عظمیٰ نیوز سروس
ڈوڈہ //سابق وزیر اعلیٰ اور ڈی پی اے پی کے چیئرمین غلام نبی آزاد نے منگل کو کہا کہ وہ مقامی لوگوں کے مفادات کے دفاع کیلئے چٹان کی طرح کھڑے ہوں گے اور کسی کو مقامی وسائل پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ جموں و کشمیر کے لوگ اس کے مالک ہیں۔آزاد نے موجودہ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نظام میں بدانتظامی اور شفافیت کے فقدان نے یوٹی کے لوگوں کو دیوار سے لگا دیا ہے اور حکومت ہند کو اسمبلی انتخابات کا انعقاد کرنا چاہیے۔ انکاکہناتھا”لوگوں کو اپنے نمائندوں کے انتخاب کے جمہوری حق سے اتنے عرصے تک انکار کرنا غیر آئینی ہے۔
جموں و کشمیر جو ملک کی قدیم ترین ریاستوں میں سے ایک تھی انتظامی طور پر حکومت نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں ملک کے اس حصے میں جمہوریت کو زندہ رکھنے کے لیے ترقی، گڈ گورننس اور عوامی شراکت کی ضرورت ہے‘‘۔ انہوں نے ڈوڈا کے بھگوا، دیسہ میں کارکنوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بطور وزیر اعلیٰ جموں و کشمیر میں جو بھی اچھا کام کیا ہے۔ موجودہ حکومت اس کی اینٹ سے اینٹ بجا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ “روشنی سکیم ہو، یا دیگر سماجی اقتصادی منصوبے سبھی کو نشانہ بنایا گیا ہے اور لوگوں کو منظم طریقے سے بے اختیار کیا گیا ہے”۔
انہوں نے کہاکہ روشنی اسکیم کے تحت لوگوں کو اپنی روزی روٹی کو محفوظ بنانے کے لیے بااختیار بنایا گیا اور مریضوں کے مناسب علاج کے لیے اسپتال بنائے گئے، لوگوں اور معیشت کو جوڑنے کے لیے سڑکیں بنائی گئیں۔ اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ نہ صرف زمینوں کے حقوق چھینے گئے، ان اسپتالوں میں عملے کی کمی ہے، سڑکیں ٹھیک نہیں ہیں جس سے عام لوگوں کی معیشت متاثر ہوئی ہے۔ آزاد نے اپنے کارکنوں سے وعدہ کیا کہ اگر وہ اقتدار میں آتے ہیں تو وہ روشنی اسکیم کو بحال کریں گے اور مقامی نوجوانوں کے لیے روزگار کے وافر مواقع پیدا کریں گے، مزدوروں کو روزگار دینے کا بھی یقین دلایا کیونکہ وہ اب اپنی روزی کمانے کے لیے دوسری ریاستوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے ان لوگوں پر بھی تنقید کی جو آرٹیکل 370 کی مخالفت کر رہے ہیں اور کہا کہ وہ سپریم کورٹ سے مثبت نتائج کی امید رکھتے ہیں جہاں درخواستوں کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو رہی ہے۔ جو لوگ دفعہ 370 کی مخالفت کرتے ہیں وہ دراصل جموں کشمیر کی تاریخ، سیاست اور جغرافیہ سے ناواقف ہیں ،دفعہ370 کا مقصد یوٹی کو فائدہ پہنچانا تھا نہ کہ کسی خاص برادری، مذہب یا علاقے کو۔ ہمیں امید ہے کہ سپریم کورٹ اسے بحال کر دے گی کیونکہ اس کی منسوخی غیر قانونی تھی ۔