امین اللہ
دلدل کا نام سنتے ہی انسان کی روح کانپ جاتی ہے ۔ دلدل اکثر جنگلی اور بارانی علاقوں میں ہوتی ہے ۔ یہ ریگستانوں میں بھی پائی جاتی ہے ۔ اکثر انسان اور جانور مغالطے میں اس میں گر کر پھنس جاتے ہیں ۔اس سے نکلنا ممکن نہیں ہوتا اور پھنسنے والا آہستہ آہستہ اپنی موت کا ہولناک نظارہ خود ہے کرتا ہے ۔اکثر قارئین یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کون سی انہونی معلومات میں نے لکھ دی ہے ۔ مگر ذرا توقف کیجئے میرا وہ موضوع ہے جو ہمیں نظر نہیں آتا لیکن وہ ہماری ذات کے اندر موجود ہے ۔ یہ ایک دو نہیں بلکہ ہمارے چاروں طرف ہیں اور ہمیں نگل رہے ہیں اور ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا اور ہم موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔
ہمارا جسم دو چیزوں کا مرکب ہے، ایک جسم دوسری روح ۔ اللّٰہ نے ہمیں تین نفوس عطا کئے، نفس امارہ ، نفس لوامہ اور نفس مطمینہ ۔
نفس امارہ وسوسوں ، خواہشوں ، آرزوں ، ہوس ، اَنّا ، تکبر ،بغض، حسد ،کینہ، جنس پرستی اور زر پرستی ، خود غرضی ، لالچ، بخل اور دنیا پرستی کی آماجگاہ ہے، گویا یہ شیطان کا گھر ہے ۔ یہ ہماری ذات کا دلدلی شاہراہ ہے، جب کوئی اس پر چلتا ہے تو گویا وہ شیطان کی پیروی کرتا ہے اور اس میں ڈوب کر اپنی دنیا اور آخرت دونوں تباہ کر لیتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔’’ ہم نے انسان کو بڑا تھڈلا پیدا کیا ہے ،یہ جان بوجھ کر غلطی کرتا ہے ۔جب اس پر مصیبت آتی ہے تو بلبلاتا ہے اور جب ٹل جاتی ہے تو اینٹھنے لگتا ہے۔‘‘ (سورہ المعارج)
’’ زمین میں جو فساد ہے وہ سب تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے ۔ ‘‘(سورہ الروم )’’ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا مگر یہ اپنی حرکتوں سے نیچو میں نیچ ہو جاتا ہے ۔‘‘( سورہ التین )
جیتے ہیں آرزو میں جینے کی زندگی ملتی ہے پر نہیں ملتی
اس دلدل سے وہی نکل سکتا ہے، جو نفس امارہ پر نفس لوامہ کو غالب کر دے ۔اک شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ؎
نہنگ و شیر و نر کو مارا تو کیا مارا
بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا
ان تینوں نفوس کا گھر دل ہے، اسی سے حرکی شعائیں خارج ہوتی ہیں اور انسان اس کے اشارے پر کام کرتا ہے ۔
اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ،’’ لوگو! تمہارے جسم میں گوشت کا اک لوتھڑا ہے، اگر یہ شفاف ہے تو تم دنیا اور آخرت دونوں جگہ کامیاب ہو گے ۔ ‘‘شیطان انسان کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے اس سے بچنے کے لئے سورہ الناس میں یہ دعا سکھائی گئی ہے ،’’ پناہ مانگتا ہوں وسوسہ ڈالنے والے شر سے جو بار بار پلٹ کر آتا ہے ۔ ‘‘ یہ وسوسہ آرزو بنتا ہے پھر آرزو کی تکمیل میں ہم اتنا چلتے ہیں کہ اپنے رب کو بھول جاتے ہیں اور زندگی کی شام ہو جاتی ہے ۔
زندگی تجھ کو پانے کے لئے اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ِ،’’ انسان کو اگر سونے کا اک پہاڑ مل جائے تو وہ دوسرے کی خواہش کرتا ہے ۔‘‘
