راقم الحروف نے ا گر چہ کچھ ہی ہفتے قبل دفعہ 35 اے ؍کے ضمن میں اپنے سنیچر کے کالم میں قارئین محترم تک تفصیلات پہنچانے کی سعی کی تھی لیکن سچ تو یہ ہے کہ اِس اہم ترین مضمون سے وابستہ نت نئی خبریں اخباروں کی سرخیاں بنتی جا رہی ہیں۔ اس دفعہ کو لئے ریاست کے سماجی و سیاسی حلقوں میں نگرانی کی کیفیت طاری ہے کیونکہ یہ دفعہ ریاستی عوام کے خصوصی تشخص کی ضامن ہے ۔بنابریں ہم آج کے کالم میں ایک بار پھر اِس اہم ترین آئینی دستاویز کے مختلف زاؤیوں کا جائزہ لیں گے۔ یہ اہم آئینی دستاویز کیوں اور کیسے بھارت کی عدالت عالیہ سپریم کورٹ میں بحث و مباحثے کا موضوع بنی؟ اور اِس بحث و مباحثے کے مضمرات کیا ہو سکتے ہیں؟ ہم اُس کا بھی بھر پور جائزہ لیں گے۔ دفعہ 35 Aکے ضمن میں کئی سنوائیاں اب تک ہو چکی ہیں ۔ ریاستی عوام کے حقوق کی مدافعانہ وکالت پچھلی سنوائیوں میں ریاست کے ایڈوکیٹ جنرل کر رہے تھے جو بہر حال اِس ضمن میں ریاستی سرکار کا نکتہ نظر پیش کر رہے تھے لیکن کچھ دن بعد یعنی چھ اگست کو عدالت عظمیٰ میں جو سنوائی ہونے جا رہی ہے وہ گورنر راج کے دوران ہو رہی ہے۔ ریاست کی نگرانی اور ترجمانی کے لئے گورنر راج مکلف ہے لیکن گورنر بہر حال دہلی سرکار کا نمائندہ ہوتا ہے ،اس لئے اس بار یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ ریاستی عوام کی نمائندگی کرنے کے بجائے نئی دہلی کی ترجمانی کریں گے۔ اس کالم میں ہم یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ آئینی اعتبار سے یہ گورنر کا منصبی فریضہ ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں 35 A؍کے دفاع کیلئے ہر ممکن اقدام رو بعمل لائیں تاکہ ا س دفعہ کو کوئی زک نہ پہنچے۔ البتہ پہلے ہم دفعہ 35 A کی اہمیت و افادیت کا جائزہ لیتے ہیں۔
بھارتی آئین کی دفعہ 35 Aریاستی عوام کی انفرادیت اور خصوصی سیا سی حیثیت کی حامل ہے۔ اِس دفعہ کی رو سے صرف اور صرف ریاست کے مستقل باشندوں کو ہی ریاست میں سکونت اور غیر منقولہ جائدادرکھنے کا حق حاصل ہے ۔ اِس کے علاوہ ریاست میں حق معاش بھی ریاست کے مستقل باشندوں کے نام محفوظ ہے۔اِسی کے ساتھ ساتھ ریاستی سرکار سے سکالرشپ اور ملازمت جیسی مراعات حاصل کرنا بھی یہاں کے مستقل اور پشتینی باشندوں کا ہی حق ہے۔ یہ حقوق بلا شرکت غیرے ریاستی عوام کے نام محفوظ ہیں۔ ریاستی عوام کی انفرادیت اور خصوصی سیاسی حیثیت کو تحفظ بخشنے کی کوششوں کا آغاز آج گئے کم و بیش نوے سال پہلے 1927ء میں ڈوگرہ شاہی کے دوراں ہوا۔کہا جاتا ہے ڈوگرہ شاہی جموں سے ملحقہ صوبہ پنجاب کے مسلمانوں کی جموں میں نقل مکانی اور سکونت پہ روک لگانا چاہتی تھی ،لہٰذا ریاست کے مستقل باشندوں کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا جس کے مضمرات میں یہ شامل رہا کہ غیر ریاستی باشندوں کی ریاست میں نقل مکانی اور غیر منقولہ جائداد کے حصول پہ ایک موثر روک لگائی گئی۔مستقل ریاستی باشند ے کون ہیں؟ اس کی تعریف 1927ء اور 1932 ء میں ڈوگرہ شاہی کے سرکاری فرمانوں میں ہوئی اور ریاست کے پشتینی باشندوں کو ریاست میں دائمی سکونت اور غیر منتقولہ جائداد کے حصول کا بلا شرکت غیرے قانونی حق حاصل ہوا۔
