جب کبھی سڑک چلتے گلی نکڑ پر کوئی گائے گزرتی دکھائی دیتی ہے تو موجودہ ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں کمزور و بے قصور غریب مسلمان پر ڈھائے جا رہے ظلم و ستم کی دردناک داستان، کرب انگیز اور لرزہ خیز مناظر ذہن میں اُبھرنے لگتے ہیں، اور تصورات کی دنیا میں خود ہی سے سوال کرتا ہوں کہ آخر ہندو تو کے متوالے ایک جانور کو انسان سے بڑھ کر کیوں اہمیت دیتے ہیں؟ جواب ملتا ہے یہ سب کچھ کرسی کی ہوس کا حصہ ہے ورنہ صحیح الدماغ ہم وطن ہندؤں کی اکثریت تو جانتی ہے ان کے سیاست زدہ مذہبی پیشوا اور سنت سادھو جس طرح چاہتے ہیں استعمال کرتے ہیں اور ان کے جذبات سے اپنے مفادات کےلئے کھیل لیتے ہیں۔ یہاں لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کا کھیل تو صدیوں سے جاری ہے پھر بھی چاہ کر بھی نہ ہم نے اس پر کبھی کچھ کہا اور نہ لکھا کیوں کہ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے اور ایک جمہوری ملک میں قانون ہر کسی کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے، لیکن اب غنڈے اور موالی یہ کھیل دھرم کے دبیز پردے میں کھیل کر نفرت کی سیاست کرنے لگے ہیں، آستھا کی آڑ میں مسلمانوں کے ساتھ تعصب اور مسلم دشمنی کا کارڈ کھیل رہے ہیں اور اپنی سیاسی روٹی گرم کرنے میں لگ گئے ہیں۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صرف اور صرف حکمراں جماعت کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے، اور اسی سازش نے جہاں ملک کی صدیوں کی گنگا جمنی تہذیب کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا ہے ،وہیں ہندوستان کے سینکڑوں بے گناہ سیکولر عوام کو موت کے فسطائیوں اور بلوائیوں نے گھاٹ اتار دیا ہے۔ حالانکہ یہ وہی چشتی اور نانک کی سر زمین ہے جہاں بھائی چارے کی تابناک مثالیں بنی چلی آرہی ہیں ۔ ؤج اسی سرزمین ِ امن پر آئے دن عصمت دری کے گھناؤنے واقعات رونما ہو رہے ہیں اور کہیں مساجد اور عبادت گاہوں کو مسماری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لگتا ہے وطن عزیز میں جبر و تشدد، لوٹ مار اور ظلم و بربریت کا بازار گرم کر نے کے لئے سیاست واقتدار سےسے کیا ایندھن کا کام لیاجا رہا ہے، لیکن ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہندتو نظریات کے حامل حکمران کرسی کے نشے میں چور ہیں، وہ یہی چاہتے ہیں کہ ملک میں انارکی پھیلے، بے قصوروں کا خون بہے، ہندو مسلمانوں کو ہلاک کرتا رہے اور ہم اندرون خانہ تالیاں بجاتے رہیں۔ حقیقت میں موت کے ان سوداگروں کو نہ تو گائے سے ہمدردی ہے اور نہ ہی ملک کی ترقی کے تئیں ان کی نیت صاف ہے، ورنہ گائے کے گوشت کے ایکسپورٹ میں ہندوستان اب بھی دیگر ممالک کے مقابلے سر فہرست نہ ہوتا۔ ان کا بس ایک ہی ایجنڈا ہے اور وہ ہے ہندو تو کو فروغ دینا ا تاکہ ملک کےسنگھاسن پر ان کا قبضہ جما رہے ۔یہ لوگ مسلم کمیونٹی کے لئے اپنے دل میں کینہ ہی کینہ رکھتے ہیں اور عوام کو دھوکہ دینے کے لئے ان نیتاؤں کی زبان پر اشتعال انگیزیوں کی گرم گفتاریاں رہتی ہیں ۔ اسی لئے بھاجپا کے وزراء ، نیتاا ور کارندے آئے دن کبھی گائے اور کبھی دوسری چیزوں کے نام پر ملک میں زہر افشانی کرتے نظر آتے ہیں۔ آر ایس ایس کے پرچارک اندریش کمار کے نفرت انگیز اور مسلم دشمنی کے منہ بولتا ٹوئٹ اسی پالیسی کا حصہ ہیں،۔ان تمام باتوں کے باوجود کچھ نام نہاد’’ مسلم اسکالرس ‘‘اور مولوی نما ڈھونگی اپنے حقیر مفاد کے لئےان کی غیر انسانی نقل و حرکت کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں ۔ یہ لوگ اپنی عزت ووقارتو نیلام کر ہی رہے ہیں، ساتھ میں اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ بھی خراب کرنے کا انہوں نے ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ان عقل کے ماروں اور انسانیت کے برے انجام سے بے خبر مورکھوں کو یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آتی کہ یہ ایک لڑائی ہے جسے کرسی کے پجاری ایوان سے لڑ کر میدان کی طرف لے جاتے ہیں تاکہ لوگ آپس میں مذہب لڑت مرتے رہیں اور، یہ لوگ خود تو محفوظ ر ہیں ۔ نہ بھگت نہ صرف اسلام اور شعائر اسلام کو بدنام کر رہے ہیں اور مسلم اقلیت کو ناکردہ گناہوں کی سز ادیتے ہیں بلکہ ملک میں مسلمانوں کی شبیہ بھی خراب کئے جا رہے ہیں۔ میری مسلم قیادت سے پرزور اپیل ہے کہ اپنی انسانی ، قومی اور دعوتی خدمات کو مزید وسعت دیجئے اور مسلم مخالف عناصر کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا قلع قمع کرنے کے لیے اعلی سطح پر موثر سرگرمیاں کر کے دیش اور ملت کو گندی سیاست کی آفات سے بچا دیجئے ۔اللہ پاک ہمارے لئے آسانیاں پیدا فرمائے، آمین
رابطہ :ایسوسی ایٹ ایڈیٹر بصیرت آن لائن