جب کبھی ہمارے ذہن میں سفائی ستھرائی پر مامور کسی شخص کا ہیولیٰ یا زبان پر نام آتا ہے، تو نہ جانے ہمارے ذہن میں کیوںپستی اور ذلت کے عجیب و غریب نقوش اور خیالات اُبھرنے لگتے ہیںاور حقارت آمیز ترنگیں اپنے آپ ہی دل و دماغ کے ترسیلی سٹیشن سے پیدا ہونے لگتی ہیں اور بسااوقات ان ترنگوں کا دباؤ ہماری زبان نہیں جھیل پاتی ہے اور ہمارے منہ سے حقارت آمیز الفاظ خود بخود جاری ہوجاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے روزمرہ کاموں کو خودساختہ معیارات کی بنیاد پر تقسیم کیا ہوا ہے۔ بعض امورات کو عزت و توقیر کے شیش محل کی زینت بنا ئے رکھا ہے اور بعض کاموں کو ذلت و تذلل کے کوڑے دان کے نذر کیا ہوا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ شخصیتوں کو پیشے اور منصب کے ترازو میں تولنے کی ریت سکہ رائج الوقت بنا ہے۔ جب کسی سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ کیا کام کرتے ہیں یا آپ کا پیشہ کیا ہے؟ اس سوال کے پشت پر جوذہنیت کارفرما ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ ایک انسان کی قدرو قیمت کا اندازہ لگایا جائے۔ اگر آپ ایک اعلیٰ منصب پر فائز ہیں تو آپ مرتبے میں بھی اعلیٰ ہیں اور اگر خدانخواستہ آپ کسی ایسے پیشے سے وابستہ ہیںجسے سماج کی کورچشمی حقارت آمیز نظر سے دیکھتی ہے تو آپ کو پست و حقیرہونے سے آپ کی کوئی بھی حسین و جمیل خوبی، کوئی بھی فائدہ مند ہنر اور یہاں تک کہ فرشتہ خصلت ہونا بھی نہیں بچا پاتا ہے۔ معاشرتی سطح پر اس طرح کی منفی سوچ کا ایک منفی اثر یہ ہے کہ جو افراد بظاہر ابتذال یافتہ پیشہ سے وابستہ ہوئے، وہ بھی اپنے آپ کو حریم عزت ِو وقار سے اس قدر دور سمجھتے ہیں کہ اُس تک رسائی ناممکنات میں تصور کرتے ہیں۔ نہیں معلوم یہ منفی سماجی رویہ کتنے اعلیٰ صفت انسانوں سے بھی نفسیاتی اور باطنی طور پر خود کشی کرواتا ہے، بلکہ انہیں زندہ ہی درگور کرواتا ہے ،حالانکہ کہنے کو وہ لوگ ہمارے درمیان چل پھر رہے ہوتے ہیں اور جی رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ بہر صورت ایک انسان سماجی حیوان ہوتاہے۔ سماج کی سوچ اور اپروچ سے متاثر ہونا ہر ایک کے لئے ناگزیر بنتا ہے۔اب اگر کوئی معاشرتی سطح پر رائج کسی نظریہ یا سماجی رویے کو عملی طور پر چلینج کرے تو ماننا پڑے گا کہ وہ فرد بڑی ہمت ِمردانہ اورغیر معمولی قوتِ ارادی اور مدافعانہ صفت سے متصف ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرتی حصار سے ماوراء ایک خاص فکر و نظر کا حامل ہے۔ یقیناً ایسے افراد آج کل کے معاشروں میں آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں۔ لہٰذا کوئی ایسا فرد بشر جہاں کہیں بھی اور جس حالت میں ملے اُسے ایک عظیم دریافت سمجھا جانا چاہیے۔ ایسے مائی کے لال مقلدین کی دنیا میں مجتہدانہ رول ادا کرتے ہیںاور اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ سماج کس چیز کو کس زاویہ ٔنگاہ سے دیکھتا ہے بلکہ ان کا اپنا ایک زاویۂ نگاہ ہوتا ہے جسے اُن کی سوچ اور سوجھ بوجھ کا نرالا پن خود بخود نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔ضروری نہیں ہے کہ ایسے شخض کا تعلق کسی معروف علمی گھرانے، کسی شہرت یافتہ سرمایہ دار خانوادے، منصب و اقتدار پر براجمان کسی آبائی راج پاٹ سے ہو بلکہ وہ غربت کا پروردہ اور شہرت و دولت سے تہی دامن عام انسان بھی ہو سکتا ہے۔عدم توجہی کا شکار کسی ایسے شعبۂ زندگی سے بھی وابستہ ہو سکتا ہے کہ جسے لوگ ہرگز ہرگز اچھی نگاہ سے دیکھنے کے روادار نہ ہوں۔
راقم الحروف بھی ایک ایسی ہی گمنام شخصیت سے واقف ہے کہ جو نہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی ہے اور نہ ہی اس نے کسی خاص شعبے میں بظاہر کوئی خاص اور نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے، نہ یہ صاحب کسی جانے مانے خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔کہنے کو تو وہ بھی ایک حقیر پیشہ (سماج کی نظر میں) سے تعلق رکھتے ہیں لیکن باوجود اس کے کہ پورا سماج اسے پست نظر سے دیکھتا ہے، اُس نے کبھی بھی نہ اپنے آپ کو قعر مذ لت میں پایا اور نہ ہی اپنے پیشے کو حقارت کی نظر سے دیکھا۔ یہ شخص زندگی بھر ایک قلیل معاوضے کے عوض میونسپلٹی میں بحیثیت خاکروب کام کرتا رہا۔ یہاں پر ذرا معاشرتی فکرو نظر کا بھی جائزہ لیجئے۔ میونسپلٹی کا نام سن کر اور پھر اس میں بھی خاکروب (Sweeper) کے پیشے سے وابستہ فرد کے متعلق بات چھڑجائے تو کیا ہم ایک طرح کی گھن محسوس نہیں کرتے اور اُس شخص کوحقیر نظر سے نہیں دیکھتے؟ یوں تو ہم دیگر مذاہب سے وابستہ لوگوں کی چھوت چھات اور ذات پات کے پہلوؤں کو موردِ تنقید ٹھہرانے میں بڑے ہی طاق واقع ہوئے ہیں لیکن کیا ہم نے کبھی خود کو اس حوالے سے ناقدانہ نگاہ سے دیکھا بھی؟اس معاملے میں بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ ہم ’’خود را فصیحت دیگرے را نصیحت‘‘کے سنڈروم((syndrome سے دوچار ہیں۔حق یہ ہے کہ اسلام ذات پات، اونچ نیچ اور پیشے کے اعتبار سے سماجی رتبوں کی تقسیم کا روا دار نہیں اور نہ ان پیمانو ں سے انسان کی قدروقیمت کا تعین کرتا ہے مگر یہ بھی ایک حقیت ہے کہ ہم معاشرتی سطح پر اسلام کے اعلیٰ اخلاقی تعلیمات اور بیش قیمت انسانی اقدار کو پس پشت ڈالتے جارہے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر اور ضمیر کوگواہ بناکر کیا ہم یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ عملی طور پر ہمارا رویہ بھی ذات پات اور چھوت چھات سے سوفی صد مبّرا ہے؟ ایسے میں ایک معمولی پیشہ سے وابستگی کے باوجود ایک شخص کا غیر معمولی ہونا کیسے ثابت کیا جاسکتا ہے؟ مگر جس شخصیت کا ذکر کرنے جارہا ہوں، اس سے منسوب ایک واقعہ ہی یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ معمولی لباس میں بھی کوئی غیر معمولی پیکر چھپا ہوا کرتا ہے بلکہ بے قیمت دکھائی دینے والے خا کی پیکر میں بیش قیمت جوہر پوشیدہ ہوسکتا ہے۔ بظاہر پستی میں لتھڑا ایک شخص کی قد و قامت اس قدر بلند و بالا ہو سکتی ہے کہ اس کے سامنے ہمالیہ کی بلندی بھی پست دکھائی دے۔ سماج کی نظروں میں نیچ کہلانے والاانسان حسن کردار اور بلند خیالات کے پروں میں پنہاں ہوکر عظمت و وقار کے اوجِ ثریا کو چھونے والا ہوسکتاہے۔
