عہد جدید اپنی تمام تر مادی اور سائنسی ترقی کے ساتھ آگے کی جانب گامزن ہے۔ انسانی فکر اور ساینسئی علوم میں وسعت ، پھیلائو، کشش اور قوت میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو جا رہا ہے اور انسان سورج کی شعاعوں اور فضائے بسیط کی گزر گاہوں سے آگے نئی منزلوں اور نئے راستوں کی تلاش میں سرگرم عمل ہے۔ مریخ و مُشتری پر بستیاں آباد کرنے اور خلا کی پہنائیوں میں خیابان و گلستان سجانے کے منصوبے انسان کے ذہن میں متشکل ہو رہے ہیں، اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آنے والے سال انسانی تخلیقات کے اعتبار سے حیران کُن بھی ہو ں گے اور اطمینان بخش بھی،لیکن اس ہمہ گیر ترقی اور زبردست پیش رفت کے باوجود انسان کو ہر زمانے میں روحانی اقدار اور اخلاقی تربیت کی ضرورت پڑی ہے۔ یہ تربیت سائینس کی تجربہ گاہوں ، اور علوم ِ جدیدہ کی دانش گاہوں میں آج مفقود بھی ہے اور آئندہ بھی اس کے موجود ہونے کے بہت کم امکانات نظر آتے ہیں ۔علامہ اقبال کی نظر میں جدید تعلیمی مراکز انسان کو عصری علوم کی باریکیوں اور دانشوری کی نزاکتوں سے بہرہ ور تو کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے انسانیت کے ارفع مقام سے گرا کر حیوانوں کی صف میں اور سفلی جذبات کی رو میں بہا کر لے جاتے ہیں ؎
علم اگر کج فطرت و بدگو ہر است
پیش ِ چشم ، حجاب اکبر است
گذشتہ صدی نے اردو اور فارسی شاعری میں چند بہت ہی بلند مرتبہ شعراء کو جنم دیا ، جن کی طاقتور فکر نے شاعری کارخ پلٹ دیا اور شعر کے بارے میں روایتی نقطئہ نظر کلی طور بدل کر رہ گیا۔ گذشتہ صدی کی انہی توانا شعری آوازوں میں اقبالؒ کی آواز سب سے موثّر اور طاقتور ثابت ہوئی۔ ان کے کلام میں متنوع دھارے ملتے ہیں جن میں قومی نظموں کا ابتدائی دور بھی ہے اور فطرت کے مظاہر سے بے پناہ خواہش کا اظہار بھی۔ انگریزی ادب کے اثرات اور المانوی تہذیب کے مثبت پہلو بھی۔ تاہم شعری سفر کی ابتدا میں ہی مذہبی حسیت کی لہریں شعری آگاہی کی سطح پر آسانی سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ شعر و ادب میں یہ مسئلہ کافی اہمیت رکھتا ہے کہ فن کی سطح پر کس طرح عرفان ِ ذات انسان اور کائنات کے مسائل کو پیش کیا جائے۔ جدید شاعری میں تخلیق کار کی وابستگی ، ترسیل کی ناکامی اور بیانات کے تفاوت و تضاد اور دوسرے گوشوں پر گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ لیکن موجودہ عہد کے ناقدوں کے ایک بڑے گروں کا یہ اصرار ہے کہ شاعری کو صرف علامتوں ہی کے ذریعے برتا جائے ، شعر کے مختلف رنگ و روپ سے چشم پوشی کرنے کے برابر ہے۔
اقبال ؒ کے فکری سفر کا محور جہان ِنو کی تلاش تھی ۔ ان کے خیال میں زمانے کے دامن میں تغیّر و تبدل کو ثبات حاصل ہے۔ ان کا نقطئہ نظر احیاء پرستی کا ترجمان نہیں بلکہ تازہ بستیوں کے احساس کا داعی و نقیب ہے ؎
کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
میری نگاہ نہیں سوئے کو فہ و بغداد
