حمیرا فاروق
یہ انسان کی لاعلمی ہے کہ جب وہ دنیا کی رنگا رنگیوں میں گُل مل جاتا ہے تو اصل حقائق اور اپنے اوقات کو بھول جاتا ہے ۔ دنیا کی محفلوں میں مشغول رہ کر موت کے خوف سے بھی غافل ہوجاتا ہے۔بے شک انسان کو بحیثیت ِبشر نسیاں ہوسکتا ہے، وہ فرشتہ نہیں کہ لغزش سرزد ہی نہ ہو، تاہم ربّ نےاس کے اندر ضمیر رکھا ہو ا ہے، جوبُرائیوں پہ اس کو وقتاً فوقتاً ٹوکٹا ہے اور نیکیوں پر آمادہ کرتا ہے ۔ پھر یہ انسان کی جہالت ہی ہوگی کہ وہ حق و ناحق ،صحیح و غلط میں تمیز نہ کر پائے اور رحم و توقیر کو بجا نہ لائے،گویا وہ ا طاعت سے معصیت کی طرف رُخ کرے۔ ظاہر ہے کہ دنیا میں جو بھی انسان جنم لیتا ہے،اُس میں کوئی نہ کوئی تمنا ضرورہوتی ہے ۔ کسی کو مال و زر کی تمنا تو کوئی بڑا آدمی بننا چاہتا ہے ،کوئی ڈاکٹر ،فلاسفر تو کوئی اقتدار پہ فائز ہونا چاہتا ہے اور ان تمام شعبہ جات میں ہر کوئی اپنا عمل وکردار بخوبی نبھا رہا ہے اور ایک دوسرے سے آگے جانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ۔ لیکن جہاں تک انسانیت کا تعلق ہے،اس معاملے میں آگے بڑھنے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ غریب، بے بس ،بے سہارے لوگوں کو پسِ پشت چھوڑ دیتا ہے ،ان کی کوئی وجاہت و توقیر نہیں کرتا ۔ انسان مالدار بن کر خود کو خدا سمجھ بیٹھتا ہے ، جب کہ اسلام نے اُسےرحم اور بھائی چارگی کا درس دیاہے ،ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک اور محبت کرنا سکھایا ہے،لیکن افسوس ہم اس نعمت سے محروم رہ گئے ۔ جو دین ازل سے بے سہاروں کو کندھا دیتا رہا، ہم اس کو بھول کر حیوانیت کی جانب جا رہے ہیں۔ اگر چہ آج جدید سائنس نے لوگوں کو ہر طرح کی سہولت فراہم کر رکھیں لیکن اس کے باوجود انسان کی بے سکونی میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے ۔ دراصل انسان ایک دوسرے کے حقوق ادا ہی نہیں کرتےاور بددیانتی اور بے حیائی کاشکار ہورہے ہیں ۔ حیا صفتِ مومن ہے اور مومن کبھی حق کھانے والا نہیں ہوتا۔ جب انسان دوسروں کے حقوق سلب کر لیتا ہے تو اولاً اپنا ہی حق ماردیتا ہے۔ اپنے حقوق کو نہ سمجھنے والے ہمیشہ دوسروں پہ ظلم کیا کرتے ہیں۔اسی لئےآج ہم پہ ہر آئے دن بیماریاں مسلط ہورہی ہیںاور ساتھ ہی دنیا بھرمیںافرا تفری کا ماحول بھی چین سے جینے نہیں دیتا ۔ یہ ماحول اس لئےبڑھ رہاہے کیونکہ دنیا میں ظلم و تشدد ہو رہا ہے ۔
انسان نے خود کی بعثت سمجھا نہیں کہ وہ کیا ہے ؟ورنہ آدم ؑ تو جنت میں تھے، اس کے لیے حواؑ کو پیدا بھی اسی لئے کیا گیا کہ وہ ان سے سکون حاصل کرسکے اور ایک دوسرے کے لیے سہارا بن جائے ۔ پھر زمین میں بھیجے گئے تو یہاں بھی ربّ کے ذکر سے لاتعلق نہیں رہے ۔ انسان جونہی ربّ سے غفلت بر تیں تو پریشانیوں میں مبتلا ہوتا ہے ،اس لئےسکون کے حصول اور جنت پانے کے لئےاحکام شریعت ،حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خیال رکھنا اشد ضروری ہے ۔ ربّ کو ہماری عبادت کی ضرورت نہیں، اگر ایسا ہوتا تو فرشتے اس کے لئے کافی تھے ۔ انسان کو بطور آزمائش یہاں پہ رکھا گیا اور یہاں یہ آزمائش مختلف صورتوں میں ہو سکتی ہے ۔وہ کسی حاجت مند انسان کی مدد بھی ہو سکتی ہے ، کسی مصیبت میں مبتلا شخص کو پریشانی سے چھٹکارا دلانا بھی ہو سکتا ہے ۔ لہٰذا ایک انسان کو یہ دیکھنا چاہئے کہ زندگی کے تمام شعبہ جات میں کیا وہ اپنا کام بخوبی انجام دے رہا ہے اورانسانیت کے لئے وہ کیا کچھ کر رہا ہے؟ہاں!مال والے کو متکبر نہیں ہونا چاہیے، اگر اس کے دل میں تھوڑا بھی غرور آیا،تو اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل و خوار کر کے چھوڑ دے گا ۔