واضح رہے یہ شخص میری ذہنی اپچ ویا قیاسی اختراع کا نتیجہ نہیں ہے اور نہ ہی اس صاحب سے منسوب یہ واقعہ کسی افسانے کا حصہ ہے۔ہماری ہی طرح ایک گوشت پوست اور سر پیر رکھنے والا انسان کہ جس کا پیشہ خدمت ِخلق تو ہے لیکن جن لوگوں کی یہ خدمت کرتا ہے وہ کبھی بھی اس کی کارگزاری کو خدمت کے زمرے میں شمار ہی نہیںکرتے ہیںاور اس کی خدمت کا معاوضہ حقارت کی نظر کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔
حقیقت حال یہ ہے کہ نہایت ہی غریب گھرانے میں جنم لینے والا یہ شخص وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام کے ایک نواحی گاؤں ایچھ گام کا باسی علی محمد ہے۔ انہوں نے قریباً دس سال تک میونسپلٹی میں بحیثیت غیر مستقل (ڈیلی ویجر )کام کیا اور ایک قلیل معاوضہ کے باوجود اپنے کام کو عبادت سمجھ کر انجام دیتے رہے۔ جہاں بھی انہیں تعینات کیا گیا، وہاں کے مقامی باشندوں نے انہیں اپنی ڈیوٹی کے تئیں نہایت ہی پابند وباایمان پایا کیونکہ اس نے اپنی ذمہ داری کو کبھی بیگاری سے تعبیر نہیں کیا اور فرض کی انجام دہی میں کسی بھی قسم کی کوتاہی ان سے سرزد نہ ہوئی۔ چنانچہ ان کے بے لوث کام کی رپورٹ ان کے متعلقہ آفسران کی نوٹس میں آگئی، یہی وجہ ہے علی محمد صاحب کو ایک روز اس کے آفسر نے آفس میں بلایا۔ پہلے تو اُس کے ایماندارانہ کام کو سراہا اور پھریہ کہہ کر اس کی عزت افزائی کرنا چاہی :’ علی محمد! تم نے کافی خدمت کی ہے اور اب تمہاری ریٹائر منٹ بھی قریب ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اب میرے ساتھ بحیثیت آڈرلی(Orderly) میرے آفس میں ہی رہو۔ تاکہ سن رسیدگی میں تمہیں تھوڑا سا آرام بھی مل جائے اورتمہاری ایماندارانہ کار گزاری کا تھوڑا سا بدلہ بھی ملے۔ ‘‘مگر علی محمد نے اپنے بڑے صاحب کی اس پیش کش کو یہ کہہ کر ٹھکرایا کہ’’ صاحب !جس کام کو تمام لوگ باعث ننگ و عار سمجھتے ہیں، اُس کو میں عبادت جان کر انجام دیتا رہاہوں۔ آپ مجھے قبل از وقت اس عبادت سے محروم کیوں کرنا چاہتے ہیں؟میں آرام کا طلب گار نہیں ہوں، جب تک جسم میں جان ہے اور ہاتھ پیر سلامت ہے اپنا یہ کام عبادت جان کر کرتا رہوں گا۔‘‘
اس ایک واقعہ کو بنیاد بناکر بجاطور پر کہا جاسکتا ہے کہ جس خودی کی بات علامہ اقبالؒ نے کی تھی، ماہرین اقبالیات اورشیدایانِ اقبال کوعملی میدان میں اُس خودی سے واسطہ پڑے یا نہ پڑے، اگر انہیں سماجی سطح پر اقبالؒ کی خودی کے مظہر کی تلاش و جستجو ہو تو موصوف مذکورہ کی کشمکش بھری زندگی اور خیالات کی جہت کو ایک نظر دیکھ لیں،کیونکہ جس سے بزبان حال پورا معاشرہ مخاطب ہوکہ تیرا کام باعث حقارت اور تیرا وجود بھی حقیراور تمہاری تمام کشمکش وجستجو عبث، وہ پورے معاشرے اور زمانے کو خاطر ہی میں نہ لائے بلکہ عملی طورپر اس بات کا اعلان کرے کہ جس اہم پیشے کو تم ذلت و حقارت کی علامت اور جس پیشہ ور کو تم لوگ تجسیم ذلالت سمجھتے ہو ،وہ پیشہ میری نظر میںجینے کا مادی سہارا نہیں بلکہ عبادت ہے اور اس پیشہ سے وابستہ ہونا زینت ِآدمیت کا حامل بننا ہے۔