اقبال ؒ نے قصہ قدیم و جدید کے فرق کو احسن طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے اور اس پر ایک مخصوص انداز سے نکتہ چینی کی ہے انہوں نے تصوّر خودی کے ذریعے ایک فعال شخصیت کا خواب دیکھا ۔ اقبالؒ کی تخلیقی فکر محدود نہیں ہو جاتی ہے، بلکہ وہ وسیع تر سطح پر ہرمکتبئہ فکر کے لئے سر چشمئہ تحریک رہتی ہے۔ اقبالؒ فکر کے مقابلے میں سر سیّد کی تحریک کا دائرہ کار محدوعد رہا ہے ۔ سر سید کی فکر ہندوستان تک محدود ہو کر رہ گئی، جبکہ اقبال ؒ کے افکار میں آفاقیت (UNIVERSALISM)کی وسعت دکھائی دیتی ہے ۔ فیض احمد فیض اس دور کے بہت بڑے شاعر ہیں ۔ منظوم خراج عقیدت جب اقبال ؒ کے حضور میں پیش کرتے ہیں تو وہ اقبال ؒ کو ایک ’’خوش نوا فقیر‘‘اور اس کے گیت کودلوںمیں اترنے والا اور اثر انداز ہونے والا قرار دیتے ہیں لیکن فیضؔ نے اپنے نثری خراج عقیدت میں بہت ہی عمدہ باتیں اور حقیقتیں بیان کی ہیں ۔
’’ بہت سی باتیں جن میں محض وہم و گمان کے بل پر لوگ سلوگنز (slogans)کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے، اقبالؒ نے ان کے سوچنے کا ، غور کرنے کا، مشاہدہ کرنے کا ،مطالعہ کرنے کا ، تجزیہ کرنے کا، استنبات کرنے کا، اور سارے ذہنی پروسس(process) سے گزر جانے کا ڈھنگ سکھایا ، صرف خاص کو ہی نہیں بلکہ عوام کو بھی ، اقبالؒ نے لوگوں کے ذہن کو ان اثرات سے ایک حد تک آزاد کرنے میں امداد دی جو غلامی کے سبب پیدا ہوگئے تھے۔ ان کا آخری دور جو ان کی پختگی کا دور ہے جبکہ وہ انسانیت اور جملہ کائنات کے بارے میں اپنے افکار کا اظہار کرتے ہیں۔ آفاقی طریقہ سے سوچنے کا سلیقہ ہمارے ہاں اقبالؒ نے پیدا کیا۔ اس سے پہلے شعر یا تو تفریحی چیز سمجھی جاتی تھی یا غنائیہ سی چیز تصّور کی جاتی تھی۔ شعر میں فکر اور شعر میں حکمت اور سعر میں وہ عظمتیں جن کو ہم شاعروں سے نہیں، فلاسفروں سے متعلق کرتے ہیں وہ محض اقبالؒکی وجہ سے ہمارے یہاں پیدا ہوئی ہے۔ اقبالؒ کی مثال ہمارے ہاں ایک ندی یا ایک نہر کی سی نہیں ہے جو کہ ایک ہی سمت میں جا رہی ہو، بلکہ ان کی مثال سمندر کی سی ہے جو چاروں طرف محیط ہے۔ ‘‘
موجودہ عہد جس کی تیز تر مادی اور مشینی ترقی کا ابتدائی سطور میں ذکر ہوا ، اس عہد یا اس صدی میں اقبالؒ کے انسانی اور آفاقی فکر کی افادیت اور معنوویت کیا ہے تو اس سلسلے میں پہلی بات واضح رہے کہ اقبالؒ کے افکار کلی طور ان کے اپنے نہیں ہیں بلکہ ان کا حقیقی منبع وہ عظیم آسمانی ، روحانی اور قرآنی تعلیمات ہیں جن کا وہ بار بار مختلف پیرایوں میں برملا اظہار کرتے ہیں وہ اپنے دل کی آواز اور ضمیر کی خلوتوں میں ابھرنے والے جذبے کو چپھاتے نہیں بلکہ دو ٹوک لفظوں میں وضاحت کرتے ہیں کہ قران کے بغیر ان کا فکر ، شعر، فہم اور ’حرف‘بے معنی ہے ، و ہ اللہ کے اس آخری پیگام کی روشنی میں انسانی دنیا کے مسائل و مصائب کا حل ڈھونڈتے اور انسانی قدروں کی بالا دستی کے لئے انسانیت کے خیر خواہوں کے افکار سے خوشہ چینی کرتے ہیں۔ اقبالؒ کے فکر کا دوسرا اہم سر چشمہ سیرت نبویؐہے۔ جس کی شفافیت اور صلابت کا اعتراف ہر مسلم و غیر مسلم کو ہے۔ اقبالؒ اپنے فکر کو اسی سر چشمئہ ہدایت سے فیض یاب کر کے دنیا پر اس کی عنایتوں ، برکتوں اور نوازشوں کا شاعرانہ اور فلسفیانہ دونوں حیثیتوں میں ذکر کرتے ہیں اور موجودہ عہد پریہ بات علی الاعلان واضح کرتے ہیں کہ پیغمبراسلام سے وفاداری ایمان کی علامت اور لوح و قلم پر گرفت حاصل کرنے کی شرط ہے ؎
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیزہے کیا؟ لوح و قلم تیرے ہیں
می توانی منکر یزداں شدم
منکر از شانِ نبی ؐ نتوان شدن
