قرآن کریم میں اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’بےشک پیدائش میں آسمانوں کی اور زمین کی،اور رات اور دن کے آنے جانے میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ جو لوگ اللّٰہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر یاد کرتے ہیں اور غور کرتے ہیں آسمانوں کی اس زمین کی پیدائش میں، اے ہمارے رب! تونے یہ بےفائدہ پیدا نہیں کیا، تو پاس ہے تو بچا لے ہمیں دوزخ کے عذاب سے‘‘۔(آل عمران:190-191)
اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں سیکھنے کا طریقہ بتایا ہے۔ عقل والوں کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی نشانیوں پر غور وفکر کرتے ہیں۔زندگی کے ہر لمحے میں اللّٰہ کو یاد رکھتے ہیں۔اس آیت میں لفظ ’’ذکر‘‘ آیا ہے۔’’ذکر‘‘ کا لفظ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم کیلئے بھی استعمال کیا۔اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’بےشک ہم ہی نے ذکر (قرآن)نازل کیا اور بےشک ہم ہی اس کے نگہبان ہیں‘‘۔ (الحجر ۹)
اس طرح علم حاصل کرنے کے لئے جو پہلا کام بتلایا گیا وہ یہ ہے کہ اپنے خالق کو پہنچانا جائے اور صرف اسی کی عبادت کی جائے اور دوسرا کام یہ ہے کہ خالق کی تخلیق پر غور وخوض کیا جائے۔ ایسا کرنے کے بعد انسان کے ذہن میں جو بات آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کائنات یوں ہی پیدا نہیں ہوئی بلکہ اس کا ایک خالق ہے جس نے اس کائنات کو ایک مقصد کے تحت وجود بخشا،یعنی ان کے دل میں اللّٰہ پر ایمان پیدا ہوتا ہے اور وہ متقی بن جاتے ہیں۔
اگر ہم زمینی حالات پر نظر دوڑائیں تو ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ اس طرح کے طریقہ تعلیم سے مسلمان من جملہ قوم کوسوں دور ہے۔ لہٰذا ہمیںاپنے طریقہ کار کو درست کرنا ہوگا۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم مسلمان اپنے حالات کے لئے اپنے علاوہ ہر کسی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ہم مغرب کی تقسیم کرو اور راج کرو((Divide and Rule جیسی فتنہ پرورپالیسی کا خوب چرچا کرتے ہیں مگر ہم آج تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ جب تک کوئی قوم تقسیم نہ ہونا چاہئے، دنیا کی کوئی طاقت اسے تقسیم نہیں کرسکتی۔ یہ صحیح ہے کہ پوری دنیا میں مسلمان کے ساتھ غلط رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اسے روز بروز غلامی کی زنجیروں میں جکڑا جارہا ہے۔ اس کی زمین ِ وطن اور وسائل اس سے چھینے جار ہے ہیں۔ اس کے حقوق پر شب خون مارا جارہا ہے۔ اس کا قافیہ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔ اسے اپنی ہی زمین پر قیدی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اس کا ہر قیمتی اثاثہ اس سے چھینا جارہا ہے۔
ایسے حالات میں مسلمان من حیث القوم کیا کریں؟ جواب یہ ہے کہ ہمیں اسلامی طرزعمل کو اپنانا ہوگا۔ آج مسلمان اپنی حالت کا دنیا کو قصوروار ٹھہرا رہا ہے مگر جہاں ممکن ہے وہاں بھی مسلمان اپنی حالات بدلنے کے لئے تیار نہیں ۔ مسلمان کو اپنے آپ کو ایک رول ماڈل کے طور پیش کرنا ہوگا تاکہ باقی اقوام اور معاشرے اسلامی طرزِعمل سے واقف ہوسکیں۔ایسا پہلے بھی ہوا ہے اور آج بھی اسی طرح اسلام کو پیش کرنے کی ضرورت ہے جس طرح صحابہ کرامؓ نے دوسرے ممالک میں جاکر اسلام کو پیش کیا۔ ان ملکوں میں رہنے والے لوگوں نے جب مسلمان ایمان دار تاجروں اور بے لوث مبلغوں کو دیکھا تو ان کی ایمانداری اور خدا خوفی سے متاثر ہوکر اسلام کے قریب آگئے۔ مشہور محدث امام ظہریؒ فرماتے ہیں کہ ’’فتح مکہ کے بعد عرب کے اندر اسلام کے زبردست پھیلاؤ کی وجہ یہ تھی کہ پہلی بار لوگ ایک عام مسلمان کی زندگی سے روشناس ہوگئے‘‘۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اسلام کو ظاہراً اور باطناً اپنانا ہے۔ اسلامی طرزِ زندگی لوگوں کو اپنی طرف راغب کرتا ہے۔ بس ہمیں صرف اس کے لئے تیار ہونا ہے۔
ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہے کہ ہم دنیا کو اسلامی طرزِ زندگی کے فوائد سے روشناس کرائیں۔ اس لئے ہمیں اسلامی طرزِ زندگی کو عملاً سامنے لانا ہوگا تاکہ دنیا اس حقیقت سے واقف ہوسکے۔ صرف وعظ وتبلیغ اور تقریروں سے ہمیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ ہم لوگوں کو جنت کی خوشخبری دیتے ہیں مگر لوگ ہماری دوزخی حالت دیکھ کر ہم سے دور بھاگ رہے ہیں۔ وہ لوگ جو صرف باتیں کرتے ہیں اور اپنی باتوں کو عملاتے نہیں ،ان سے کوئی بھی متاثر نہیں ہوتا۔ ہمیں دنیا کو دکھانا ہوگا کہ اسلام کس طرح ایک مسلمان ڈاکٹر کو دوسروں سے الگ انسان دوست بناکرخدمت خلق اللہ کے لئےپیش کرتا ہے۔ ایک مسلمان اُستاد کس طرح اپنے طالب علموں کی نظر میں ایک بہترین استاد کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ایک مسلم سیاست دان دوسرے سیاست دانوں سے کیسے حق پسندی اور حلال خوری کے حوالوں سے بالکل الگ اور منفردنظر آتا ہے۔ غرض اسلام ایک تاجر، سائنس دان، شوہر، بیوی، بیٹا، ملازم، مالک، مزدور ، کاریگر غرض سماج کے ہر فرد کو دوسروں کے سامنے ایک رول ماڈل کے طور پیش کرتا ہے۔ اگر ہم بطور مسلمان ایسے مسلمان دنیا کو دے سکیں تو پھر ہمیں اسلام کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ ہمار ااسلام خود بولے گا اور دنیا ہم میں اسلام کو عملی طور مشاہدہ کرسکے گی۔ پھر دنیا کا فرد فرد اور ہرقوم جان جائے گی کہ اسلام آج کی دنیا میں ہرایک فردبشر کو بہترین معاشرہ کیلئے کیا کچھ دے سکتا ہے اور اگر اسلام موجود نہ ہو تو معاشرہ کتنی بڑی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اگر ہم یہ مقام حاصل کرگئے تو سمجھ لیجئے کہ اسلام کے خلاف اٹھنے والی آوازیں اور اقدامات خودبخود دھیمے پڑ جائیں گی اور لوگ اسلام کے بارے میں مزید جاننے کے لئے بےتاب ہی نظر نہ آئیں گے بلکہ خود اپنے مفاد میں اسلام کو دل سے قبول کر کے اللہ کے بندے ہوجائیں گے۔
مسلمانوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ خلافت اسلامی کے بغیر ان کا مسلمان بنے رہنا ممکن ہے، مگر شریعت کا پالن کئے بغیر اور احکام اسلامی اپنائے بغیر ہمارا یمان مشتبہ ہے اور ہمارا بحیثیت قوم باقی رہنا ناممکن ہے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد نماز وزکوٰۃ سے غفلت برت رہی ہے۔ فرائض سے منہ موڑ رہی ہے اور ہم ہی ہیں کہ خلافت اسلامی کی بڑی بڑی باتیں کررہے ہیں ۔جب ہم اللّٰہ کی پیروی نہیں کرسکتے تو بھلا ہمارا خلیفہ ا للہ ہونے کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے؟ ہمیں پہلے احکاماتِ دین کو اپنے اوپر اور اپنے گھر پر، اپنے دل پر ،اپنی جیب پر، اپنے شب وروز پرلاگو کرنا چاہئے، اس کے بعد بڑی بڑی باتوں اور اونچے ایمانی اہداف کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ اس وقت ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اسلام سے غافل ایک بکھری ہوئی امت ہیں، اگرچہ اس اُمت کو پھر سے ایمان کی بنیادپر ایک جٹ ہونا ہمارے ہی ہاتھوں میں ہے مگر کیاہم اس کے لئے تیار ہیں؟ اس کے لئے ہمیں بس اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کے ہر حکم کی پیروی کرنی ہے،اس واسطے سے اُمت پھر سے ایک ہوسکتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’سب مل کر اللّٰہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور تفرقہ میں نہ پڑو‘‘۔
