اپنا ملک کشمیر بھی عجب پریم کی غضب کہانی ہے ۔ہمیں تو زور دے کر بتایا جاتا ہے کہ یہ جو وردی پوش یہاں وہاں ابابیلوں کی طرح گھوم پھررہے ہیں وہ تو اپنا کرتویہ نبھا رہے ہیں کہ اہل کشمیر کی حفاظت اپنا فرض سمجھتے ہیں بلکہ اگر ہم زندہ ہیں تو ان کے ہی دم سے ، یعنی یہ پریم کی غضب کہانی ہے ۔ ہم نے بس ان کا د م نہیں بلکہ دم خم دیکھا جس کے سبب ہماری کمر بھی خم ہے اوور دلوں میں غم ہے اور جان میں تو دم رہا ہی نہیں ۔ وہ تو ہمارے جوانوں کے گرد بم باندھتے ہیں ، پکڑ لیں تو ہماری ہڈیاں پُر ترنم بجاتے ہیں ،اسی لئے ان کا فرض آئے دن فرضی ثابت ہو رہا ہے۔یہاں تو خبر بھی فرضی، اطلاع بھی فرضی پھر انکائونٹر بھی فرضی ہے ۔پتھری بل سے لے کر مژھل سے ہوتے ہوئے اور اب ہندوارہ کے ہفرڈہ جنگل میں شاہد احمد میر نامی لڑکے کا فرضی انکائونٹر ۔ بھلا ہم حساب بھی کتنا رکھیں کہ خون تو یہاں بے دریغ اور بے حساب بہایا گیا؟ایسے میںلو جی فوجی موج منائو کہ بھکت جنوں کو کرنل پروہت نام کا نیا ہیرو مل گیا۔ہمیں تو نو برس بتاتے رہے کہ اس نے مالیگاؤں بلاسٹ کے لئے بارودی مواد سپلائی کیا تھا اور آدھ درجن معصوموں کو موت کے گھاٹ اتار دیا مگر اب جتاتے ہیں کہ کیس ہی فرضی بنایا گیا تھا۔خیر مر نے والوں کی کوئی قیمت تو ہے نہیں کہ وہ اقلیت سے تعلق رکھتے تھے۔یہاں تو گائے ماتا فرضی گوشت کے نام پران کو مارا کاٹا گیا، اب بلاسٹ میں مرے تو کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ بڑے بڑے جمہوری ممالک میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ہم نے سنا تھا کہ ہیمنت کرکرے جیسے ایماندار اور نڈر پولیس افسر نے پروہت کوقانونی شکنجے میں لایا تھا کہ یہ زعفرانی دہشت گردی کا ایک حصہ تھا مگر اب کہتے ہیں کہ زعفرانی دہشت گردی فرضی نام ہے۔ یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے کہ وہ بھی مودی مہاراج کے بھکت جنوں سے ڈرتا ہے۔ ڈرے کیوں نہ کہ بھارت ورش کا پتا یعنی راشٹر پتا بھی انہی بھکت جنوں کی گولی کا شکار ہو گیا تھا ۔ پھر جو گوڈسے کا جنم دن منانے والے سڑک سڑک گھومتے ہیں، لگتا ہے کہ گاندھی سمادھی میں زلزلہ پیدا ہوتا ہوگا کہ کہیں ادھر کا بھی رُخ نہ کردیںکیونکہ بھکت جن اب راشٹر پتا کو بھی فرضی ہی مانتے ہیں۔ابھی سپریم کورٹ نے فقط ضمانت منظور کی کہ بھکت جنوں نے کرنل پروہت کو ہیرو مانا۔خود فوج نے زبردست انتظام کیا کہ اُسے جیل سے باہر لے آئے۔ فوج کے لئے بھی اب پروہت اور میجر گگوئی جیسے نئے نئے رول ماڈل پیدا ہو رہے ہیں۔کچھ تو وہ ہیں جو پتھری بل میں بے گناہوں کے خونِ ناحق میں ملوث رہے مگر فوجی عدالت کو ان کی وردی پر خون کا ذرا بھی دھبا نظر نہ آیا۔پھر مژھل میں تو پٹھانی سوٹ والے عسکری مار گرائے تھے، بھلا نادی ہل کے تین لوگ کس کھیت کی مولی ہیں؟لمبے قد کے فلمی ہیرو نے کب کا فیصلہ دے رکھا تھا کہ مجھے تو سب پولیس والوں کی صورتیں ایک جیسی دکھتی ہیںیعنی ملک کشمیر کیا ، دلی کیا ، یو پی کیا خاکی والے تو سبھی منہ سے آگ اگلتے ہیں ۔