عصر حاضرنے بہت سارے نظریات دنیا کے سامنے پیش کئے ہیں ۔ اقتصادی ، سماجی، معاشی اور سیا سی فلاح و صلاح کے نئے نئے نقطئہ ہائے نظر اور مسالک فکر اپنے مثبت اور منفی رویوں کے ساتھ پیش ہو رہے ہیں،۔ مگر تجربہ بتا رہا ہے کہ اپنی کج روی ، بد گوہری ، بے ضمیری اور حوس رانی کے نتیجے میں یہ نظریات وقت کی رفتار کے ساتھ اپنی معنوویت کھوتے رہے۔ ان کا کھوکھلا، روس، البانیہ، چیکوسلاوکیہ، پولینڈ اور دیگر ممالک میں لوگوں کے سامنے اپنی اصل صورت میں اآگیا اور اقبالؒ کے نزدیک روس اور امریکہ انسانی زندگی کو خروج و خراج کے بغیر کچھ دینے سے قاصر رہے اور انسان ان دو پتھروں (ملکوں ) کے درمیان شیشے کی مانندچکنہ چور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔؎
زندگی ایں را خروج آں را خراج
درمیاں ایں دو سنگ آدم زجاج
اقبالؒ
انسانی دنیا میں اس وقت بچشم خود امریکہ کی صیہونی اور سامراجی ذہنیت کا نظارہ کر رہی ہے۔ توسیع پسندی اورجارہیت کے نشے میں افغانستان ، عراق ، شام اور ایران کے ساتھ امریکی جارہیت اپنے نقطئہ عرج پر آ پہنچی ہیاور دیگر اقوام کو امریکہ اور اس کے حلیف تر نوالا سمجھ کر ہڈپ کر نے اور پامال کرنے کے سارے منصوبے ترتیب دے چکے ہیں ۔ اقبالؒ کے خیال میں کفر ایک متّحدہ قوت اور وفاق بن کر مسلم تہذیب اور ثقافت کو ختم کرنے میں اپنی عافیت و صیانت محسوس کرتا ہے اور اس کرب ناک صورت حال میں فکر اقبال ؒ یکجہتی اور مسلم برادری میں یک رنگی و یکسوئی کی تحریک دیتے ہوئے یہ عالم گیر ملی نغمہ سناتا ہے ؎
ایک ہوں مسلم حرم کی پاس بانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر
زمانہ کہنہ بُتاں را ہزار بارآراست
من از حرم نہ گزشتم کہ پختہ بنیاد است
فکر اقبالؒ ایک ایسے سمندر کی مانند ہے جس کی گہرائی میں شعور ، علم ، تجربہ، دردمندی اور سوز وگداز کے ان گنت خزانے ہیں۔ جب بھی ایک سنجیدہ کاری اس سمندر میں غوطہ خوری کرتا ہے تو نئے گہر اور نئے صدف اس کے ہاتھ آجاتے ہیں یہ وہ بحر نا پیدا کنار ہے جس میں صدیوں کے وسیع مدت پرپھیلے ہوئے مد وجزر ہیں، تلاطم اور امواج کا ارتفاع ہے ۔ کلام اقبالؒ کو بنظر ِ غائر پڑھ کے کبھی کھباریہ احساس ہوتا ہے کہ ایک شخص جو اپنی ذات میں ایک انجمن ہے، حیات و کائنات کے کتنے سر بستہ رازوں ہمیں شریک بناتا ہے، فلسفہ کی سطح پر اقدار کی گفتگو ہے ، کلام کے توسل سے جزبات کی ایک بسیط فزا رقصاں ہے۔ مکاتیب اور شزرات کے تناظر میں جزئیات کے دفتر ہیں اور پھر شعر کو بہانا بنا کر ناقۂ بے زمام کو منزل مقصود تک لے جانے کی ایک مسلسل تڑپ ہے ؎
نغمہ کجا ومن کجاساز سخن بہانہ ایست
سوئے قطار می کشم ناقۂ بے ضمام را
بیسویں صدی میں ابھرنے والی اقبالؒ کی متحرک توانا اورتا بندہ فکری شخصیت اکیسویں صدی کے پُر آشوب عالمی منظر نامے میں زبردست معنوویت رکھتی ہے۔ یہ شخصیت اور یہ فکری وجود موجودہ صدی کو سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی بالا دستی اور اقوام عالم پر ظلم و تشدد ، حق تلفی اور نا انصافی کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے انسانی اخوت، احترام آدمیت، متوازن تقسیم دولت ، تزکیہ قلب و ذہن اور ارتفاع اقدار کے عظیم اصولوں کی ترجمانی کا خوشگوار فریضہ انجام دیتا ہے۔ان کا فکر محکوم و مظلوم انسانوں بالخصوص محنت کش طبقہ سے وابستہ لوگوں کو جھنجوڑتا ہے اور انہیں ساحر الموط کے دئے برگِ حشیش کو ترک کرکے اپنی خودی کی شناخت اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی ترکیب دیتا ہے ؎
اُٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو،بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
9797238020