یادیں
سجاد احمد زرگر
دمباز ؔ صاحب کی بے پناہ محبت اور شفقت کا ایک اور یادگار لمحہ دل پر دستک دے گیا ۔ ان کے انتقال کو ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، لیکن ان کی محبت بھری یادیں آج بھی دل میں تازہ ہیں۔ چند دن پہلے کسی چیز کی تلاش کے دوران اُن کا ایک خط ہاتھ لگا۔ چوں کہ موصوف کواردو زبان میں خطوط کے ساتھ بڑی دلچسپی تھی، اسی لئے وہ وادی کے کئی معزز شخصیات کو خطوط ارسال کرتے رہتےتھے جن میں احقر کو بھی کئی خطوط موصول ہوئیں ہیں ۔ یہ خط یکھتے ہی آنکھیں نم اور دل اشکبار ہوگیا، خط کا تمہیدی جملہ ‘نور چشم پر نظر پڑتےہی دمبازؔ کاشمیری کی بےلوث محبت کی تصویر ذہن کے پردے پر واضح ہوگئی۔ خط کے نیچے لکھی ہوئی تاریخ کو دیکھ کر معلوم ہوا کہ یہ خط اس وقت کا ہے جب راقم الحروف مادر علمی دارالعلوم ندوة العلماء لکھنؤ میں زیر تعلیم تھا۔
دمباز ؔ کاشمیری کی مختصر سوانح حیات:
محمد یوسف پرے تخلص دمباز ؔ کاشمیری 1947ء میں ایک علمی گھرانے اپنے والدخواجہ غلام احمد پرے کےگھر، علاقہ نٹی پورہ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کرنے کے بعد انہوں نےخالصہ ہائی اسکول سرینگر میں ساتویں جماعت کا امتحان پاس کیااور پھرگورنمنٹ ہائی اسکول برزلہ سرینگر میں 1967ء میں دسویں جماعت میں کامیابی
حاصل کی، 1968ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جامعہ اردو میں ’ادیبِ ماہر‘ کی سند حاصل کی، بعدازاں، 1971ء میں نئی دہلی میں آئی ٹی آئی(ITI) مکمل کیا،کشمیر واپس آکر 1972ء میں محکمہ پی ایچ ای (PHE) میں سرکاری ملازمت اختیار کی اور 1905ء میں بطور سینئر اسسٹنٹ ریٹائرہوئے۔اور23 نومبر 2023ء کو معمولی علالت کے بعد اس دارفانی سے کوچ کرگئے اور ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔
دمبازؔ کاشمیری کی ادبی زندگی کا آغاز :
دمباز ؔ صاحب کی ادبی زندگی کا آغاز 1987ء میں ان کی پہلی کتاب ’’گفتاردمباز‘‘ سے ہوا، جوکشمیری شاعری پرمبنی ہے اور اس کے بعد 1988ء تک ان کی تصنیف کردہ کتابوں کی تعداد چار تک پہنچ چکی تھی، یہ چاروں کتابیں کشمیری زبان میں شاعری پرمشتمل ہیں۔2004ء میں حج بیت اللہ سے واپسی کے بعد انہوں نےکچھ سماجی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کی، جس میں نٹی پورہ کی جامع مسجدابوحنیفہؒ کےچیرمین کے عہدے سے استعفیٰ بھی شامل تھا۔ اُس کے بعد انہوں نے مکمل یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ علمی و ادبی کاموں میں خود کو منہمک کر لیا۔ جس کے نتیجے میں وہ پچیس کتابوں کے مصنف بنے۔ان کی زندگی میں 23 کتابیں شائع ہوئیں، ایک کتاب ان کے انتقال کے بعد منظر عام پر آئی، جبکہ ایک کتاب کی اشاعت ابھی باقی ہے اور اس طرح نہ صرف انہوں نے اپنے علاقے کا نام روشن کیا بلکہ پورے وادی ِ کشمیرکےمعروف اُدباء میں اپنی شناخت قائم کی ۔
دمباز ؔ صاحب کی علمی اور ادبی زندگی تین ادوار پر مشتمل ہے، جو ان کی فکری ارتقا اور تخلیقی صلاحیتوں کو بخوبی اُجاگر کرتے ہیں۔