اب یہ نہ پوچھناکہ ہریانہ میں سنت رام رحیم کی پریم کہانی میں ایسا کیا جادو ہے کہ وردی پوش اپنے ہاتھ پاؤں بندھے بیٹھ گئے کہ ۳۱؍ پریم یوگی پرلوک سدھار گئے ، بے شمار زخموں کی پھلواری بدن پر سجائے کراہ رہے ہیں۔یہ بات بھی ہے کہ ہمیں آباء و اجداد کے زمانے سے اس وہم میں مبتلا رکھا گیا کہ خاکی وردی پوش اہل کشمیرکی حفاظت پر مامور ہیں اورہم اس مغالطے سے ایک دن نکلتے ہیں اور دوسرے دن اس طرح ان ابابیلوں کے بنائے ڈربے میں بصد احترام داخلہ لیتے ہیں کہ کبھی اسکول ایسے نہیں گئے اورجب کھچا کھچ بھر جاتے ہیں تو شہر کی سڑک پر چلنے والی منی بس اور ان کے ڈربے میں فرق کرنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ دونوں میں مرغ بے ترتیب نظر آتے ہیں۔بال سوکھے ، کپڑے لت پت پنکھ کے پنکھ اڑے اڑے سے لگتے ہیں، پھر جب سالہا سال بعد ڈربے سے خلاصی ملتی ہے اور زمان کیا مکان کیا سارا انسان ڈھیلا ڈھالا دکھتا ہے۔ ہم نے تو سنا تھا کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں ہمیں کیا پتہ اس کی عمر کچھ زیادہ ہی لمبی ہوتی ہے بلکہ عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن ۔دو آرزو میں کٹ گے دو فرضی کیس کے سبب بھارتی جیل میں ۔کہاں عدالتیں تاریخ پہ تاریخ دیتی ہیں ،کہاں تاریخ کے بہانے جوانیاں چھینتیں ہیں۔یقین نہ آئے تو کشمیری اسکالر گلزار وانی کو دیکھو کہ اسے قانونی راستوں کی اوبڑ کھابڑ سطح طے کرتے سولہ سال گزرے۔پھر بھی اعتبار نہ ہو تو رفیق شاہ اور حسین فاضلی سے پوچھو وہ بھی کوئی گیارہ سال قانون کی عمر دراز کا شکار ہو گئے۔پھر بھی بھروسہ نہیں تو انجینئر فاروق خان کے اُنیس سال انگلیوں پہ گن لواور دیکھو قانون کی عمر کس قدر دراز قد ہوا کرتی ہے گویا عمر دراز نہ ہو کسی حسینہ کے گیسو دراز ہوں کہ دل کی طرح الجھ ہی جاتے ہیں۔ وہ توکہتے ہیں قانون اپنا راستہ خود متعین کرے گا او رکون نہیں جانتا کہ اس کے راستے میں رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہیں ۔ یقین نہ آئے سابر متی ایکسپریس ریل گاڑی کی پٹری جو اکھڑ گئی تھی پھر اسے ٹھیک کرنے میں پولیس والوں نے گلزار کو چنا ۔دیوالی منانے کے لئے خاکیوں نے حسین اور فاضلی کا انتخاب کیا۔البتہ جب وہ عدالتی نظام کے تحت بے گناہ قرار پائے تو کسی ٹی وی چینل پر ذکر خیر نہیں کیا گیا لیکن اب کرنل پروہت کی فقط ضمانت منظور ہوئی فیصلہ نہ ہوا کہ صحافت کا مچھلی بازار گرم ہوا ۔پروہت کو بے گناہ ثابت کرنے پر تل گئے۔کرکرے کو کل اعلیٰ انعام سے نوازا تھا، اسے بھی دیش دروہی کی فہرست میں شامل کیا کہ اس نے سیکولر سرکار کے کہنے پر فرضی ہندو دہشت گردی نام سنایا تھا ؎
میرے روز و شب بھی عجیب تھے نہ شمار تھا نہ حساب تھا
کبھی عمر بھی کی خبر نہ تھی کبھی ایک پل کو صدی کہا