رسولﷺ نے فرمایا’’بےشک یہ قرآن اللّٰہ کی رسی ہے جس کا ایک سرا اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سرا تمہیں تھامنے کے لئے چھوڑا گیا ہے۔‘‘
اس اہم ترین کام کو انجام دینے کے لئے یہ ضروری ہے کہ علاقائی سطح سے لے کر قومی سطح تک ہم بحیثیت مخلص وکارکشا اور خادم اُمت ہر پل انتھک کام کریں۔ ہمارا امیر کارواں ایک ہو،ہمارا نظم ایک ہو اور ہم سب ایک پروگرام کو Follow کرنے والے ہوں۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جو اس پروگرام کو انجام دینے میں ہر وقت ہماری رہنمائی کے لئے تیار ہے کیونکہ اسلام سیاسی بھی ہے، روحانی بھی ہے، اخلاقی بھی ہے اور مادی بھی۔ اسلام زندگی گزارنے کا مکمل خاکہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ لہٰذا اسلام ہماری زندگی کے ہر موڑ پر ہمارے ساتھ ایمان واعمال ہونے چاہئیں لیکن اس کی سب سے پہلی سیڑھی ہمارے دل کی آمادگی ، ضمیر کی موجودگی، شیاطن سے نفرت ومغائرت ہے ۔جیسا کہ اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے:
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو۔ اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدم بہ قدم مت چلو۔ بلاشبہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے‘‘۔(البقرہ)
ہم مسلمان جب مغرب کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں وہاں سب کچھ شیطانی نظر آتا ہے جب کہ یہ پوری حقیقت نہیں ہے۔ آج سب سے زیادہ نومسلم مغرب میں ہی پیدا ہوتے ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مغرب کے اندر سب کچھ غلط نہیں ہے، وہاں سب لوگ حق سے منہ موڑے نہیں ہیں بلکہ وہاں دین ِخداوندی کے متلاشی بھی ہیں۔ دراصل ہم اپنی خفت مٹانے اور ناکامیاں چھپانےکے لئے اپنے گناہوں کاالزام دوسروں پر تھوپ کر خود کو دھوکہ دیتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی اپنے حالات کا جائزہ لینے کی بھی کوشش کی ہے؟ کبھی یہ دیکھا ہے کہ ہمارا ایمان کتنا مستحکم ہے ؟آیا اپنے ایمان کو ہم نیک عملی کے پانی سیراب کر رہے ہیں ؟ دنیا کو اچھائیوں کی طرف بلاتے ہوئے اپنی برائیوں سے تائب ہوئے ہیں ؟
جہاں تک عبادت کا تعلق ہے تو بعض مسلمان شرک میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ یہ نہ صرف خود تو شرک وبدعت میں مبتلا ہیں بلکہ ان کو بھی شرک وبدعت پر مجبور کردیتے ہیں جنہیں قرآن کریم کا عم نہیں ، حدیث کا مطالعہ نہیں ، اخالق سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ، ایسے ہی لوگ اس بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ نمازوں میں غفلت، روزوں سے عدم دلچسپی، خدمت خلق سے دوری ، ہمدردی اور انسانیت سے بے تعلقی اب ہم میں عام سی بات ہوگئی ہے۔ مال وزر ہونے کے باوجود مسلمان سو دکھائیں ، زکوٰۃ نہ دیں ، خیرات و صدقات سے اجتناب برتیں ، حج کے لئے تیار نہ ہوں ، دوسروں کے ساتھ ہمدردی رکھنے کے بجائے ایک دوسرے پر ظلم روا رکھیںتوا للہ ہم سے ناخوش کیوں نہ ہوگا ؟ مسلمانوں ملکوں اور علاقوں میں قتل و غارت گری اور فساد برپا ہے، سودی کاروبار عام ہے، رشوت خوری، شراب نوشی، چوری، ڈکیتی میں بھی کئی مسلمان حصہ دا رہوں تو ایسے میں ہم غیر مسلم قوموں پر کیا کوئی مثبت اثر ڈال سکتے ہیں؟ بلاشبہ ساری برائیاں اور گناہ گاریاں ہمارے اندر موجود ہیں اور ہم ہی میں بعضے دعویٰ کر تے ہیںدنیا پر حکومت کرنے کا ۔ کیا ایسا خواب شر مندہ ٔ تعبیر ہونا ممکن ہے؟
