سپریم کورٹ آف انڈیا میں راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتاپارٹی کی ایک ذیلی تنظیم۔۔۔we the citizens ۔۔۔کی طرف سے آئین ہند کی دفعہ 35؍اے کو غیر آئینی قراردے کر کالعدم کرنے کی ایک عرضی داخل کی گئی ہے جس کی سماعت کے لئے رواں سال 6؍اگست کی تاریخ مقرر کی گئی تھی لیکن سماعت کرنے والے بنچ کے ایک جج کی غیر حاضری کے باعث اُس تاریخ کو سماعت نہیںہوسکی اور اب اس کی سماعت کے لئے 27؍اگست کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کی مذکورہ ذیلی تنظیم اور اس عرضداشت اور اس کی سماعت کے لئے سپریم کورٹ کی رضامندی سے جموںوکشمیر میں زبردست فکرمندی، تشویش اور بے چینی پائی جاتی ہے۔ اس کے ردعمل میں ریاست بھرمیں عوامی سطح پر زبردست احتجاج اور مظاہرے ہوئے ہیں ۔ وجہ صاف ہے کہ اس عرضی کے ذریعہ پشتینی باشندگان جموںوکشمیر کو حاصل جن خصوصی حقوق ومراعات کوآئین ِ ہندمیں قانونی تحفظ مہیا کیاگیاہے ،اس دفعہ کو کالعدم کرکے منسوخ کرنے کامطالبہ کیاگیا ہے۔ اِس دفعہ کے تحت باشندگان جموںوکشمیر کو یہ آئینی ضمانت دی گئی ہے کہ کسی بھی غیر ریاستی شہری کو جموںوکشمیر کامستقل باشندہ قرارنہیںدیا جاسکتا اور مزید مستقل باشندگان ریاستی حقوق کی آئینی تحفظات حاصل رہیں گے۔ اس کی رُو سے صرف اور صرف سٹیٹ سبجیکٹ سرٹیفکیٹ ہولڈر کو ریاست میں
جائیداد، ملازمتیں، قانون ساز اسمبلی کیلئے رائے دہندگی کے حقوق اور اسکالرشپ حاصل ہوں گے ۔ اگر بالفرض یہ دفعہ کالعدم اور منسوخ ہوجاتی ہے تو جملہ باشندگان جموںوکشمیر ان تمام تحفظات سے محروم ہو جائیں گے۔ اس میں دورائے نہیں کہ غیر ریاستی شہری روپیہ پیسہ کے بل بوتے پر یہاں کی زمینیں خرید کر مقامی باشندوںکو روزی روٹی اور جائیداد و املاک کی ملکیت سے بھی محروم کرکے رکھ دیںگے ۔ تاریخ نے ایسے بہت سارے غش سہے ہیں کہ پھر ایسی محروم الارث قومیں اپنی ہی سرزمین وطن میںبھیک منگا ہوکر رہتی ہیں۔ ملازمتوں پر قابض ہوکر مقامی باشندگان کو ملازمتوں سے بھی محروم ہونا طے ہے اور اس امر کا بھی خدشہ ہے کہ ملک میں واحد مسلم اکثریتی آبادی والی ریاست میں آبادی کاتوازن بھی بگڑ کر رہ جائے۔انہی وجوہات کی بناء پر عوامی سطح پر تشویش، فکرمندی اور بے چینی پایا جانا قابل فہم ہے ۔بنابریں اس رِٹ پٹشن کی مخالفت میں بند بھی ہوئے، احتجاج بھی ہوئے اور مظاہرے بھی ہوئے ۔
اس دفعہ کو کالعدم اور منسوخ کروانے کی کوشش پہلی بار نہیںہوئی بلکہ اس سے پہلے بھی ہوئی ہیں لیکن سپریم کورٹ نے اس مسئلہ پر آئینی بنچ بنا کر فیصلہ دیا ہواہے کہ یہ دفعہ آئینی ہے اور اُسے کالعدم یامنسوخ نہیںکیاجاسکتا۔یہ فیصلے 1961ء اور 1969 ء میںہوئے ہیں۔ آئینی ماہرین اور قانون دانوں کے مطابق اس ضمن میں ماضی کی روشنی میں یہ متنازعہ عرضی سماعت کے لئے داخل ہی نہیں کی جانی چاہیے تھی لیکن معلوم نہیں کن وجوہ واسباب اور مصلحتوںکے تحت پر یہ عرضی ایوان ِ عدل میں سماعت کے لئے قبول کرلی گئی ہے۔ حالانکہ یہ نکتہ داخلہ کی سماعت کرنے والے بنچ میں بنچ کے سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج جسٹس چندراچوڈنے بھی اُبھاراتھا لیکن بنچ کے دیگر دو ممبروں نے اسے قبول نہیںکیا اور یہ عرضی سماعت کے لئے قبول کرلی گئی۔ اب 27؍اگست کی مقررہ تاریخ پر یہ نکتہ بھی زیر ِبحث ہے کہ اس عرضی کو پھر5 رُکنی آئینی بنچ کو سماعت کے لئے بھیج دیاجائے جس سے عوامی بے چینی اور تشویش میںمزید اضافہ ہونا فطری امرہے۔
جموں وکشمیر کے مستقل باشندگان کو جن حقوق کے تحفظات 35؍اے کے تحت حاصل ہیںوہ کوئی نئے نہیں بلکہ بہت عرصہ پہلے سے انہیں حاصل ہیں اور اس سلسلہ میں تاریخی وجوہات کو سمجھنا ازحدضروری ہے، اسے جموںوکشمیر کی سیاسیات کے طالب علم اور محققین بخوبی سمجھتے ہیں ۔ 1846میں جب جموںوکشمیر کی موجودہ ریاست وجود میں آئی تو اس وقت اگرچہ مہاراجہ گلاب سنگھ کو لاہور دربار سے انگریز موافق بغاوت کے عوض گوروں نے جموں و کشمیر کی ریاست کاحکمران نے تسلیم کیاتھا لیکن بظاہر معاہدۂ امرتسر جسے تاریخ میں صحیح معنوںمیں بیع نا مہ امرتسر کہا جاتاہے ، کے تحت مہاراجہ جموں وکشمیر کا حکمران بنایا گیاتھا۔ اُس وقت انگریزوں نے 75لاکھ روپیہ نانک شاہی کا تاوان جنگ لاہور دربار پر ڈالاتھا جو مہاراجہ گلاب سنگھ نے ادا کیا اور اسی کے عوض میںجموںوکشمیر کی موجودہ ریاست گلاب سنگھ کوحاصل ہوئی۔ علامہ اقبال نے اس خرید وفروخت پر کیاخوب کہا ؎
دہقان و کشت وجود خیاباں فروختند
قومے فرد ختندو چہ ارزاں فروختند
مہاراجہ گلاب سنگھ کے پاس بھی اتنی رقم نہ تھی۔ اُس نے یہ ایمن آباد کے دیوانوں سے حاصل کی تھی اور اس کے بدلے اُس خاندان میںسے دیوان جوالاسہائے کو ریاست کا وزیر اعظم بنایا گیااور پھریہ عہدہ وراثتاً اسی خاندان کودیاگیا ۔اس کے ساتھ ہی مالیہ کا کچھ حصہ بھی اس خاندان کودیا جاتارہا۔ ایمن آباد کے دیوانوں نے بہت سارے ساہو کار ،سود خوار اور اپنے رشتہ دار و لواحقین بھی ریاست میں اپنے ہمراہ لائے جنہوں نے نہ صرف اعلیٰ عہدوں پر قبضہ کرلیا بلکہ سودی کاروبار کے ذریعہ باشندگانِ ریاست کو معمولی معمولی رقومات قرضہ پر دے کر سوددرسود کے ذریعہ ان کی زمینیں اور املاک بھی ہتھیالیں۔ دیوان خاندان خود بھی جموںو کشمیر میں سب سے بڑا لینڈ لارڈ خاندان تھا۔ ایک عرصۂ دراز تک دیوانوں کے ساتھ ان کے لواحقین اور رشتہ دارجموں و کشمیر کی ملازمتوں پر بھی چھائے رہے اور مفت میں اراضی جاگیروںکے مالک بھی بن بیٹھے لیکن آہستہ آہستہ جب ریاستی باشندگان میںکچھ بیداری اورسیاسی سوجھ بوجھ پیدا ہوئی تو انہوںنے مشترکہ طور مطالبہ کیا کہ ریاست میںایسا قانون وضع کیا جائے جس کے ذریعہ ملازمتوں اور زمینوں کی خرید وفروخت پر بیرونی عناصر کی ا جارہ داری ختم کر نے کے لئے اس پر قانونی پابندی لگائی جائے۔ آخر کار عوامی مطالبہ کے پیش نظر مہاراجہ ہری سنگھ کوپشتینی باشندئہ ریاست کا قانون ( مجریہ (1927)وضع کرناپڑاجس کے بل پر ریاست کے پشتینی باشندگان کے جملہ حقوق کو تحفظ ملا۔ 1947ء میں جن سیاسی حالات کی وجہ سے ریاست میں تبدیلیاں آئیں،ان کے پیش نظر مہاراجہ نے ہندوستان کے ساتھ نے الحاق کیا۔ اُس کے بعد ریاستی آئین ساز اسمبلی وجود میں آئی۔ وہ تفصیلات بتانے کی ضرورت نہیںکیونکہ وہ ایک الگ موضوع ہے ۔ بہر حال ریاستی آئین ساز اسمبلی نے پشتینی باشندگان ریاست کے درجوں کو ختم کرکے قانوناًیہ قرار دیا کہ ان تین درجوں کے سبھی باشندگان ریاست کے مستقل باشندگان کہلائیںگے اور اُن کو وہ سبھی تحفظات یکساں حاصل رہیںگے جو پشتینی باشندگان ریاست کو حاصل تھے۔ جب الحاقِ ہند ہوا تو فقط تین مدات مرکز کے حوالے کی گئی: امورخارجہ، دفاع اور کمیونیکیشن ۔ہندوستان کی دیگر ریاستوں کا الحاق بھی ان ہی امور پر ہواتھا لیکن بعد میں دیگر ریاستوں نے باقی معاملات کو بھی ازخود مرکز اورہندوستان کی آئین ساز اسمبلی کے حوالے کردئے ،ا لبتہ جموںوکشمیر واحد ریاست ہے جس نے ایسانہیںکیا بلکہ ہند وفاق میں اپنا تشخص بہر طور قائم رکھا۔ اس کے لئے ہندوستان کے آئین میں دفعہ 370وضع کی گئی جس کی رُوسے طے پایا کہ جموںوکشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی سفارش پر صدر جمہوریہ ہند مجاز ہوںگے کہ آئین ہند کی کون سی دفعات جموںوکشمیر نافذ العمل ہوںگی۔ لہٰذا جموںوکشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے باشندگان جموںوکشمیر کے دیرینہ سیاسی ،مالی ، انتظامی ،تعلیمی وثقافتی حقوق کا تحفظ نہ صرف اپنے آئین میں کیا بلکہ دفعہ 370کے تحت ان حقوق کا تحفظ آئین ہند کے مطابق بھی جموں وکشمیر کے باشندگان کو بطور اضافی ضمانت حاصل ہے۔ البتہ 1952کے دہلی ایگریمنٹ کے مطابق جومرکز اور جموںوکشمیر کے درمیان سرکاری طورپر ہوا، ان قانونی ضمانتوں کو مزید مضبوط وفعال بنانے ک دوطرفہ فیصلہ کیاگیا۔ اُسی کے مطابق1954ء کو دفعہ 370کے تحت ریاستی آئین ساز اسمبلی کی سفارش پرآئین ہند میں 35؍اے کا اضافہ صدرجمہوریہ نے صدارتی فرمان کے ذریعہ کیا جو آئین ِ ہند کا جزولاینفک بنا۔ لہٰذا آئین ہند کی ا س دفعہ کو اُسی صورت میں کالعدم یامنسوخ کیاجاسکتاہے جب ریاستی آئین ساز اسمبلی صدر جمہوریہ سے اس کی سفارش کرے اور صدر جمہوریہ اس پر صدارتی حکم نامہ صادرکریں۔ عملی طور آئین ساز اسمبلی کالعدم ہوچکی ہے ، اس لئے اب کسی کو یہ اختیارنہیں کہ دفعہ35؍اے کو پارلیمان یا عدالت کے ذریعے کا لعدم یامنسوخ کیاجاسکے۔ بیشتر ماہرین قانون وآئین کی یہی جچی تلی رائے ہے۔