1947ء میں جموں میں مسلمین کا قتل عام ہوا جس کا ذکر گوناگوں تصانیف میں ملتا ہے اور جموں سے مسلمین کی پنجاب میں نقل مکانی بھی پیش آئی ۔پنجاب سے بھی بہت سے ہندؤں خاندان جنہیں ویسٹ پاکستان ریفوجی کہا جاتا ہے پاکستان سے جموں ڈویژن میں نقل مکانی کر گئے ۔ یہ افراد جن کی مجموعی تعداد کم و بیش چہار لاکھ تک پہنچ چکی ہے پچھلی سات دہائیوں سے ریاست میں سکونت پذیر ہیں لیکن ریاست قوانین کے تحت اُنہیں مستقل سکونت کا حق حاصل نہیں ہے ۔ان شر نارتھیوںکو جہاں بھارتی شہری ہونے کا حق حاصل ہو چکا ہے اور یہ بھارتی انتخابات میں حصہ بھی لیتے ہیں لیکن وہ سٹیٹ سبجیکٹ ہونے کے اہل نہیں ہیں۔ ریاستی آئین کے مطابق جو 1956ء میں نومبر کی 17تاریخ کو منظر عام پہ آ،یا مستقل باشندوں کی تعریف میں وہ باشندے شامل ہیں جو 1954ء میں ماہ مئی کی 14تاریخ کو ریاستی باشندے تھے اور جنہوں نے اِس تاریخ سے دس سال قبل قانونی طریقہ کار سے غیر منقولہ جائداد حاصل کی تھی۔ اِس تعریف کا اطلاق ویسٹ پاکستان ریفوجیوں پہ نہیں ہوتا ۔لہٰذا وہ بھی شاکی ہو کر اُن تنظیموں کی صف میں شامل ہو گئے ہیں جنہوں نے دفعہ 35 A کو چلینج کیا ہوا ہے۔
دفعہ 35 Aکے دفاع میں ریاست جموں و کشمیر کی ہر سیاسی اکائی سامنے آ رہی ہے۔ وہ مقاومتی جماعتیں جو افہام و تفہیم سے ایک متحدہ فرنٹ قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں ،شد و مد سے دفعہ 35 Aکا دفاع کرنے میں سامنے آ چکی ہیں ۔ مقاومتی جماعتوں کی متحدہ لیڈرشپ نے آگست کی پانچ اور چھ تاریخ کو ایک ہمہ گیر ریاستی ہڑتال کی کال دے دی ہے ۔اگست چھ تاریخ کو سپریم کورٹ میں جو سنوائی دفعہ 35 Aکے ضمن میں ہو رہی ہے، اُس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت کی دائیں بازو سے وابستہ انتہا پسند وں کی فرنٹ لائن تنظیموں نے اِس دفاع کو مختلف دلیلیں لئے سپریم کورٹ میں چلینج کیا ہے۔اس چلینج کے مختلف پہلوؤں کو ہم سمجھنے کی کوشش کریں گے لیکن اُس سے پہلے ہماری توجہ دفعہ 35 A کے موثر دفاع پہ مرکوز رہے گی۔مقاومتی جماعتوں کی متحدہ لیڈرشپ کے علاوہ ریاست کی سول سوسائٹی اور تجارتی تنظیمیں بھی دفعہ 35 Aکے بھر پور دفاع کیلئے کمر بستہ ہو چکی ہیں۔ دفعہ 35 Aکے دفاع میں کہیں کہیں مین اسٹریم تنظیموں کی آواز یں بھی سنا ئی دی رہی ہیں ۔یہ جماعتیں بھارت کے قومی دھارے سے جڑی ہو ئی ہیں،گر چہ مین اسٹریم میں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کا علاقائی مسائل سے وابستہ رہنے کا دعویٰ ہے جسے کہیں اٹو نامی اور کہیں سیلف رول کا عنوان دیا جاتا ہے، البتہ آج تک نہ کہیں اٹونامی دکھائی دی نہ ہی کہیں سیلف رول کا سراغ ملتا ہے۔
دفعہ 35 A کے ضمن میں سپریم کورٹ میں کئی بار سنوائی ہو چکی ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہواگذشتہ سنوائیوں میں ریاست جموں و کشمیر کی جانب سے ایڈوکیٹ جنرل بھارت کی عدالت عالیہ کے سامنے پیش ہوئے اوردفعہ 35 Aکے ضمن میں ریاستی نقطہ ٔ نظر کو پیش کیا۔ریاست کے سیاسی و سماجی حلقوں میںیہ احساس زور پکڑ رہا ہے کہ ایڈوکیٹ جنرل کی جانب سے جو بھی اِس اہم دفعہ کے بارے میں کہا گیا اِس میں گر چہ واضح خامیاں تھیں پھر بھی ریاستی نظریے کا کچھ حد تک دفاع ہوا ۔ ۶؍اگست تاریخ کی سنوائی میں جو واضح خامی نظر آ رہی ہے وہ یہ کہ ریاست میں آج کل گورنر راج ہے اور خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کی گورنر بہر حال ریاست کا نمائندہ ہونے کے بجائے بھارت سرکار کی نمائندگی کرتا ہے، لہٰذا اُن سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ریاستی عوام کے جذبات کاخیال رکھیں، بعید ازا مکان ہے۔ البتہ ایک گہرے تجزیے میں یہ عیاں ہے کہ دفعہ 35 A کا موثر دفاع گورنر کی منصبی مجبوری ہے ۔گورنر راج ریاست میں تب ہی نافذ ہوتا ہے جب آئینی حدود کے اندر ایک منتخب حکومت کیلئے کار گذاری کا امکان نا ممکن بن جائے۔گورنر راج نا مساعد داخلی حالات یا خارجی تجاوزات کی صورت میں لاگو کیا جا سکتا ہے جہاں ایک منتخب حکومت کیلئے حالات سے نبٹنا نا ممکن بن جائے۔ بہر حال جو بھی وجہ ریاست میں گورنر راج لاگو کرنے کی ہو، ریاست جموں و کشمیر میں یہ راج پہلے چھ مہینوں میں جموں و کشمیر کے آئین کے سیکشن 92کے تحت لگتا ہے، گر چہ اس کے لئے رسماََ بھارت کے صدر جمہور سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ بھارت کی دوسری ریاستوں میں صدر راج بھارت آئین کی دفعہ 356کے تحت لگایا جاتا ہے۔ریاست جموں و کشمیر میں بھی اگر گورنر راج چھ مہینے سے زیادہ قائم رہے تو پھر اُس کا اطلاق دفعہ 356 کے تحت ہو گا لیکن پہلے چھ مہینے میں بہر صورت گورنر راج جموں و کشمیر کے آئین کے سیکشن 92کے تحت ہی لگتا ہے۔ چناںچہ آج کل ریاست میں یہی صورت حال ہے۔ریاست جموں و کشمیر کے موجودہ دور میں گورنر این این ووہرا چونکہ ریاستی آئین کے سیکشن 92 کے تحت گورنری کے فرائض انجام دے رہے ہیں ،بنابریں وہ مکلف ہیں کہ ریاست کے مفادات کا بھر پور دفاع کریں۔آئین کے تحت یہ اُن کی منصبی مجبوری ہے بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اُن کی اخلاقی مجبوری ہے۔
بھارت کے دائیں بازو کی سیاسی انجمنیں جن کا تعلق بیشتر راشٹریہ سیوئم سنگھ (آر ایس ایس) سے ہے، ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی سیاسی وآئینی شناخت کے بارے میں منفی نظریہ رکھتی ہیں اور دائیں بازو کی ان انجمنوں کا سیاسی بازو ہونے کی خاطر بھاجپا کا نظریہ بھی منفی ہے جو سپریم کورٹ کی پچھلی سنوائیوں میں ثابت ہوا ،باوجود اس حقیقت کے کہ پی ڈی پی کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر میں ایک کولیشن سرکار بنانے سے پہلے ایک مشترکہ میثاق جسے’’ ایجنڈا آف الائنس‘‘ کا نام دیا گیا تھا، کوتسلیم کر کے بھاجپا نے ریاست کی خصوصی پوزیشن کو بر قرار رکھنے کی حامی بھری تھی۔ دفعہ 370 کے ساتھ ساتھ دفعہ 35Aبھی ریاست کی خصوصی پوزیشن کی ضامن ہے۔ نئی دہلی کی گذشتہ یقین دہانیوں کی مانند یہ وعدہ بھی ایفاء نہ ہوا اور یہ درد ناک حقیقت 1947ء سے عیاں سے عیاں تر ہوتی جا رہی ہے۔ دفعہ 35A کی دور حاضر میں جہاں تک گذشتہ سنوائیوں کا تعلق ہے بھاجپا کی تشکیل دی ہوئی دہلی سرکار واضح سٹینڈ لینے سے کتراتی ہوئی نظر آئیں ۔ کبھی اس دفعہ کو حساس قرار دیتے ہوئے کچھ بھی کہنے سے معذوری ظاہر کی گئی ،کبھی یہ کہا گیا کہ اِس پہ ایک ہمہ گیر بحث کی ضرورت ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ بھارتی رابطہ کار دنیشور شرما ریاست میں موجود ہیں اور ریاستی عوام سے رابطہ قائم کئے ہوئے ہیں،البتہ اس امرپر روشنی نہیں ڈالی گئی کہ رابطہ کاری اور دفعہ 35Aکا آپسی تعلق کیا ہے؟ نئی دہلی اس حقیقت کے باوجود کوئی واضح سٹینڈ لینے سے کتراتی نظر آئی کہ دفعہ 35Aریاستی آئین کی نہیں بلکہ آئین ہند کی ایک دفعہ ہے جو کہ ایک آئینی سلسلے سے آئین ہند میں منعکس ہوئی ۔ بنابریں اِس دفعہ کے دفاع کو آئینی مجبوری کہا جا سکتا ہے۔ بھاجپا اکثر و بیشتر یہ جواز فراہم کرتی ہے کہ دہلی کی جواہر لال نہرو سرکار نے جموں و کشمیر کے ضمن میں جو بھی کیا وہ بھارتی شہریوں کے ہیت میں نہیں تھا یعنی وہ بھارتی عوام کی توقعات پہ پورا نہیں اترتا ۔اس غیر سنجیدہ جواز کی کوئی آئینی و قانونی حیثیت نہیں۔پنڈت نہرو نے اپنی سرکار کے دوران جو بھی صحیح یا غلط کیا وہ انفرادی حیثیت میں نہیں کیا بلکہ وزارت عظٰمی کے منصب کے براجمان ہو کے کیا ۔ لہٰذا اُس کا نزلہ ریاستی عوام پہ اتارا جائے، اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔
دفعہ 35A مسلسل تب سے عتاب میں ہے جب سے 2014ء میں بھاجپا کی سرکار دہلی میں بھارتی سنگھاسن پہ براجمان ہوئی بلکہ ہنگامہ اُس سے پہلے ہی برپا ہوا ۔لیڈر آف اپوزیشن کی حیثیت سے ارون جیٹلی نے اس دفعہ کو ہدف ِتنقید بنایا یہ جواز لے کر کہ اس دفعہ کا اطلاق بھارتی ناگرکوں کے حقوق کی منافی ہے۔ چونکہ اس دفعہ کی رُو سے کوئی غیر ریاستی باشندہ ریاست جموں و کشمیر میں نہ ہی مستقل سکونت اختیار کر سکتا ہے، نہ ہی ریاست اُسے ذریعہ معاش کے حصول کی ضمانت فراہم کر سکتی ہے۔ ارون جیٹلی نے یہ بھی کہا تھا کہ کبھی نہ کبھی یہ دفعہ عدالت میں چلینج ہو گی اور 2014ء کے بعد ایسا ہی ہوا جب دائیں بازو کی فرنٹ لائن انجمنوں نے عدالت عذر داری میں اور دلیلوں کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ دفعہ 35A کی تصدیق بھارتی پارلیمان میں نہیں ہوئی ہے ۔ بھارتی آئین کی دفعہ 368 ؍کے مطابق کسی بھی آئینی ترمیم کیلئے پارلیمانی تصدیق ضروری ہے لیکن ریاست جموں و کشمیر کے ضمن میں دفعہ370؍یونین آف انڈیا اور ریاست جموں و کشمیر کے مابین ایک پل کا کام دیتی ہے۔جموں و کشمیر ریاست میں آئین ہند کی کسی بھی دفعہ کا اطلاق یا کوئی بھی آئینی ترمیم دفعہ370کی شق (I)کے تحت ہی ہو سکتی ہے اور ایسا ریاستی سرکار کی رسمی درخواست کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔ریاستی سرکار کی درخواست قانون سازیہ کی سفارش کے تابع ہے جس کے بعد ریاستی سرکاراپنی درخواست صدر جمہوریہ ہند کو پیش کرتی ہے جو ایک صدارتی حکم نامے سے اس کی آئینی جوازیت کی تصدیق کرتے ہیں۔یہ تو مانی ہوئی بات ہے کہ صدر جمہوریہ کا مقام علامتی ہوتا ہے، وہ وہی کرتے ہیں جس کی سرکار ہند سفارش کرے ۔ 35A کے اطلاق کیلئے بھی یہی آئینی طریقہ کار اپنایا گیا ۔1954 ء میں آئین سازاسمبلی کی ڈرافٹ کمیٹی نے 11؍فروری کے روز اسمبلی کے سامنے اپنی سفارشات رکھیں جو 15؍فروری کو منظور کی گئیں اور ریاستی سرکار نے یہ سفارشات صدر جمہوریہ ہند کے سامنے رکھیں اور 14؍مئی کو کئی دوسری آئینی ترمیمات کے ساتھ 35Aبھی صدارتی حکم نامے میں شامل ہو کے آئین ہند کا حصہ بن گئی۔ بنابریں اس کا احترام حکومتِ ہند پہ واجب ہے۔
Feedback on:[email protected]