فکرو ادراک
ساحل جہانگیر میر
وادی کشمیر اپنی قدرتی خوبصورتی، سرسبز و شاداب پہاڑوں اور گھنے جنگلات کے باعث دنیا بھر میں شہرت رکھتی ہے۔ یہ وادی نہ صرف اپنے دلکش مناظر کے لیے معروف ہے بلکہ یہاں کے درخت، جنگلات اور سبزہ زار ماحولیاتی توازن کو قائم رکھنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے درختوں کی بے دریغ کٹائی، بے ہنگم تعمیرات اور انسانی مداخلت کے باعث ماحولیات کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ انہی مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ لینڈ سلائیڈنگ یعنی زمینی کھسکاؤ ہے جو آئے دن بڑھتا جا رہا ہے۔
درختوں کی کٹائی اور ماحولیاتی نقصان:
درخت زمین کو مضبوطی سے تھامنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی جڑیں مٹی کو باندھ کر رکھتی ہیں اور بارش کے پانی کو جذب کر کے زمینی کٹاؤ کو روکتی ہیں۔ لیکن جب ان درختوں کو بے دریغ کاٹا جاتا ہے تو زمین کمزور ہو جاتی ہے اور بارش کے چند قطروں سے بھی مٹی بہہ جاتی ہے۔ یہی صورتحال پہاڑی علاقوں میں زیادہ سنگین ہوتی ہے جہاں ڈھلوان پر موجود درختوں کی جڑیں زمین کو سہارا دیتی ہیں۔ ان کے ختم ہونے کے بعد زمین کھسکنے لگتی ہے جس کے نتیجے میں بڑے بڑے لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات سامنے آتے ہیں۔کشمیر میں لکڑی کی ضرورت، بے قابو تعمیرات، سڑکوں کی توسیع اور غیر قانونی کٹائی نے جنگلات کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق وادی کے کئی علاقوں میں جنگلات کا بڑا حصہ گزشتہ دو دہائیوں میں تباہ ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بارش اور برفباری کے بعد لینڈ سلائیڈنگ معمول بن چکا ہے۔
لینڈ سلائیڈنگ کے نقصانات :
لینڈ سلائیڈنگ کے نقصانات صرف زمین کے کھسکنے تک محدود نہیں رہتے بلکہ اس کے اثرات انسانی زندگی پر بھی بہت گہرے ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا نقصان انسانی جانوں کا ضیاع ہے۔ ہر سال درجنوں افراد اس قدرتی آفت کی نذر ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھروں کی تباہی، سڑکوں کا بند ہونا، کھیتوں اور باغات کا برباد ہونا، مویشیوں کا ہلاک ہونا اور لوگوں کا بے گھر ہونا بھی لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں سامنے آتا ہے۔
وادی کے کئی دیہات ایسے ہیں جہاں لینڈ سلائیڈنگ کے باعث لوگوں کو اپنی زمینیں اور مکان چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف ہجرت کرنی پڑی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ سیاحت پر بھی براہِ راست اثر انداز ہو رہا ہے کیونکہ سڑکیں بند ہونے سے سیاحوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سیاحتی شعبہ متاثر ہوتا ہے جو کشمیر کی معیشت کا اہم حصہ ہے۔
ماہرین کی رائے :
ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ اگر فوری طور پر درختوں کی کٹائی کو نہ روکا گیا تو آنے والے برسوں میں وادی کو شدید ماحولیاتی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ درخت نہ صرف زمینی کھسکاؤ کو روکتے ہیں بلکہ فضائی آلودگی کو کم کرتے ہیں، گلوبل وارمنگ کے اثرات کو کم کرنے میں مددگار ہیں اور جنگلی حیات کے لیے پناہ گاہ فراہم کرتے ہیں۔ لیکن درختوں کی اندھا دھند کٹائی ماحولیاتی توازن کو برباد کر رہی ہے۔
حکومت اور عوام کی ذمہ داری :
اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی آگے آنا ہوگا۔ سب سے پہلے غیر قانونی درختوں کی کٹائی پر سختی سے پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ جنگلات کے نئے علاقے قائم کرنے اور بڑے پیمانے پر شجر کاری مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ سڑکوں اور دیگر تعمیراتی منصوبوں میں ماحولیاتی تقاضوں کو مدنظر رکھنا لازمی ہے تاکہ قدرتی توازن برقرار رہے۔عوام کو بھی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ لکڑی کا بے جا استعمال کم کرنا، شجر کاری میں حصہ لینا، زمین کے قدرتی وسائل کو نقصان نہ پہنچانا اور جنگلات کی حفاظت کرنا ہر شہری کا فرض ہے۔
نتیجہ :درخت زمین کا زیور ہیں، یہ فضا کو صاف کرتے ہیں، زمین کو سہارا دیتے ہیں اور انسانی زندگی کو سہل بناتے ہیں۔ لیکن جب یہ درخت ختم ہو جائیں تو زمین کمزور ہو جاتی ہے اور لینڈ سلائیڈنگ جیسی آفات جنم لیتی ہیں۔ وادی کشمیر کے عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ درختوں کی کٹائی صرف آج کی ضرورت پوری کرتی ہے مگر آنے والی نسلوں کے لیے تباہی لے کر آتی ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سب مل کر اس تباہی کو روکنے کے لیے قدم اٹھائیں۔ اگر ہم نے آج درخت بچائے تو کل ہماری زمین، ہماری بستیاں اور ہماری زندگیاں محفوظ ہوں گی۔ لیکن اگر یہ لاپرواہی جاری رہی تو مستقبل میں وادی کی خوبصورتی اور امن و سکون محض ایک کہانی بن کر رہ جائے گا۔
(مضمون نگار،ماحولیاتی محقق، کہانی کارہیںاور کرالہ پورہ سرینگر سے تعلق رکھتے ہیں)
رابطہ۔ 9086707465