پہلا دور (1987ء تا 2007ء): یہ دور دمباز ؔ صاحب کی تصنیفی زندگی کی ابتدا کا زمانہ ہے۔ اس دوران انہوں نے مختلف موضوعات پر چند صفحات پر مشتمل کتابچوں کی صورت میں اپنی تحریری صلاحیتوں کو آزمایا۔ اس مرحلے میں انہوں نے صرف کشمیری زبان کا سہارا لیا، جو ان کی ابتدائی تخلیقی کوششوں کا عکاس ہے۔
دوسرا دور (2013ء تا 2021ء):یہ ان کے علمی سفر کا عروج تھا، جس میں انہوں نے اردو، فارسی اور کشمیری زبانوں میں اپنی تصنیفات پیش کیں۔ جو نہ صرف ان کی لسانی مہارت کا ثبوت ہے بلکہ ان زبانوں پر گہری گرفت کی علامت بھی ہے۔ اس دور میں ان کے نعتیہ کلام کے ساتھ ساتھ معروف صوفی بزرگوں جیسے شیخ نور الدین نورانیؒ، عمہ صاحبؒ، غفار صاحبؒ اور سعید جعفر صاحبؒ وغیرہ سے عقیدت اور محبت کا بھرپور اظہار ملتا ہے۔ یہ دور ان کے متصوفانہ افکار اور احساسات کو بخوبی نمایاں کرتا ہے۔
تیسرا دور (2021ء تا آخری زندگی): زندگی کا یہ آخری دور حُب ِنبیؐ سے مکمل طور پر سرشار تھا۔ اس مرحلے میں ان کی تحریروں میں سیرت ِالنبیؐ اور عظمت ِنبیؐ کا گہرا اثر نمایاں تھا۔ راقم الحروف کی گواہی ہے کہ اس عرصے میں جب بھی ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، ان کی گفتگو کا مرکزو محور سیرت النبیؐ اور نبی کریمؐ کی عظمت و شان رہا کرتا تھا۔یہی محبت ان کی تصنیفات میں بھی جھلکتی ہے، اگرچہ کہیں کہیں اس محبت میں افراط کا عنصر بھی محسوس ہوتاہے۔یہ تین ادوار دمبازؔ صاحب کی علمی و ادبی خدمات کی جامع تصویر پیش کرتے ہیں، جو ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔ انہوں نے نعتیہ کلام کے ساتھ حمد اور منقبت کے موضوعات پر بھی دلکش اشعار تخلیق کیےہیں ۔ اس کے علاوہ ، نصیحت اور اصلاح کے لئےانہوں نے نظموں، قطعات اور رُباعیات کو نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا ہے ۔ اسلوب بھی سادہ اور عام فہم ہے ، جس میں پیچیدگی کا شائبہ نہیں۔ اگر چہ ان کے فن کو مزید نکھارنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، جس سے ان کے کلام میں مزید جاذبیت پیدا ہوسکتی تھی، تاہم ان کے کلام کو کشمیر یونیورسٹی کے معروف پروفیسر جی این خاکی،ڈاکٹر الطاف انجم، ڈاکٹر عابد گلزا رزور ، ڈاکٹر محی الدّین سمیت دیگر اہل علم نے سراہا ہے۔ان کے کلام نے قارئین کے ایک وسیع طبقے کو متاثر کیا ہےاور ان کے فکری وتخلیقی سفر کی گہرائی کواُجاگرکیاہے۔
دمباز ؔصاحب کے کلام کا مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک نیک دل، خدا ترس اور پاکیزہ شخصیت کے مالک تھے، جن کی زندگی خلوص اور طہارت کا عملی مظہر تھی۔ ان کے کلام میں عشق حقیقی کا ایک ایسا روشن چراغ نظر آتا ہے جو قارئین کے دلوں میں علم، فکر اور پاکیزہ خیالات کے کئی چراغ روشن کر سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے خیالات اور جذبات کو مختلف موضوعات پر انتہائی خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے۔