فاروق شاہین
خالقِ کائنات کی کائنات اپنی پُراسرار خاموشی میں امن وشانتی کے گیت گاتی ہے۔اس کے انگ انگ میں ایک توازن ہے، ربط وضبط اور نظم وضبط ہے ۔یہ اپنے اصولوں کے تابع ازل سے چلے آئے ہیں ۔چاند ,ستارے,سیارے اور سورج اپنے مدار سے تھوڑا بھی کیا، ایک جنبش کبھی ہِل نہیں سکے۔اپنے مقررہ وقت سے کبھی دیر یا سویر نہیں کی۔ان کاجو اپنا کام ہے اُس کام سے کبھی جی نہیں چُرایا ،آرام کرنے کی کبھی نہیں سوجھی ۔ان کی زندگی روزِ اول سے تابناک تھی اور تاابد تابناک رہے گی۔اس تابناکی سے اپنے اردگرد کی کائنات میں جو مناظر ہیں انھیں بھی اپنی تابانی سے منور کیا۔نقصان کے برعکس صرف اور صرف فائدہ ہی دیا۔
زمین بھی نظام شمسی کا حصہ ہے۔اس پر ایک ایسی مخلوق کو اُتارا گیا، جسے حضرت انسان کہاگیا۔اسے خلیفتہ الارض کے خطاب سے نوازا گیا۔اس کاذہن ودماغ اس طرح تخلیق کیا گیاکہ اس میں علم کے خزانے سما سکیں ۔اس علم کی بدولت اس کے اندر تخلیق وجستجو کا مادہ پیدا کیا گیا۔جس کی بدولت یہ اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے انسانیت کی خدمت کرسکے۔اس کی آنکھوں نے کھلتے ہی مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو دیکھاجو اپنے نور سے پورے عالم کو منور کررہا ہے ۔اس نے رات کو چاند دیکھا جس کی چاندنی آنکھوں کو ٹھنڈک اور ذہن کو فرحت عطا کرتی ہے ۔اس چاندنی میں نہ تپش ہے اور نہ گرمی۔یہ رات کو روشن کرکے قدرت کے دلفریب نظارے دکھاتی ہے ۔جبکہ سورج کی روشنی میں تپش بھی ہے اور گرمی بھی،جو انسانی حیات ,چرند پرند اور حیوانات کے لئے نہایت ہی ضروری ہے، جس سے ان کی نش ونما ہوتی ہے ۔زمین پر جو آبی ذخائر سمندر,دریا,ندیاں اور آبشار ہیں ۔جو انسان اور انسانیت کی بقا کے لئے اپنا عظیم کردار ادا کررہے ہیں، حیوانات میں بے شمار جاندار موجود ہیں جو اپنے اصولوں اور ضابطوں کے تحت زندگی گزار رہے ہیں ان کا نظم وضبط دیکھ کر انسانی عقل حیران ہے ۔یہ حیوانات پورے ڈسپلن سے زندگی گزار تے ہیں،فطرت کے ماحول میں ان کا اپنا کردار اور کارکردگی عیاں ہے، انھیں سوپنے گئے کام یہ خود کرتے ہیں، اپنا حصہ بخوبی ادا کرتے ہیں ۔اس میں کبھی نہ کسی سے مدد مانگتے ہیں نہ کسی کے کام اور ائیریا میں مداخلت کرتے ہیں ۔نہ کسی کو اپنا حق چھننے دیتے ہیں بلکہ بھر پور Defence بھی کرتے ہیں۔لالچ ،دوکھہ دہی ،مکاری ،جھوٹ ،بے ایمانی ،مداخلت ان کے اصول وضوابط سے مبرا ہیں ۔ یہ امن وشانتی کے علمبردار ہیں ،یہ اپنے اصولوں کے پاسدار ہیں،ان کی روحیں پاکیزہ ہیں، ان کی نیتیں آیئنے کی طرح شفاف ہیں ۔ان کے اندرکوئی ،نفرت اور مکاری نہیں ہے یہ محبت ،ہمدردی اور انصاف کے پیکر ہیں ۔ان کے کام نرالے ہیں کیونکہ کام چور نہیں ہیں ۔ان کو فطرت جو سکھاتی ہے بھرپور انداز میں یہ وہی کرتے ہیں ۔
