ادبی رسالہ
ڈاکٹرجوہرؔ قدوسی
یہ بات اب پرانی ہوچکی کہ اطلاعاتی ا ور مواصلاتی ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی کے باعث گزشتہ صدی کے اوآخر میں ہماری دنیا ایک مختصر سے عالمی گاؤں میں تبدیل ہوگئی،جس کو گلوبل ولیج کا نام دیا گیا ۔چنانچہ اس نئے انقلاب کی بدولت دنیا کے کسی بھی حصے میں ہونے والا واقعہ یا سانحہ پلک جھپکتے ہی لمحہ بھر میں دنیا کے کونے کونے میں ہر زبان میں پہنچ جاتا ہے ۔ٹیکنالوجی کی اس انقلابی جہت نے روایتی صحافت کی بنیادیں ہلاکر رکھ دیںاور صحافت کی دنیا میںمنجملہ دیگر تبدیلیوں کے’ڈیجیٹل میڈیا،’ڈیجیٹل جرنلزم‘ ،’ آن لائن صحافت‘،’ای ۔پیپر‘،’ای۔جرنل‘وغیرہ جیسی نئی تراکیب و اصطلاحات رائج ہونے لگیں۔اس نئی پیش رفت کو ابلاغی و مواصلاتی شعبے کی ریڑھ کی ہڈی کا درجہ حاصل ہوگیا ۔چنانچہ آج صورتحال یہ ہے کہ ڈیجیٹل جرنلزم یا آن لائن صحافت کی پوری دنیا میں دھوم مچی ہوئی ہے،جس میں دنیا کی دیگر ترقی یافتہ زبانوں کے شانہ بہ شانہ اردو زبان بھی شامل ہے ۔شاید ہی کوئی اردو اخبار یا رسالہ ہوگا جو اپنے پرنٹ ایڈیشن کے ساتھ ساتھ ویب ایڈیشن دستیاب نہ رکھتا ہو۔بلکہ اب تو متعدد رسائل و جرائد صرف اپنا انٹرنیٹ ایڈیشن یا ’ای ۔جرنل‘ہی شائع کرتے ہیں اور پرنٹ ایڈیشن بند کرنے کا سلسلہ پہلے ہی شروع کرچکے ہیں۔ان میں کئی ادبی رسائل بالخصوص ریسرچ جرنل بھی شامل ہیں،جس سے اردو کی ادبی صحافت نےایک نئی جست اور جہت طے کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ آن لائن صحافت کی ڈھیر ساری خصوصیات میں سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر مطلوبہ مواد کی فوری تلاش اورتصویر وعکس کے بجائے تحریرومتن کی صورت میںاِس کی دستیابی بہت ممکن اور آسان ہوگئی ہے ۔
ادبی صحافت پراکیسویں صدی کی پہلی دو دہائیوں اور تیسری رواں دہائی میں تیزی سے اُبھرکر ترقی پانے والے ان جدید ترین رجحانات اوروسائل و ذرائع کے زود رس اور دوررس اثرات سے ترتیب و تشکیل پذیر ہونے والے نئے منظرنامے کے تناظر میں جموں و کشمیر کی جدید اردو ادبی صحافت کا جائزہ لیا جائےتو کئی تلخ و شیریں تاریخی حقائق سامنے آتے ہیں۔ برصغیر کے دیگر خطوں سے موازنہ کیا جائے تو یہ بات کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ جموں و کشمیر میں ادبی صحافت کی کوئی توانا،پائیدار اور مستحکم روایت نہیں ہے۔اگرچہ ادبی رسائل و جرائد کے وجود سے انکار کی گنجائش نہیں ہے،لیکن ایسے رسائل کی تعداد اور تعدادِ اشاعت (Circulation) ہر دور میں اتنی کم رہی ہے کہ عام اردو قارئین شاید ہی ان میں سے بیشتر کے نام سےواقف ہوں گے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ بہت پہلے پروفیسرعبدالقادر سروری مرحوم نے ایک بڑی وجہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’کشمیر میں اخباری صحافت کی جیسی گہماگہمی رہی،ادبی صحافت سے ایسی دلچسہی نہیں رہی۔اس کا بڑا سبب یہ تھا کہ ہفت روزہ اخبار اور روز ناموں کے ادبی ایڈیشن اس کمی کو پورا کرتے تھے۔