کولگام//نیشنل کانفرنس نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کو اتنا خطرہ بندوق سے نہیں اور نہ کسی اور سے بلکہ ہمیں خطرہ اُن لوگوں سے ہے جن کا ارادہ اور جن کا منشور جموںوکشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کرنا ہے۔ کنڈ دیوسر میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمر نے کہا کہ ’’جموں وکشمیر کا اپنا آئین اور اپنا جھنڈاہے۔ ہم جب حلف لیتے ہیں تو ہم ہندوستان کے آئین پر حلف نہیں لیتے بلکہ جموں وکشمیر کے آئین پر حلف لیتے ہیں اور تب جاکر یہاں گورنر ،وزیر اعلیٰ یا ایم ایل اے اپنی کرسی پر بیٹھتا ہے اور کچھ لوگوں کویہ گلے سے اترتا نہیں ہے۔عمر نے کہا کہ جب یہ ریاست ملک کا حصہ بنی تو اس نے ایک مشروط الحاق کیا۔اگر آپ اُس وقت کے فیصلے کو غلط کہتے ہیں تو کیا الحاق کا فیصلہ غلط نہیں ہے؟کیونکہ ایک فیصلہ غلط اور ایک فیصلہ صحیح نہیں ہوسکتا ۔اگردفعہ370غلط ہے، اگر جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن غلط ہے، اگر ہمارا اپنا آئین غلط ہے، اگر ہمارا اپنا جھنڈا غلط ہے تو پھر الحاق صحیح کیسے ہوسکتا ہے؟ کیونکہ الحاق کی بنیاد ہی یہی چیزیں ہیں۔اگر آپ وہ کتاب کھولنا چاہتے ہیں تو لازمی ہے کہ آپ کو الحاق کی کتاب بھی کھولنی ہوگی۔اس کے سوا آپ کے پاس کوئی چارہ نہیں رہے گا‘‘۔محبوبہ مفتی کی بحیثیت ممبر پارلیمنٹ ناکامی سے کوئی بے خبر نہیں اور رہی بات کانگریس اُمیدوار کی تو کانگریس کا اُمیدوار پارلیمنٹ جاکر کشمیریوں کی بات نہیں کرسکتا کیونکہ اُس کو پہلے ہائی کمان سے اجازت لینی پڑے گی اور ہائی کمان کو کشمیر کی 3سیٹوں کی نہیں بلکہ باقی ملک کی 550سیٹوں پر نظر ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ کانگریس دفعہ370پر بات کرنے کا حق بھی نہیں رکھتی کیونکہ اس دفعہ کو آج تک جتنا کھوکھلا کیا گیا اُس میں سب سے زیادہ کانگریس کا ہاتھ رہا ہے اور جو تھوڑی بہت کثر باقی رہ گئی تھی وہ محبوبہ مفتی نے اپنی حکومت میں پوری کردی۔ آپ دونوں جماعتیں اس میں برابر شریک تھیں۔محبوبہ مفتی جھوٹ ترک کیجئے، یہ مگر مچھ کے آنسو بہانا اور جھوٹ بولنا اب نہیں چلے گا۔آپ کی اصلیت عوام کے سامنے ہے، پچھلے 4سال میں یہاں کے لوگوں نے آپ کی اصلیت بخوبی دیکھی۔ جب یہاں گولیاں چل رہی تھیں، جب ہماری بچیوں کو پیلٹ سے اندھا کیاجارہا تھا، تب آپ کا لہجہ کیا تھا سب کو معلوم ہے۔ تب آپ کی آنکھوں سے آنسو نہیں ٹپکتے تھے۔تب کہاں تھا یہ احساس، تب کہاں تھی یہ ہمدردی، تب کہاں تھے یہ آنسو، آج آپ کو ہار نظر آنے لگی تو آپ کو ہمدردی اور آنسو یاد آئے۔ ‘‘آپ نے یہ سب روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ آنکھیں بند، کان بند، منہ کھولا تو صرف یہاں کے لوگوں کو ڈرانے ،دھمکانے ، دبانے اور دلی کا شاہی فرمان یہاں چلانے کیلئے کھولا۔‘‘
دمحال ہانجی پورہ
ڈاکٹر فاروق نے مرکز سے مخاطب ہوئے کہا ’’اگر آپ بات چیت کی طرف چلیں گے تو یہاں کے لوگوں کا دل جیت سکتے ہیں،اگر آپ ہمارے ساتھ وفا کریں گے تو ہم بھی آپ کا ساتھ دیں گے،لیکن اگر آپ دبانے کی کوشش کریں گے اور آپ غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔دمحال ہانجی پورہ میں چناوی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’نریندر مودی آج کہہ رہے ہیںکہ اٹل بہاری واجپائی کی پالیسی انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے، اگر یہی واحد راستہ ہے تو 5سالہ دورِ حکومت کے دوران اس سے انحراف کیوں کیا گیا؟مودی جی آپ محبت نہیں بلکہ نفرتیں پھیلانے کے مرتکب ہورہے ہیں‘‘۔ فاروق نے کہا کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کیساتھ 3شرائط پر الحاق کیا اور اس مشروط الحاق کو دفعہ370کا نام ملا۔ اُس وقت یہ بھی شرط رکھی گئی تھی کہ دفعہ370کو تب تک نہیں بدلا جاسکتا جب تک نہ یہاں رائے شماری ہو۔ آج وزیر اعظم اور بھاجپا کے صدر سمیت تمام لیڈران اس دفعہ کو ہٹانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ یہ لوگ اس دفعہ کو ہٹا کر کیوں نہیں دیکھتے؟انہوں نے کہا کہ اس دفعہ کے خاتمے کیساتھ ہی الحاق بھی قابل بحث بن جائیگا ۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ پی ڈی پی والے کس منہ سے ریاست کی خصوصی پوزیشن کا دفاع کرنے کی باتیں کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اُتنے دشمن باہر نہیں جتنے اندر ہے، جن لوگوں نے یہاں بی جے پی اور آر ایس ایس کو لایا وہی آج واویلا کررہے ہیں۔ جن لوگوں نے بھاجپا کیساتھ ملکر خصوصی پوزیشن کو تہس نہس کیا وہی آج اس کے دفاع کی بات کررہے ہیں۔ڈاکٹر فاروق نے کہا کہ آر ایس ایس اور بھاجپا کے عزائم صحیح نہیں، یہ لوگ جموں وکشمیر کے تشخص کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کی بنیاد کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