علی محمد صاحب یقینی طور پر شاعر مشرق کے فلسفہ ٔخودی سے نا بلد ہیںاور اس فلسفہ کے مبادیات تک اُن کی رسائی ممکن نہیں ہے۔وہ اس کے علمی اور عرفانی پیچ وخم پر علمی درک حاصل نہیں کر سکتے ہیں،پھر بھی انہوں نے اپنے آپ کو تجسیم خودی بنا کر پیش کیا ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کام چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، اپنی اپنی جگہ پر وہ مستقل بالذات اہمیت کا حامل ہے۔ کسی بھی کام کوکثیریا قلیل معاوضہ کی بنیاد پرپست یااعلیٰ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ بنیادی طور پر ہر شخص صاحبِ عزت و توقیر ہو تو ہر شعبۂ زندگی ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔مادیت کے ترازو میں شخصیات کا وزن دریافت کرنے کا وطیرہ سراسر ظلم ہے۔ بالفرض چند ایک کاموں کو اہم اور چند ایک کاموں کو غیر اہم قرار دیا جائے اور پھر تمام لوگوں کو محض اہم کاموں کی جانب رائج کیا جائے تو کیا وہاں لوگوں کی بھیڑ بھاڑ جمع نہیں ہوگی اور دیگر شعبہ جات خالی نہیں پڑے رہیں گے؟ لہٰذا یہ دیکھنے کے بجائے کہ کون کس منصب پر فائز ہے، دیکھنا یہ ہوگا کہ کون کس طرح اپنی ذمہ داری نبھارہا ہے اور فرض منصبی کو انجام دینے کے پیچھے کون سے محرکات کار فرماہیں۔ اگر آپ اس کسوٹی کواپنائیں گے تو ممکن ہے کہ کچھ پست ذہنیت، بداخلاق، بدکردار افراد اعلیٰ منصبوں پر فائز دکھائی دیں گے اور بظاہر پست امورات پر معمورچند افراد بلند خیالات کے حامل اور سلیم الفطرت سے مزین دکھائی دیں گے۔
اگر نوجوانوں کو محض چند ایک شعبوں کی نشاندہی کر کے یہ بتایا جائے کہ یہی وہ شعبے ہیں کہ جہاں عزت،شہرت، دولت اور عیش و عشرت ان کا انتظار کر رہی ہے۔بالفرض انہیں یہ باور کرایا جائے کہ مختلف قسم کے مسابقتی امتحانات ( exams competitive ) میں انہیں دیگر بہت سارے نوجوانوں کو بچھاڑ کر امتیازی پوزیشن حاصل کرنا ہے، بالفاظ دیگر چند سالوں کی اِنتھک محنت کے ذریعے ایک خاص مقام تک لے آنا ہے اور پھر عیش ہی عیش ہے تو اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ نہایت ہی ذہین، محنتی اور قابل افرادی قوت ایک خاص دائرے میں مقید ہو کے رہ جائے گی اور قابلیت و ذہانت اگر ایک خاص دائرے میں جمع ہو گی توایسے نظام یا معاشرے کی مثال ایک ایسے درخت کی جیسی ہو گی جس کی غذائیت چند ایک شاخوں میں جمع ہو جائے ، جب کہ اس کے بقیہ حصے اس غذائیت سے محروم رہ جائیں۔ سوچئے معاشرے کی متوازن نشوو نما ممکن ہے؟اس لئے نظام ہو یا معاشرے اس کے متوازن نشو نما اور ارتقا ء کے لئے لازمی ہے کہ بجائے اس کے ذہانت و قابلیت اور دیانت داری ایک خاص جگہ جمع ہو جائے ،ہر چھوٹی بڑی سطح پر قابل ،ذہین ،اور دیانت دار افراد کی موجودگی لازم ہے۔