اپنے ملک کشمیر میں چار سو شور بپا ہے کہ ۳۵۔اے کے ساتھ چھیڑ خانی کی کوشش ہو رہی ہے۔ہم تو حیران ہیں کہ یہ شق کوئی حسینہ مہ جبین ہے کیا کہ چھیڑ خانی ہو ؟ہل والے قائد ثانی سے لے کر روز روز دُرگت بنانے والے انجینئر،ہتھوڑے کی ضربیں اور درانتی کی کاٹ لگانے والے ممبر، ہر سیاسی بات کے لئے تعویذ لکھنے والے پیر صاحب بیک زبان نعرہ مستانہ لگا رہے ہیں کہ جو ہم سے ٹکرائے گا پاش پاش ہوجائے گا ۔ یہ اور بات ہے کہ گرینڈ پیلس ہوٹل غیر مقیم فرد کو منتقل کرنے میں بڑے سیاسی مگر مچھوں نے اپنا گھنائونا رول نبھایا۔ قلم دوات والے چار وزراء بھی دلی دورے پر نکل پڑے کہ اب کی بار مستقل طور پر حق شہریت قانون بچا کر ہی دم لیں گے ۔ماناکہ ان کے کنول نما کانٹے والے دوست دور سے بائی بائی بھی کر گئے ۔اس لئے کہ دلی دربار والے بھی انہیں گھاس نہیں ڈالتے ؎
سیاسی چوزوں کو دلی نے یہاں گاما بنا ڈالا
جو کام نکلا تو بے چاروں کو مفلس ماما بنا ڈالا
جو دسویں کرکے ٹنل پار سے تشریف لائے تھے
انہیں تقدیر کا مالک اور علامہ بنا ڈالا
اور جنہوں نے ہڑتال کرانے کے تمام حقوق اپنے نام محفوظ کرائے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ دفعہ ۳۵ کا نود وگیارہ کیا گیا تو ملک کشمیر کی سڑکوں پر خون بہے گا۔ہم تو بیٹھے بیٹھے سوچ میں پڑ گئے کہ ادھر اپنی گلی کوچوں شاہراہوں پر کیا کم ہی خون بہا ہے کہ اور بہانے کی ضرورت پڑی اور ایسے میں منچلے دوستوں کا سوال ہے کہ بھائی صاحب خون بہے گا تو کس کا؟اور ہم ہیں کہ ابھی کوئی فہرست بنانے میں ناکام ہیں کہ خون کس کا بہے۔ فہرست کی بات الگ ،سنا ہے کہ ۶۳ سالہ پرانی ۳۵۔ اے سے متعلق فایلیں نارتھ بلاک سے مثل کانگریس غائب ہیں۔واہ کیا بات ہے! نارتھ بلاک نہ ہوا اپنے ٹھیلے والوں کی ریڈھی ہوئی کہ کسی نے چلتے چلتے کوئی چیز اُڑا لی اور بھرے بازار میں لوگوں کے جم غفیر میں پتہ نہ چلا کون بازار میں نادار بن کر آیا تھا اور با اختیار بن کر ہاتھ صاف کرکے چلا گیا۔ایسے میں لگتا ہے کہ مودی مہاراج کا سوچھ ابھیان سپھل ہورہا ہے۔ہم سوچتے ہیں کہ ایک File کی کیا بات ہے ، ملک کشمیر میںLife کی بات کرو تو بہت کم قیمت کی ملے گی کہ کوئی پٹھانی سوٹ کی نذر ہو گئی ،کوئی ملٹری کورٹ نے کسی کھاتے میں ڈالی ہی نہیں کوئی تحقیقات کی پوٹلی میں اس قدر باندھ دی گئی کہ نام و نشان ملنا محال اور کئی ایک تو دودھ ٹافی کی سوداگری میں بک گئیں۔یہاں تو آٹھ ہزار زندگیاں چٹکے بجاتے غائب کردی گئیں کہ کوئی نام لیوا نہیں یہ فائل بے چاری کیوں زبان زد ہر خاص و عام ہے۔ ایسے میں ہم قہقہہ مار بغیر نہ رہ سکے کہ اپنے ملک کشمیر میں باشندگان اجس (بانڈی پورہ) کھوئے ہوئے بیل کو ڈھونڈنے نکلے۔اس لئے نہیں کہ پیاری سی گاؤماتا کو ایک رومانوی ساتھی کی تلاش تھی بلکہ وہ تو گھر سے یہ کہہ کر نکلا تھا کہ چرنے جائوں گا ۔دوسرے روز پتہ چلا کہ فوجی کیمپ کے قریب اس نے سینگ ہلائے تھے۔ہو نہ ہو فوجی پہریدار نے اسے عسکری لیڈر کی چال سمجھا کہ اب بیل کے ذریعے ہی فدائی حملہ ہو، اسی لئے بے چارہ جان سے ہاتھ بیٹھا۔چاق و چوبند پہریدار کے کیا کہنے !!!