انسان جو اشرف المخلوقات ہے یعنی نباتات وحیوانات سے بلند درجہ پاکر بھی فطرت کے اصولوں اور ضوابط کا پابندنہیں ہے۔فطرت کا جو آئین ہے،دستور اور لائحہ عمل ہے،اسے کوسوں دور یہ اپنا آئین اور دستور کو اپنا رہا ہے۔ہاں اگر یہ آئین فطرت کے ہم آہنگ ہوتا تو بڑی بات تھی۔یہ شہد کی مکھوں اور ننھی منی چونٹیوں سے اصول وضوابط سیکھتا ،جہاں ہر کوئی کارکن قانونِ فطرت کا پالن کرکے حیات وکائنات کو چارچاند لگانے میں سرگرمِ عمل ہے۔کارکن اپنے کام میں مگن ہے۔فطرت کے اشاروں کو سمجھ کر رواں دواں اور پیہم جواں ہے۔کوئی انتشار اور کوئی فرقہ بندی نہیں ،کوئی جھگڑا اورفساد نہیں بلکہ ایک دوسرے کی مدد،رہبری اور رہنمائی سے لبریز بھرپور زندگی خوشی وانبساط میں گزار رہے ہیں ۔
میری مشاطگی کی کیا ضرورت ہے حسن ِ معنی کو
کہ فطرت خود بہ خود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
دراصل یہ انسان ہے جو لالچ کا خریدار ہے ۔یہ اسے فریبی اور بے ایمانی کی طرف لیتی ہے ۔اس کے اندر کے منفی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے ۔اسے چوری ،رشوت اور چرب زبانی کے بد خصائل سے دوچار کرتی ہے ۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لالچ اس کی بری عادتوں میں ایک عادت بن جاتی ہے۔آہستہ آہستہ یہ بُری عادت اسے انتشار سے دوچار کردیتی ہے ۔یہی انتشار سماج میں دہشت پیدا کرنے کا ضامن بنتا ہے جب سماج اس دہشت کی لپیٹ میں آجاتا ہے تو امن وسکون کی فضا آلودہ ہوجاتی ہے۔جس کی وجہ سے زندگی کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے۔
لالچ جب دکاندار میں پیدا ہوتی ہے تو اشیا ءکی قیمتوں میں اضافہ اور ذخیرہ اندوزی کرتاہے۔جب لالچ سرکاری ملازم میں پیدا ہوتی ہے تو وہ فرض شناسی سے جی چراتا ہے، نوکری کے ساتھ ساتھ کاروباری کاموں میں بھی دلچسپی دے کر مزید کمانے کی دھن اس کے دماغ پر سوار ہوتی ہے،وقت کا پابند نہیں رہتا ۔کام چوری اور رشوت کی طرف اس کا میلان بڑھتا ہے۔ جھوٹ بولتا ہے اور مکاری سے کام لیتا ہے یہی فساد اور جھگڑے کی جڑ ہے۔
اس جڑ کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے لالچ کی بری عادت سے چھٹکارا پانا ہوگا۔محنت اور جاں فشانی کو اپنانا ہوگا ،وقت کا پابند بننا ہوگا۔اس طرح ہرکام وقت پر انجام پاسکے گا۔کسی بھی کام میں دیر یا سویر نہیں ہوگی۔ایمانداری کا جذبہ اس کے اندر خود بہ خود پیدا ہوگا۔فریبی اور دھوکہ دہی سے نجات حاصل ہوگی۔دغا بازی اور مکاری اس کے اندرونی وجود سے ہی غائب ہوگی ۔اسے جھوٹ بولنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ۔اپنے سماج کے تئیں اس کے سوچ اور اپروچ میں مثبت پہلو پیدا ہونگے۔یہ فساد اورجھگڑوں کے برعکس اپنی سوچ تعمیری کاموں پر صرف کرے گا ۔ہمدردی ،پیار ومحبت ،جزبۂ ایثار اس کی شخصیت کی پہچان بنے گی۔اپنے گھر،سماج ،ملک وقوم اور وطن کی خاطر اس کے کاموں میں امن کے دیپ جلیں گے۔اسی جذبے سے امن وامان اور شانتی کی فضا پنپے گی ۔وطن میں ہر شخص کا جذبہ صادق ہو،محنت اور ایمانداری اس کا اوڑھنا بچھونا ہو۔محبت ،بھائی چارہ ،ہمدردی اور سچائی کی دولت اسکی رگ رگ میں سرایت کرجائے تو ملک وقوم ووطن میں خوشیاں ہی خوشیاں ہرموڈ پر،ہر ڈگر پر اور ہر قدم پراسے نظر آئے گی۔
سات صندوقوں میں بھرکر دفن کردو نفرتیں
آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت
(مصنف اردو اور کشمیری زبان کے معروف شاعر ،نقاد اور محقق ہیں)
رابطہ۔بٹہ پورہ لنگیٹ ،کپوارہ کشمیر
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)