نیوز ڈیسک
نئی دہلی //سپریم کورٹ نے بدھ کے روز کہا کہ وہ جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کی دفعات کو منسوخ کرنے کے مرکز کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی جلد فہرست بنانے کی درخواست پر غور کرے گی۔چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس پی ایس نرسمہا پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کہا ’’ہم جانچ کر کے تاریخ دیں گے‘‘ ۔
سپریم کورٹ کے اعلیٰ سطحی ڈویژن بینچ کے یہ ریمارکس اُسوقت سامنے آئے ،جب عرضی گذار رادھا کمار(جو ایک تعلیمی ماہر اور مصنف ہیں)، نے اس معاملے پر درخواستوں کی جلد فہرست بنانے کا مطالبہ کیا۔قبل ازیں رواں سال25 اپریل اور 23 ستمبر کو، اس وقت کے چیف جسٹس این وی رمنا کی سربراہی میں ایک بنچ نے، آرٹیکل 370 کی دفعات کو منسوخ کرنے کے مرکز کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت کیلئے فہرست بنانے پر اتفاق کیا تھا۔عدالت عظمیٰ کو دفعہ370کی منسوخی کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی دائر درخواستوں کی سماعت کیلئے5 ججوں کی بنچ کو دوبارہ تشکیل دینا پڑے گا کیونکہ سابق چیف جسٹس جے آئی رمنا اور جسٹس آر سبھاش ریڈی جو ان5ججوں کی بنچ کا حصہ تھے جس نے درخواستوں کی سماعت کی تھی، ریٹائر ہو چکے ہیں۔2 ریٹائر ہوچکے ججوں کے علاوہ، جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس بی آر گاوائی اور جسٹس سوریہ کانت، اس بنچ کا حصہ تھے جس نے 2 مارچ 2020 کو 5اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کی دفعات کو منسوخ کرنے کا مرکز کے فیصلے کو7 ججوں کی ایک بڑی بنچ سے رجوع کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے آرٹیکل370 کی منسوخی اور جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ2019 کے مرکز کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی متعدد درخواستوں کوزیر سماعت لانے کیلئے ، 2019 میں جسٹس رمنا کی سربراہی میں ایک آئینی بنچ کو بھیجاتھا۔ 5اگست 2019 کوآرٹیکل 370 کو منسوخ کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا تھا۔این جی او، پیپلز یونین آف سول لبرٹیز (پی یو سی ایل)، جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، اور ایک مداخلت کار نے اس معاملے کو بڑی بنچ کے پاس اس بنیاد پر بھیجنے کی مانگ کی تھی کہ عدالت عظمیٰ کے2 فیصلے – پریم ناتھ کول بمقابلہ جموں و کشمیر1959 اور سمپت پرکاش بمقابلہ جموں و کشمیر 1970 – جو آرٹیکل 370 کے معاملے سے نمٹتے تھے، ایک دوسرے سے متصادم تھے اور اس وجہ سے5 ججوں کی موجودہ بنچ اس معاملے کی سماعت نہیں کر سکی۔عرضی گزاروں سے اختلاف کرتے ہوئے جسٹس این وی رمنا کی سربراہی والے آئینی بنچ نے کہا تھا کہ اس کی رائے ہے کہ ’’فیصلوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے‘‘۔