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ امت مسلمہ پوری دنیا میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ ہورہا ہے، خصوصاً یورپ میں مگر ہمیں یہ بھی جان لینا چاہئے کہ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ کشمکش تو صدیوں سے دین حق کے خلاف جاری ہے۔ عیسائی، یہودی اور بت پرست اور مشرکین تو صدیوں سے اسلام کو مٹانے کے درپے ہیں، نئی سازشیںاور نئی زہرناک حکمت عملیاں اپنائی جارہی ہیں۔ ان دنوں خاص کر نوجوانوں کا اخلاق بگاڑنے کی مذموم کوششیںکی جارہی ہیں ،ہمیں قرآن کریم سے دور رکھنے کی کوشش ہورہی ہیں تاکہ اسلام اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹایا جائے، مگر یہ دین ہے کہ لاکھ کوششوں کے باوجود اپنا سفر حقانیت کی بنیاد پر جاری رکھے ہوا ہے۔ بقولِ شاعر ؎
اسلام کو فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
جتنا بھی دباؤ گے اتنا ہی اُبھرتا ہے
مفکرِ اسلام سید مودودیؒ نے کئی دہائی پہلے فرمایا تھا: ’’ایک وقت آئے گا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچاؤ کے لئے پریشان ہوگا، سرمایہ درانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لئے لرزہ براندام ہوں گے اور یہ آج کا دور صرف تاریخ میں ایک داستان عبرت کی حیثیت سے باقی رہ جائے گا کہ اسلام جیسی عالمگیر و جہاں کشا طاقت کے نام لیوا کبھی اتنے بےوقوف تھے کہ عصائے موسیٰ بغل میں تھا اور لاٹھیوں اور رسیوں کو دیکھ دیکھ کر کانپ رہے تھے۔‘‘سید مودودیؒ کے یہ الفاظ آج حقیقت بن کر ہمارے سامنے ایستادہ ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ اصل طاقت خدا کی طاقت ہے، دین اسلام ہی باقی رہنے والا ہے جب کہ باقی سبھی ازم اور فلسفے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ ختم ہوجائیں گے۔ اسلام وہ چیز نہیں جسے محدود، محصوریا مقید کیا جاسکے، اسلام اپنی حقیقت کے اعتبار سے عقیدہ بھی ہے، قوت کا ضامن بھی ہے ، عظمت کاراز بھی ہے ، عبادت کاسلیقہ بھی ہے، وطن بھی ہے اور قومیت بھی ہے، رواداری بھی ہے ، اعلیٰ ظرفی بھی ہے، وہ اخلاق بھی ہے، ایثار بھی ہے ، مادی قوت بھی ہے، ثقافت بھی ہے ، قانون بھی ہے۔ ایک مسلمان سے اسلام کا مطالبہ ہے کہ وہ اللہ سے لو لگائے ، رسول ؐکی اتباع کرے ، انسانیت کی عزت کرے ، امت کے سارے مسائلِ دنیا میں دلچسپی لے اور پوری دنیا کی بہتری میں کنٹری بیوشن دے۔ہمارے اسلاف اسلام کا اس کے سوا کوئی اور معنی اور مفہوم نہیں رکھتا تھا۔ وہ اسلام کے ذریعےہی خدمت کی غرض سے حکومت بھی کیا کرتے تھے۔اس کی خاطر وہ اپنی جانیں جہاد میں داؤ پر بھی لگا دیتے تھے۔ وہ اسلام کے اصول و مبادی پر اپنے معاملات چلاتے تھے۔ وہ اسلام کے سفینے میں بیٹھے حالات کےسمندر میں ساحل مراد سے ہمکنار ہوکر ہی دم لیتے تھے۔وہ دنیا کو آخرت کی کھیتی سمجھ کر اسے اچھےا عمال سے سنوارتے سجاتے تاکہ اس کا پھل اخروی زندگی میں پائیں۔یہی نسخۂ عمل ہمیں بھی بحیثیت مسلمان کامیابی کے لئے زندگی کے ہر شعبے میںاپنانا ہوگا، یعنی اپنی پوری زندگی کو اسلام کے ما تحت لانا ہوگا۔ ہمارے خیالات، ہمارے نظریات، ہمارے علوم، ہمارے طور طریقے، ہمارے معاملات، ہماری سعی وعمل ، ہمارااُٹھانا بیٹھنا ، ہماری شادی غمی ، ہماری دوستی دشمنی سب کی سب تابعِ اسلام ہو۔ ایسا نہ ہو کہ ہم اپنی زندگی کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے بعض حصوں میں اسلام کی پیروی کریں اور بعض حصوں کو غلط کاموں میںلگادیں توپھرا س صورت میں ہمارا خسارہ ہوگا، نفع صرف اللہ کی اطات اور رسولؐ کی اتباع میں مضمر ہے ۔اسی اسلام کی دنیا کو ضرورت ہے ؎
میری زندگی کا مقصد ترے دیں کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلمان، میں اسی لئے نمازی