معاشرے میں اس وقت برائیاں عروج پر ہیں ۔ ایسی ایسی بیماریاں پنپنے لگی کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور وہ بھی محض حسد کی بنیاد پر۔ ایک کی خوشی دوسرے کے لئے ناقابل برداشت بن گئی ہے ، کس کا بخت اچھا ہو تو دوسرے کو گوارا نہیں ، گویا بد اخلاقی کا ایک ایسا دورہ چل رہا ہے جہاں ہر اچھا انسان خود کو نا مراد محسوس کر رہا ہے،جب کہ ہمیں اسلام نے حسن خلق کا درس دیاہے، کیونکہ ہمارا اسوۂ حسنہ کوئی عام انسان نہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے ،جس کے بارے میں قرآن نے گواہی دی کہ وہ حسن اخلاق کے اعلیٰ مرتبے پر فائز تھے ۔لیکن آج کل اُمتِ مسلمہ کا یہ حال کہ جہاں بد کرداری ،بد فعلی، بد اخلاقی عروج پر ہے وہیں جادوگری نے انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر رکھا ہے۔ ہر اچھے انسان سے لوگ حسد کی آگ میں جلتے رہتےہیں ۔ کسی سے ایک دوسرے کی خوشی دیکھی نہیں جاتی ۔ اگر رب ّنے کسی میں کوئی خاص صلاحیت پیوست کر رکھی یا کسی اور نعمت سےنوازا تو اس میں ایک انسان کوبحیثیت انسان خوش ہونا چاہیے اور ربّ سے دعا کرنی چاہیے کہ مجھے بھی ان نعمتوں سے لیس فرما، برعکس اس کے ہم حسد کی بنیاد پہ سحرگری شروع کردیتے ہیں، اگر ہم اپنی نیت دوسروں کے تئیں درست کر دیں تو ربّ ہمیں ضرور نعم البدل فراہم کرے گا۔
انسان کو متکبر ہونا ہی نہیں چاہیے اور نہ احسان جتانے والا ۔ بعض لوگ جن کو ربّ نے دولت سے نوازا، وہ قارون بن چکے ہیںاور فرعون کی طرح خود کو خدا سمجھ بیٹھے ہیں۔جبکہ غریب رعایا ظلم کے پھندوں میں پھنسی ہوئی ہیں اور انسانیت تڑپ تڑپ کے زندگی گزار رہی ہے ۔ انسان میں دردِ دل رکھا گیا اور جب وہ دنیا کے فتنوں میں اُلجھ گیا تو ربّ کے احکام کو بھول کر دوسروں پہ رحم کرنا بھی بھول گیا ۔ دردِ دل انسان اور انسانیت کی نشانی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے سکھ دُکھ میں شریک ہوجائے ، بالخصوص انسانیت کی توقیر برقرار رکھیں ۔ اپنے انسان ہونے کو نہ بھولیں ، چھوٹا،بڑا اور غریب کو دیکھ کر رحم و توقیر کو بھول نہ جائیں کیونکہ حقوق کو سلب کرنے والا ظالم کہلایا جائے گا اور ظالم جنت نہیں پا سکتا اور اللہ کی رحمت سے بھی اس کو محرومی ہوگی ۔ انسان اور حیوان میں یہی چیز تمیز کرواتی ہے کہ انسان کے اندر رحم کرنے والا دل اور سوچنے والا دماغ رکھا گیا ہے جس کی بدولت وہ حقوق کو پامال کرنے کے بجائے بحالی کرے گا ۔ ورنہ نہ ڈگریاں آپ کے اندر کے انسان کو جگا دے گی اور نہ ہی دولت ۔ عصری علوم جو کہ ضرورت زیست بن گیا ،وہ اخلاقیات کا درس آپ کو فراہم نہیں کر سکتی، بس تحقیق کی بنیاد پہ ثبوت دیتا اور علم میں اضافہ کرتا ہے لیکن انسانیت اور اس کی وجاہت اسلام کے ماسوا کہیں نظر نہیں آسکتی کہ جتنی آسان زندگی ربّ نے ہمیں کتابِ زندگی میں فراہم کی وہ بس اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے مثل نہ کوئی کتاب ہے اور نہ ہوگی جو مکمل ضابط حیات ہے ۔ لہٰذا بحیثیت انسان ہمیں انسانیت کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ مجبور روحیں مجروح نہ ہو جائیں ۔ اس کے لئے ہمیں بے بسوں ،بے سہارا ،دردمندوں اور ضعیفوں کے کام آنا ہوگا تاکہ بروزِ محشر کوئی ہمارا گریباں پکڑے نہیں ۔ انسان کو آخر میں اپنے اصل کے ساتھ ملنا ہوگا، اسی لئے ایک دوسرے کے تئیں محبت، اخوت اور بھائی چارہ قائم رکھنا چاہیے ،اگر کوئی مصیبت کا مارا ہو تو اس کے لئے درد مند دل کو جگا دیں اور اپنے اسوہ حسنہ کو دیکھیں کہ انہوں نے لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا ۔ اور مومن کو جسم واحد کی مانند کہا گیا ،اگر ایک اعضاء میں تکلیف ہو تو پورا بدن محسوس کرتا ہے ۔اسی طرح اگر کسی مسلمان بھائی کو معاونت کی ضرورت ہو تو ہم پہ لازم آتا ہے کہ ہم انسانیت کی توقیر برقرار رکھنے کے لیے اس کو مدد کریں ۔ پھر اللہ تعالیٰ بھی ہماری
ان کاوشیوں کو اپنے دربار میں قابل قبول فرما کر قیامت والے دن ہم پہ اپنی رحمت کا سایہ عطا فرما دے گا، ان شاء اللہ ۔ بس درد مند دل کو جگانے کی ضروت ہے ۔
[email protected]