ہزار خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں مگر پھر بھی کم نکلے
انسان کی ذات کا دلدل ہوس زر زن زمین ، اقتدار و منصب ہیں جس نے آج دنیا کو جہنم بنا دیا ہے ۔ مگر یہ تمام ہوس پرست بھی اپنے مقررہ وقت پر انجام کو پہنچ جاتے ہیں ۔؎
زمین اوڑھ کر سو گئے ہیں ساری دنیا میں
نہ جانے کتنے سکندر سجے سجائے ہوئے
دولت اور اقتدار پرست سب زہریلے سانپ اور متکبر شیطان ہوتے ہیں ۔ ؎
تکبر عزاجیل را خوار کر
بہ زندہ لعنت گرفتار کر
حباب بحر کو دیکھو کہ کیسا سر اٹھاتا ہے
تکبر وہ بری چیز ہے کہ فوراً ٹوٹ جاتا ہے
اس لعنتی خصلت کے لوگ حسد ،کینہ بغض ، لالچ اور کثل کے دلدل میں ڈوب کر آہستہ آہستہ فنا کے گھاٹ اتر جاتے ہیں ۔ یہ تو انسانی ذات کے اندر موجود وہ دلدل ہے، جس میں انسان خود برضا و رغبت نہ صرف ڈوبتا ہے بلکہ مزے لیتا ہے بلبلاتا تو اس وقت ہے جب نرخرے بند ہونے لگتے ہیں ۔
یہی انسان جب صاحب منصب ہوتا ہے تو تو اس کی وجہ سے دنیا انسانوں کے لئے ناقابل رہائش ہو جاتی ہے اور یہ عام انسانوں کے کو بے روزگاری ، مہنگائی ، نا انصافی ، جرائم ، لوٹ کھسوٹ ، جنسی استحصال ، جان و مال عزت آبرو کے عدم تحفظ میں پھنسا دیتا ہے ۔ساٹھ ستر فیصد آبادی صحت تعلیم و دیگر بنیادی ضروریات سے محروم ہو کر گھٹ گھٹ کر مر جاتی ہے ۔ دورِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہودی کنوے کا پانی بیچتا تھا تو ظالم ٹھہرا ،مگر آج کا تعلیم یافتہ پانی کی تجارت کرکے مہذب کہلاتا ہے ، ہے نہ یہ ستم ظریفی ۔ تعلیم انسان کو آدمیت کا بلند رتبہ عطا کرتی ہے مگر آج کا نفس پرست انسان ہی بڑے بڑے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے ۔ آج کے انجینئرز کی بنائی ہوئی سڑکیں ، پل اور عمارتیں چند سالوں میں خستہ ہوکر زمیں بوس ہو جاتی ہیں ۔ ڈاکٹر کو دنیا مسیحا کا درجہ دیتی ہے مگر آج کے ڈاکٹر اور حکیم کی اکثریت قصاب بن چکے ہیں، اتفاق سے اگر مریض اچھا ہو جائے تو تیماردار مالی بحران میں مبتلا ہو کر بیمار پڑ جاتا ہے ۔ اساتذہ نئی نسل کے معمار اور روحانی باپ کا درجہ رکھتے تھے مگر آج یہ تعلیم کے تاجر اور بروکر بن چکے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ماضی کی طرح ان کی عزت و توقیر باقی نہیں رہی ۔ دینی پیشواؤں کی حالت تو اتنی ابتر ہے کہ ان کی پہچان مصلح کے بجائے مفسد کی ہو چکی ہے ،یہ نفرتوں کی کھیتی کرنے والے اور انسانوں کو انسانوں کے قتل پر ابھارنے والے بن چکے ہیں ۔ گویا نفس پرستی کا ایک دلدل ہے جس کی پکڑ چہار سُو پھیل چکی ہے ۔ جس دنیا کو خالق نے جنت نظیر بنایا تھا ،اہل دنیا نے اس کو جہنم بنا دیا ہے ۔ ہر طرف جنگ و جدل کا بازار گرم ہے ۔ انسان کا قتل انسان کے ہاتھوں ہو رہا ہے ۔اس دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ آدمی خود غرضی اور دنیا کی ہوس کو ترک کرکے محبت و شفقت کے لئے کام کرے ۔؎
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں
ای میل۔[email protected]
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)