دیانت و ذہانت کی ضرورت محض نگرانی پر مامور اوپر والی سطح تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ نچلی سطح اسے ہرگز ہرگز بے نیاز نہیں ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر محکمۂ تعلیم کا سربراہ لائق ،قابل، ذہین اور دیانت دار ہو لیکن اس محکمہ سے وابستہ اکثر و بیشتراساتذہ ان مطلوبہ خصوصیات کے اعتبار سے کورے ہوں ، تو کیا ایسی صورت میں تعلیمی نظام بہتر ہو سکتا ہے؟ کون نہیں جانتا ہے کہ ایک استاد نہ صرف تعلیمی نظام کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ معاشرتی نظام کی بہتری کا دارومدار بھی بہت حد تک اسی کی اہلیت و صلاحیت اور دیانت داری و ایمان داری پر ہوتا ہے۔اسی طرح ہر شعبہ کی بنیاد دراصل وہی افراد ہوتے ہیں کہ جو نچلی سطح پر رہ کر بنیادی کام سر انجام دیتے ہیں۔اس نکتہ کو بہتر طور پر بیان کرنے کے لئے یہاں پر ایک قصہ نقل کرنا سود مند ثابت ہو گا اور وہ یہ ہے کہ ایران کی ایک انقلابی شخصیت محمد علی رجائی جو پیشے کے اعتبار ایک قابل اور دیانت دار اُستاد ر ہ چکے تھے اور انقلاب ِوطن کی خاطر انہوں کافی قربانیاں دی تھیں، انقلاب کے بعد انہیں ایران کاوزیر تعلیم بنایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک روز ان کے پاس ایک اُستاد جو غالباً اس کا قریبی رشتہ دار بھی تھا ،آ کے کہنے لگا کہ ’’جس طرح بھی ممکن ہو میرا تبادلہ موجودہ جائے، تعیناتی سے ایک مطلوبہ جگہ کرا دیجئے۔‘‘ محمد علی رجائی نے اس اُستاد سے کہا :’’ میںآپ کو دوسری مرتبہ کہہ رہا ہوں کہ ضابطے کے مطابق آپ کا تبادلہ فی الحال نہیں کیا جا سکتا ہے ‘‘یہ سن کر اُستاد کافی طیش میں آگیا اور رجائی سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’’جی چاہتا ہے کہ میں ایک بندوق لاکر گولی سے آپ کا بیجا باہر نکال دوں‘‘محمد علی رجائی نے نہایت ہی حلیمانہ انداز میں جواب دیا:’’ایک لمحے کے لئے میں یہ سوچ کر خوف زدہ ہو گیا کہ شاید آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ میں گولی سے اپنے آپ کا خاتمہ کر لوں ۔ میں نے سوچا اگر آپ ایسا یعنی خود کشی کر لیں گے تو میں ان بچوں کے بارے میں جواب دہ ہوں گاجو بچے اپنے اُستا د سے محروم ہو جائیں گے۔‘‘اس کے بعد محمد علی رجائی نے اس اُستاد سے نہات ہی نرم لہجے میںایک عظیم کہہ دی:’’میرے بھائی! اگر آپ مجھے مارو گے تو مجھ حقیر کے مرنے سے کوئی بڑا خلاء پیدا نہ ہو گا،کیونکہ تعلیمی نظام میں وزیر تعلیم کا رول اُستاد کی نسبت کچھ بھی نہیں ہو تا ہے ۔وزیر تعلیم بہت ملیں گے۔جسے کہا جائے وہ یہ منصب سنبھال لے گا لیکن ایک اُستادکے لئے جو اہلیت و صلاحیت اور سوز و گداز چاہئے وہ تو خال خال ہی کسی میں نظر آئے گا۔اس لحاظ سے آپ کا منصب میرے منصب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے‘‘.اسی لئے کہا گیا ہے ؎
افراد کے ہاتھوں میں ہے قوموں کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
cell no: 7006889184