مستند ماہرین آئین او رقانون کی مسلمہ رائے ہے کہ آئین ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ 35؍اے جموںوکشمیر اور ہندوستان کے درمیان معاہدۂ قرابت اور پل کی حیثیت رکھتی ہیںجسے کوئی ایک فریق توڑنہیں سکتا۔ اگر کوئی ایک فریق انہیں توڑتاہے تو وہ اصل معاہدہ ہی ٹوٹ جاتاہے جس کے تحت جموںوکشمیر کا الحاق ہندوستان کے ساتھ ہوا۔ اس لئے اب تک اقرب الی الصواب یہی سمجھا جاتا رہاہے کہ کوئی ایک فریق اس قسم کا رِسک لینے کی قبا حت اپنے سر مول نہیںلے گا۔ بدیں وجوہ ہم ریاستی باشندہ ہونے کی حیثیت سے اپنی اخلاقی وسماجی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ تمام متعلقین کو اس امر سے آگاہ کریں کہ اگر کسی طرف سے ایسی بے ہودہ کوشش کی گئی تو اُس کے انتہائی گھمبیر اور سنگین نتائج برآمد ہوںگے جس کا شاید ووٹ بنک سیاست پر مر نے جینے والوں کو کوئی اندازہ نہیں ۔
بھاجپا جو اس وقت مرکز میں برسر اقتدار ہیں، کافرض منصبی بنتاہے کہ وہ ریاست کے تئیں اپنی پیش روسرکاروں کے عہدوپیمان کا احترام کرے اور جموںو کشمیر کے ساتھ اُس وقت کی مرکزی سرکار نے جو جوعہد وپیمان کئے تھے، اُن کی خلاف ورزی نہ ہونے دے۔ افسوس کا مقام ہے کہ اس فرض کی ادائیگی میں ا س وقت کی مرکزی سرکار کو تاہی اور سہل انگاری کررہی ہے۔، حالانکہ اُس کا فرض ہے کہ وہ سپریم کورٹ میںدفعہ 370اور 35؍اے کا دفاع کرنے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کر ے کیونکہ یہی ملک کی ایکتا اور اکھنڈتا کے مفاد میںہے ۔ مودی سرکار اور بھاجپا کے لئے کس قدر یہ کم ظریفی ہے کہ ابھی کل تک پی ڈی پی کے ساتھ کولیشن وزارات بناتے وقت مشترکہ کم از کم پروگرام( ایجنڈا آف الائنس) میں بھی اُس نے دفعہ370اور 35؍اے جیسی جموں وکشمیر کی سپیشل پوزیشن کی ضامن دفعات کے دفاع کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن اب اس سے آئیں بائیں شائیں کر کے کترارہی ہے۔ ایسی صورت حال میںکون بے وقوف ہوگا جو اُن کے کسی قول و قرار پر اعتبار کرے ۔ہر سُوجھ بوجھ رکھنے والا شخص اچھی طرح سمجھتاہے کہ بھاجپا کے قائدین کو اس امر کا بخوبی احساس ہے کہ آئینی طورپر بھی اور حالات حاضرہ کے مد نظر بھی کوئی جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن اور جموںوکشمیر کے باشندگان کو دئے گئے آئینی تحفظات ختم نہیں کرسکتالیکن پارٹی محض سیاسی اور انتخابی ضرورتوں کے پیش نظر بار بار سپریم کورٹ میںعرضیاں دے کرفضاء کو پراگندہ اور قوم کو گمراہ کرر ہے ہیں ۔
امر واقع یہ ہے کہ بھاجپا اپنے لمبے چوڑے فلاح وبہبود کے وعدوں اوردعوئوں کو عملی شکل دینے میںناکام ہوچکی ہے ۔ عوام الناس’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس اور اچھے دن آگئے‘‘ جیسے نعروں کی دُرگت سے واقف ہے اور نیتاؤں کے اصلی چہرے کو اچھی طرح پہچاننے لگے ہیں۔ لوگ باک آئندہ انتخابات کے ھوالے سے بھاجپا کا متبادل چاہتے ہیں ،اس لئے یہ قدرت کا کوئی چمتکار ہی ہوگا جو بی جے پی کو ازسر نو اقتدار میں لا سکے۔ اس لئے اب پارٹی کھلے عام ہر قسم کے فرقہ وارانہ نعروں اور فرقہ وارانہ پالیسیوں کے ذریعہ اپنی بقاء کے