اب کی بار جو مودی مہاراج کی سرکار قائم ہوئی تو بھکت جن ہر کام یا فیصلے کی نسبت مودی جی کے حق میں شاباشی کے کلمات ارپن کرتے ہیں۔نوٹ بندی سے جہاں لاکھوں لوگ بے روزگار ہوئے لیکن بھکت جن کو اس میں شاندار بھارت کی تصویر دکھائی دی۔گئو ماتا کے نام قانون بنے تو رکھشکوں نے بھکشک بن کر درجن بھر لوگوں کو قتل کردیا اور ساتھ میں لاکھوں لوگ جو میٹ اور چمڑے کا کاروبار کرتے تھے وہ بے روزگار ہوئے لیکن بھکت جن جے گئو ماتا جے مودی میں مشغول ہیں۔حد تو یہ کہ طلاق ثلاثہ سپریم کورٹ نے فی ا لحال کالعدم قرار دیا اور بھکت جن فوراً مودی مہاراج کے حق میں قصیدے پڑھنے لگے کہ مودی جی کو مسلم عورتوں کے حقوق کی فکر ہے مگر خود مودی جی کی پتنی جشودہ بن نے یہ کہہ کر اپنے حقوق مانگے کہ وہ اگر ایک بار ، بس ایک بار مجھے بلائے میں، فوراً اس کے پاس جائوں گی لیکن بھکت جنوں کو اس کے ادھیکاروں کی کوئی فکر نہیں ؎
تم رکھ سکے نہ پاس ذرا اپنے قول کا
اس بار بھی بدل گئے ہر بار کی طرح
وعدہ کیا رات کو آنے کا پر نہ آئے
جھوٹے ہو تم ہر اک سیاست کار کی طرح
چینی تو ہند چین سرحد پر ڈٹے ہیں ۔ابھی تو انتظار ہے کہ وہ آگے کیا کریں لیکن دھمکی دے ڈالی کہ اگر ہم بھارت میں داخل ہوئے تو کہرام مچے گا۔پھر پاکستان کو ڈونالڈ ٹرمپ کی جارحانہ دھمکی سے بھی ہوا نکال دی۔یہ تو ہم بھی مانتے ہیں کیونکہ ایک تو حملہ کرکے دکھائی نہیں دیں گے کہ کہاں غائب ہوگئے۔ایک جیسے جو دکھتے ہیں جو حملہ کرے گا وہ ایک گلی سے نکل کر دوسرے میں عام آدمی بن کر لوٹے گا، پہچان کرنا مشکل ہوگا کہ فوجی ہے یا لداخ کا باشندہ ۔چپکے سے جو چنکرال محلے میں سنگ باری کی تربیت لے کرپنگانگ جھیل پہنچے ،بھارتی فوجوں پر پتھر برسائے اسی کو کہرام کہتے ہیں۔بھارت ورش کے وزیر خزانہ بڑے وکیل ہیں۔مودی مہاراج کے ڈنڈھورچی بھی ہیں، اسی لئے حریت قیادت پر این آئی اے تفتیشی ڈرامے کے بارے میں دلیل دی کہ اس سے سنگ بازی کم ہوئی۔ لگتا ہے جیٹلی جی چینی فوج پر بھی این آئی اے تفتیش کی وکالت کریں گے کہ جب کشمیر میں سنگ بازی کم ہوئی ہند چین سرحد پر کیوں نہ ہو۔ چھڑو جی! زمانے کے داغ داغ اُجالے میں کتنی دیر لگارہوں، اب یہ نیاتازہ کلام ِبلاغت نظام گنگنا کر اپنا مفت کا غم غلط کرتاہوں ؎
سیاسی چوزوں کو دلی نے یہاں گاما بنا ڈالا
جو کام نکلا تو بیچاروں کو ماما بنا ڈالا
شیخی بگھارتے ہیں جو لال چوک آکر
ناڑا کہیں پر تو کہیں پاجامہ بنا ڈالا
رابط[email protected]/9419009169