور جفاکش لوگ دنیا کی تنگی مٹانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں،ان کے مطابق یہ دنیا بہت بڑی اور وسیع ہے ،وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں جاکر روزگار حاصل کرسکتے ہیں۔وہ وقت کی مصیبتیں دیکھ کر گبھراتے نہیں بلکہ سپاہیوں کی طرح سینہ تان کر وقت کے تیروں کے زخم کھا کر بھی کم ہمت نہیں ہوتے۔مردِجفاکش پتھر جیسی بنجر اور بد قسمت شے کو بھی ذرخیز اور قسمت والی چیز بناتے ہیں، وہ ریت کے ڈھیر کو صبر،عقل اور محنت سے لعل و گوہر کا ذخیرہ بناتے ہیں۔وہ کبھی ہمت نہیں ہارتے بلکہ دم توڑتے وقت بھی اپنی نئی نسل کو وصعیت کر جاتے ہیں کہ جفاکش بنو کیونکہ دنیا مردانِ جفاکش کے لیے بنائی گئی ہے۔
/9596050307ریسرچ اسکالر ،سینٹرل یونی ورسٹی آف کشمیر
ای۔میل:[email protected]