’ کشمیر میں ظلم ہونے پرنوجوانوں بندوق اُٹھاتے ہیں، جموںکیساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوئی‘
جموں//دفعہ35-اے کے حق میں وادی کے بعد جموں میں آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں اور یہ آوازیں کوئی اور نہیں اس قانون کیخلاف بھاجپا کے اپنے اراکین اٹھا رہے ہیں۔پہلے قانون ساز اسمبلی کے رکن راجیش گپتا اورآر ایس پورہ سے بھاجپا ایم ایل اے ڈاکٹر گگن بھگت نے نہ صرف کھل کر بھاجپا کی مخالفت کی بلکہ یہ بھی کہا کہ کشمیری عوام جموں کی لڑائی لڑرہے ہیں۔ ڈاکٹر گگن نے کہاکہ سٹیٹ سبجیکٹ قوانین مہاراجہ نے جموں والوں کے تحفظ کے لئے لائے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جموں کے لوگ کمزور ہیں، ہم بہاریوں سے مقابلہ تک نہیں کر سکتے۔ ڈاکٹر گگن نے کہا’ 35اے ہٹنا نہیں چاہئے، اگر ہٹ گیا تو یہاں کے نوجوان بیٹھے ہی رہ جائیں گے، نوکری نہیں ملنی ہے، نہ کام، پرائیویٹ کام بھی چھن جائے گا، مکان بنانے کے لئے زمین بھی نہیں ملے گی ، آج پھر ایک دو لاکھ روپے مرلہ زمین مل جاتی ہے، جب باہر سے لوگ یہاں آئیں گے تو زمین کا ریٹ کم سے کم دس لاکھ روپے مرلہ ہوگا، وہ بھی زمین ملے گی تو تب، ہمارے پاس تو اتنے پیسے ہے نہیں،پنجاب، ہریانہ، دہلی، یوپی ، گجرات سے امیر لوگ یہاں آکر زمین خریدیں گے ‘۔انہوں نے میٹنگ میں موجود لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ’کیا آپ میں سے کوئی کشمیر میں جاکر دکان کھولنا چاہتا ہے ، نہیں، وجہ کیا ہے کہ وہاں حالات ٹھیک نہیں، ملی ٹینسی ہے، جموں میں امن ہے ، یہاں پر کاروبار کے مواقعے ہیں، اسی طرح اگر35اے ہٹا تو ہندوستان کی دیگر ریاستوں سے جو بھی لوگ آئیں گے وہ جموں ، سانبہ اور کٹھوعہ میں کام کریں گے، یہاں تو ہمارے لئے کچھ نہیں بچے گا۔ جموں سرکولر سڑک کے ارد گرد جتنی بھی زمین ہے وہ سب باہر والے لوگ خرید لے جائیں گے ، ڈوگرے ختم ہوجائیں گے، یہاں رہنے والے سبھی لوگ ختم ہوجائیں گے‘۔ گگن بھگت نے کہاکہ بی جے پی کا موقف الگ ہے، وہ چاہتی ہے کہ دفعہ35Aاور370کو ہٹایا جائے کیونکہ پارٹی ملکی سطح پر اپنی تین سو سے زیادہ سیٹوں کے چکر میں ہے، اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جموں صوبہ سے دو سیٹیں انہیں ملیں یا نہ ملیں، انہیں تو پورے ملک کو دیکھنا ہے، لیکن ایک بات میں بتا دوں، یہ دفعے ہٹانا اتنا آسان نہیں اور نہ کوئی ایسا کرسکتا ہے۔ انہوں نے جموں کے ساتھ امتیاز کے الزامات کی نفی کرتے ہوئے کہاکہ یہ غلط پروپگنڈہ ہے، جب کبھی بھی نوکریوں کی لسٹ نکلتی ہے تو اس میں کشمیر کے نوجوان زیادہ آتے ہیں، وہ اس لئے آتے ہیں کیونکہ وہ ہم سے زیادہ کوالیفائی ہیں، کشمیری ہرلحاظ سے ہم سے بہتر ہیں، پیسے میں، کام میں، ہنر میں اور قابلیت میں، وہ ہرطرح کی نوکر ی کر لیتے ہیں، چاہئے درجہ چہارم کی ہوئی یا دکان کھولنی ہو، ہم یہاں پر گزیٹیڈ پوسٹ لینے سے نیچے سوچتے بھی نہیں۔ہرکوئی ڈی سی لگنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ کشمیر میں نوجوان بندوق وغیرہ کیوں اُٹھاتے ہیں کیونکہ انہیں فوج ، سیکورٹی فورسز تنگ کرتی ہیں، انہیں بار بار تھانے بلا لیاجاتاہے، اگر یہی حال جموں میں ہو تو یہاں بھی نوجوان ایسا ہی کچھ کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ ڈاکٹر گگن بھگت نے مزید کہادفعہ35اے پر کشمیری لوگوں کے موقف اور عزم کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ جو کام جموں والوں کو کرنا چاہئے ، وہ کشمیر والے کر رہے ہیں، ہمارے حق کی لڑائی وہ لڑ رہے ہیں، 35اے کو ہٹانے والا کوئی پیدا نہیں ہوگا۔ اگر یہ دفعہ ہٹایاجاتاہے تو جموں میں بے روزگاری کی انتہاہوگی ، کاروبارمقامی لوگوں سے چھن جائے گا تو پھر وہ بھی سڑکوں پر اترنے پر مجبور ہوجائیں گے، وہ بھی پتھربازی کریں گے۔