ایک اور وجہ بھی تھی(کہ) کالجوں اور بعض سکولوں کی جانب سے بھی میقاتی رسالے ہوتے تھے اور ان سے پرھے لکھے اصحاب کے ذوق ِ انشاء کی تسکین ہوجاتی تھی۔‘‘سوال یہ ہے کہ ہر خطے کے اُردو روزنامے اور ہفتہ وار اخبارات ادبیات کے لیے خصوصی گوشے شائع کرتے رہتے ہیں،لیکن اس کے باوجود اُن خطوں میں ادبی رسائل وجرائد اچھی خاصی تعداد میں شائع بھی ہوتے ہیں اور پڑھے بھی جاتے ہیں۔ ایساکیوں ہے؟دراصل خطۂ جموں و کشمیر میں اُردو ادبی رسائل و جرائد کی کمیابی ایک حقیقت ہے،لیکن اس کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے،بلکہ کئی وجوہات ہیں۔ ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کشمیر میں خالص ادبی رسالوں کے لیے کوئی مارکیٹ نہیں۔ چونکہ یہاںسے شائع ہونے والے اردو اخبارات و جرائد صرف کشمیر اور جموں صوبوں ہی میں فروخت ہوتے ہیں اور باہر کے اردو جرائد کی طرح ملک بھر میں تقسیم نہیں ہوتے، اس لیے ان کی اشاعت کا محدود ہونا یا مسلسل خسارے پر چلنا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ یہاں کے ادبی رسائل کوپڑھنے والوں کے ساتھ ساتھ لکھنے والوں کی کمی کا بھی سامنا ہے۔بازار سے ادبی رسائل خرید کر پڑھنے کا رجحان مفقودہے اور ادبی رسائل کے ساتھ یہ رویہ ہمارے عام قلمکاروں کا بھی ہے ۔ یہی وہ چند وجوہات ہیں کہ ۱۹۴۷ء کے بعدہمارے خطے میں خالص ادبی نوعیت کے رسائل و جرائداچھی تعداد میں جاری نہیں کیے گئے اور جو شائع ہونے لگے ،وہ بھی خاطر خواہ پذیرائی نہ ملنے کے باعث جلد ہی بند ہوگئے۔نتیجہ یہ ہے کہ ایسے ادبی رسائل و جرائد کی تعداد نہایت قلیل ہے،جو باقاعدگی سے شائع ہوتے رہے ہیں یا آج ہورہے ہیں۔
فی زمانہ جموں و کشمیر کے ادبی و شعری حلقوں میں جو رسائل معروف ہیں، ان میںادبی رسالہ ’’نگینہ انٹرنیشنل‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔یہاں پر اسی رسالے کا ذکر کیا جارہا ہےجو اپنی ایک پہچان بنانے میں کامیاب ہوچکا ہے۔اس کے سالنامہ ۲۰۲۴ء(جولائی تا دسمبر۲۰۲۴ء) کی تقریبِ رونمائی آج منعقد ہورہی ہے۔ اس سے قبل۱۸۴ صفحات پر مشتمل ’’ نگینہ انٹرنیشنل ‘‘کا جنوری تا جون ۲۰۲۴ ءکا شمارہ منظرعام پر آچکا ہے،جس میں منثور و منظوم تخلیقات کے ساتھ ساتھ ماضی قریب میں داغِ مفارقت دینے والے پانچ سرکردہ ادباء غلام نبی خیال، فاروق نازکی، راجہ نذر بونیاری، علیم صبا نویدی اور شبیب رضوی کی حیات و خدمات سے متعلق خاص مضامین شامل ہیں۔’تعمیر‘ اور ’شیرازہ‘ کے بعد جموں و کشمیر کا سب سے قدیم ادبی رسالہ ’’نگینہ انٹرنیشنل‘‘ کو قرار دیا جاسکتا ہے،جس کا پہلا شمارہ ۱۹۶۸ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ اُن ہی ایام میں اس کے بانی مدیر وحشی سعید کو اُردو افسانہ نگاری میں شہرت حاصل ہوگئی تھی جو بعد میں بڑھتی ہی گئی، یہاں تک کہ آج اُن کا شمار برصغیر کے معاصر ادبی منظر نامے میں ایک اہم افسانہ نگار کے طور پر ہوتا ہے۔ حال ہی میں ان کی کہانیوں کے کشمیری تراجم پر مبنی دو جلدیں بھی منظر عام پر آگئی ہیں۔ ’نگینہ انٹرنیشنل‘ کی اشاعت ایک طویل عرصے تک معطل رہنے کے بعد ۲۰۱۲ء میں ایک سہ ماہی مجلہ کی شکل میں بحال کی گئی تو شمعِ ادب کے پروانے دور و نزدیک سے اس کے گرویدہ ہوگئے اور بہت کم عرصے میں اس رسالے کو نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ اُردو کی نئی بستیوں میں بھی ادب شناسوں کا تعاون حاصل ہوگیا۔ اس رسالے نے کشمیر میں نامساعد حالات کے باوجود اُردو تخلیق کاروں کے لیے ایک ایک ایسا فعال پلیٹ فارم فراہم کردیا، جس نے اکیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں جموں و کشمیر کے اردو ادبی منظر نامے پر گہرے نقوش ثبت کیے۔ چنانچہ اس رسالے کے ساتھ معاصر کشمیر (یہاں مراد پورا خطّہ ہے) کے کم و بیش تمام نمائندہ ادباء و شعراء کی وابستگی ’’نگینہ‘‘ کو دبستانِ جموں و کشمیر کی نمایندہ آواز تسلیم کرنے کی مضبوط دلیل پیش کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی برصغیر کے معتبر و معروف اہل قلم کا تعاون بھی رسالے کو حاصل ہے۔ وحشی سعید کو یہ اعزاز و امتیاز حاصل ہے کہ اُنہوں نے اپنی کاروباری سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ’’نگینہ انٹرنیشنل‘‘ کے ذریعے یہاں کے تخلیق کاروں کو ساتھ لے کر ادبی سرگرمیوں کے لیے بھی ایک توانا محاذ اور مرکز قائم کرنے میں پہل کی، جس میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی۔ چنانچہ نہ صرف ادبی و تحقیقی مجلہ کے ذریعےبلکہ سرینگر کے بلیوارڈ روڈپر واقع اپنے وسیع و عریض ہوٹل کے کانفرنس ہال (ایوان ادب ،بلیوارڈ روڑ، سرینگر)میں آئے روز منعقدہ ادبی مجالس کے ذریعے بھی وحشی سعید نے ایک الگ دبستان کی بنیاد ڈال دی ہے، جس کو ’’دبستان نگینہ‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ ادب کی خدمت کے لیے اپنی دولت نچھاور کرنے والے اس مردِ قلندر کی کاوشوں سے چار چار اور پانچ پانچ سو صفحات کی معمول کی اشاعتوں میں معاصر شعر و ادب کے اعلیٰ نمونے شائع کرکے ’’نگینہ انٹرنیشنل‘‘ کی ہر عام اشاعت کو دستاویزی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ بڑے سائز کے ۱۲۰۰؍ صفحات پر مشتمل ’’نگینہ‘‘ کے ’’گولڈن جوبلی نمبر‘‘ اور ہم عصر قدآور ادبی شخصیات پر خصوصی گوشوں کے مستقل سلسلے کے بدولت اِس ادبی مجلے کو جموں و کشمیر کی اُردو ادبی صحافت کی تاریخ میں اعلیٰ ترین معیار کے ادبی رسائل میں سرفہرست رکھا جاسکتا ہے۔ نورشاہ جیسی قدآور ادبی شخصیت، جو نصف صدی سے زائد عرصے کاتخلیقی و عملی تجربہ رکھتے ہیں، کی ’’نگینہ‘‘ کی ادارتی مجلس میں سرگرم شمولیت سے اس مجلے کو نہ صرف کشمیربلکہ پورے برصغیر کے ادبی رسائل میں ایک وقارو اعتبار حاصل ہوا ہے۔ اکیسویں صدی کے تناظر میں جموں و کشمیر کے اُردو ادب کی سمت و رفتار کے تعین میں اس ضخیم ادبی رسالے کا یقینی طور پر بڑا اہم حصہ ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