15؍اگست کو جب لال قلعہ کی فصیل سے وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیریوں کو گلے لگانے کی بات کی تو مبصرین وزیر اعظم کے بیان پر اپنے نقطہ نظر سے تبصرہ کرنے لگے کہ ’’گلے لگانے‘‘کا مطلب کیا ہوسکتا ہے اور کیا اس بیان کو حقیقی روپ دیا جا سکتا ہے۔وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے دورہ ریاست کے پس منظر میں پریس کانفرنس کے دوران وزیراعظم کے اس بیان کا حوالہ دیکر جب مصالحت اور مذاکرات کی بات کی تو ایک بار پھر امن عمل میں یقین رکھنے والے لوگوں کی امیدوں کے دئے جلنے لگے ۔گو کہ ابھی یہ ابتدا ہی ہے لیکن جس لہجے میں انہوں نے بات کی، اُس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نئی دلی کی کشمیر پالیسی میں بڑی تبدیلی آئی ہے اور سخت رویہ کی بجائے مصالحت کا راستہ اختیارکرنے کو ترجیح ہوگی۔
اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ مرکزی سرکار کی فراخدلانہ مالی امداد کی وجہ سے موجود ہ سرکار نے ریاست میں تعمیر و ترقی کے حوالے کئی اقدامات کئے ہیں۔سڑکوں کی تعمیروتجدید سے لیکربنیادی انفراسٹرکچر ،تعلیم اور صحت کے شعبہ میں زور و شور سے کام چل رہا ہے تاہم اگر کوئی یہ سوچے کہ محض مالیاتی پیکیجز سے کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا تو یہ دن کو رات کہلانے کے مترادف ہوگا ۔بے شک ترقیاتی عمل قیام امن کے سلسلے میں ایک قدم ہوسکتا ہے تاہم محض پیسوں کی ریل پیل ہی سارے مرض کی دوا نہیں ہے ۔ کشمیر کا بنیادی مسئلہ سیاسی ہے اور اس کے حل کیلئے سیاسی اپروچ اوربالغ نظری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔اس ضمن میں وزیر داخلہ کا بیان انتہائی خوش آئند ہے کہ وہ کھلے دل سے تمام فریقین کے ساتھ بات چیت کیلئے تیار ہیں ۔انہوںنے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ شکوے ، شکایات کا ازالہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔مبصرین کے نزدیک ایسا کہہ کر انہوں نے علیحدگی پسندحلقہ کو مخاطب کیا ۔اگر واقعی وزیر داخلہ علیحدگی پسند قیادت سے بات چیت کیلئے تیار ہیں تو یقینی طور پر یہ ایک نئے صبح کا آغاز ہوسکتا ہے کیونکہ کوئی انہیں پسند کرے یا نہ کرے ، علیحدگی پسند قیادت ایک زندہ حقیقت ہے اور اس سے قطعی انکار نہیں کیاجاسکتا ہے ۔ جمہوریت خیالات کی جنگ ہے اور جمہوریت کا حسن ہی یہی ہے کہ وہ حکومتی موقف سے اختلاف کرنے والوں کو بھی اپنی بات رکھنے کا موقعہ فراہم کرتی ہے ۔جہاں تک علیحدگی پسندوں کا تعلق ہے تو یہ ایک خیال اور ایک نظریہ کی ترجمانی کرتے ہیں اور عوام کے ایک طبقہ میں ان کو پذیرائی بھی حاصل ہے ۔ان کے طریقہ کار سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن انہیں نظر انداز نہیں کیاجاسکتا کیونکہ زمینی سطح پر وہ اس مسئلہ کے کلیدی فریق ہیں اور انہیں آن بورڈ لئے بغیر کشمیر مسئلہ کے حل کے حوالے سے کوئی بھی عمل منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکتا ہے ۔
پی ڈی پی اور بی جے پی نے حکومت سازی سے قبل جو ایجنڈا آف الائنس تشکیل دیا ہے ،اُس میں تو انہی باتوں پر اتفا ق کیاگیا ہے ۔اُس ایجنڈا آف الائنس میں واضح کیاگیا ہے کہ مفاہمت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اور مفاہمتی عمل شروع کرکے ہر ایک سے بات ہوگی ۔اگر ایجنڈا آف الائنس پر عمل ہوتا ہے تو بہت سارے معاملات خود بخود حل ہوجائیں گے ۔جہاں مسئلہ کشمیر کے اقتصادی پہلوئوں کا احاطہ ہوگا وہیں سیاسی پہلو کو بھی ایڈرس کیا جاسکے گالیکن اس کیلئے سیاسی جرأتمندی لازمی ہے اور وزیراعظم مودی میں وہ قائدانہ صلاحیت ہے کہ وہ مخصوص حلقوں کی جانب سے ایجاد کردہ سیاسی بیانیہ کے خلاف جاکر مفاہمت اور مصالحت کی ایک نئی فضا قائم کرسکتے ہیں۔