لئے کوشاںہے۔ کہیں آسام کے چالیس لاکھ مسلم شہریوں کو بے وطن کرنے کی ہرزہ سرائی کی جارہی ہے ، کہیں ہجومی تشدد کے ذریعہ اقلیتوں اور دلتوں کو نشانہ بنایاجارہاہے، کہیں گئو رکھشا کے نام پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں، کہیںلو جہاد کا شوشہ چھوڑا جارہاہے، کہیں گھر واپسی کے تماشے ہیں۔ اسی طرح جموںوکشمیر کی سپیشل پوزیشن دفعہ 370اور 35؍اے کو کالعدم کرانے کا رقص نیم بسمل ہورہا ہے۔ عوام کو ان تمام چیزوں سے باخبرر ہ کر کسی بھی طرف سے پھیلائی جارہی گمراہیوں سے بچناچاہیے۔ جموں وکشمیر میںدفعہ 35؍اے کے کالعدم یامنسوخ کرنے کی کوشش بھاجپا کی اسی افراتفری سیاست اور فرقہ پرستانہ حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اس لئے جموںوکشمیر کے عوام کو بلا تمیز مذہب وملت، زبان وسکونت متحد ہوکر اس دفعہ کادفاع کرنا چاہیے اور اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کی کوشش کو ناکام کرناچاہیے۔
جموںوکشمیر کے حالات پہلے ہی ناگفتہ بہ اور انتہائی مخدوش ہیں ۔ لاء اینڈآرڈر کی صورت ناقابل بیان تک ابتر چلی آرہی ہے۔ افواج اور ملی ٹینٹوں کے درمیان جھڑپوں کے باعث آئے دن قتل وغارت کا سلسلہ رواں دواںہے۔ کاروبار ٹھپ ہے۔ عوام کی محرومیاں بے انتہا ہیں۔ معیشت تباہ وبرباد ہے۔ سیز فائر لائن پر آئے دن خلاف ورزیوں کے باعث عوام کا جینا محال ہوچکاہے۔ بدنظمی کے باعث گورنری راج قائم ہوچکاہے۔ شہری آزادیاں مفقود ہیں۔ حراستی ہلاکتوں کا سلسلہ کم وبیش جاری ہے۔ ہزاروں نوجوان بدستور جیلوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ بے کاری نے عوام کا دم ناک میںبند رکھا ہے۔ مہنگائی کا دور دورہ ہے ۔ رشوت اور بھرشٹاچار عوام کا کچومر نکال رہا ہے ۔ اب اگر خدانخواستہ 35؍اے کو ختم کرکے باشندگان جموںوکشمیر کے حقوق کے تحفظات کا جنازہ بھی اُٹھایاجاتاہے تو زمینی حالات نہ صرف سنگین بلکہ سنگین تر ہوجائیںگے اور یہ پھر کسی کے بھی قابو میں نہ آئیں گے۔ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات جو پہلے ہی کشیدہ ہیں، اس صورت حاکل کے زیر اثر مزید ابتر ہونے کا اندیشہ ہے اور سرحدوں پر حالات کوئی بھی کڑا رُخ اختیار کرسکتے ہیں۔ ان پیچیدہ حالات وکوائف میںنہ صرف جموںوکشمیر کے عوام کا مشترکہ فرض ہے کہ وہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کی ضامن آئینی دفعات کادفاع کریں بلکہ ہندوستان بھر کے جمہوریت پسنداور انصاف کی حامی سیاسی پارٹیوں اور دانشوروں کا بھی فرض عین ہے کہ وہ ریاست کو تحفظاتی دفعات کو کالعدم یا منسوخ کرانے کے احمقانہ اقدامات کے خلاف اپنی زوردار آواز بلندکریں تاکہ اس خوفناک کھیل کو کھیلنے والے منہ کی کھائیںاور ملک وقوم کی سا لمیت اور و حدت پر کوئی آنچ نہ آئے۔