اس عمل کے نتیجہ میں نہ صرف ریاست خاص کر کشمیر میں مین سٹریم جماعتوں کے تئیں عوام کا اعتماد بحال ہوگااور انہیں یہ لگے کہ اُن کے منڈیٹ کا احترام کیاجارہا ہے بلکہ امن کی ہوائیں چلنا بھی شروع ہوجائیں گی تاہم ناگزیر ضرورت یہ ہے کہ مفاہمتی عمل کیلئے سازگار ماحول تیار کیاجائے ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ محبوبہ مفتی کی قیادت والی سرکار ریاست میں ماحول ساز گار بنانے کیلئے سنجیدگی او ر خلوص کے ساتھ کا م کر رہی ہے اور خود وزیر اعلیٰ پُر امید نظر آرہی ہیں ،لیکن نئی دلی پر ذمہ داری عائد ہوتی کہ وہ ماحول کو سازگار بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
عوام کو مایوس کن صورتحال سے نکالنے اور مسئلہ کو حل کرنے کیلئے وزیر داخلہ کا ماننا ہے کہ مسئلہ کشمیر کامستقل حل ہمدردی،روابط ،بقائے باہمی،اعتماد سازی اور استحکام جیسے 5نکات پر مشتمل ہوگا ۔یہ 5نکات وزیر اعظم کے بیان کا ہی تسلسل لگتے ہیں اور یقینی طور پر کشمیر جیسے نازک مسئلہ سے نمٹنے کیلئے جہاں ہمدری اور بقائے باہمی کا جذبہ ناگزیر ہے وہیں مسلسل تعلق داری یا رابطہ اور اعتماد سازی ایسے عوامل ہیں جو اس عمل کو مستحکم کرنے میں مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔استحکام کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک افہام و تفہیم کا ماحول پیدا نہ کیاجائے ۔امن و استحکام کیلئے لازمی ہے کہ پہلے چار نکات پر من وعن عمل ہو۔ماضی میں نئی دلی کی غلط پالیسوں اوروعدہ خلافیوںسے کشمیری عوام کا اعتماد متزلزل ہوچکا ہے جس کی وجہ سے سرینگر اور دلی کے درمیان اعتماد کا فقدان پیدا ہوچکا ہے اور اس اعتماد کے فقدان کو ختم کر کے اعتماد کی فضاء بحال کرنے کے لئے لازمی ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے بیانات کو زمینی سطح پر عملی شکل دیں۔اس سلسلے میں اعتماد سازی کے اقدامات تو کرنے ہی کرنے ہیں لیکن ساتھ ہی کوئی بھی ایسا قدم اٹھانے سے اجتناب کیا جاناچاہئے جس سے عوام کے جذبات مجروح ہوں۔
جہاں تک علیحدگی پسندوں کا تعلق ہے تو چونکہ وہ بھی عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں ،لہٰذا ان پر بھی یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ عوام کے وسیع تر مفاد میں اپنے اپروچ میں تبدیلی لائیں اور ایک بار پھر ایسے ہی امن عمل کوایک اور موقعہ فراہم کریں جیسے انہوں نے 2002میں کیاتھا۔لبریشن فرنٹ سربراہ محمد یاسین ملک نے آن ریکارڈ اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کس طرح انہوںنے امن عمل کو آگے بڑھانے کی سعی کرکے عسکری قیادت کو قائل کیاتھا کہ وہ امن مساعی کو ایک موقعہ فراہم کریں۔آج ایک بار پھر محمد یاسین ملک ،سید علی گیلانی اور میر واعظ مولوی
محمد عمر فاروق کو سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرکے امن عمل کو ایک موقعہ فراہم کرنا چاہئے ۔اس ضمن میں فوری ضرورت یہ ہے کہ اس عمل کی شروعات کیلئے ساز گار ماحول کے قیام میں حکومت ہند اور ریاستی حکومت کی مدد کی جائے ۔کشمیر کسی ایک جماعت یا نظریہ کا معاملہ نہیں بلکہ یہ ہم سب کا درد ِمشترک ہے اور اگر اس درد سے خلاصی درکار ہے تو سب کو مل کر اپنا کردار نبھانا ہوگا تاکہ یہ رستا ہوا ناسور مزید انسانی جانوں کو نگلنے کا باعث بننے کی بجائے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوسکے اور سرزمین کشمیر پھر سے امن وآشتی کا گہوارہ بن کر پوری عالم انسانیت کیلئے راحت و قرار کے وہی لمحات میسر کرسکے جس کیلئے یہ سرزمین اقوام عالم میں جانی اور پہچانی جاتی ہے۔
نوٹ: کالم نگار پی ڈی پی کے یوتھ لیڈر ہیں۔