مجنونؔ ؔ گورکھپوری اُردو کے ایک مشہور نقاد تھے جن کا 84 سال کی عمر میں پاکستان میں 1988 میں انتقال ہوا۔ وہ اقبال پر اپنے ایک تنقیدی مضمون میں لکھتے ہیں:
’’ اقبال کی آفاقیت اور لا وطنیت نے ایک دوسرا ناگوار عنوان اختیار کرلیا، یعنی قوم پرستی جس کو ہم عقابیت کہیں گے اور جو ایک قسم کی فاشیت ہے، جس کو اقبال کے تصور میں حجاز نے اپنا تسلط جمالیا تھا۔ اسی طرح عقاب، شاہین، شہباز اور چیتے جیسے سفاک جانوروں نے بھی ان کی فکر وبصیرت میں ایک مرکزی حیثیت اختیار کرلی تھی۔ وہ انسان میں بھی بالخصوص ’’مرد مومن‘‘ میں انہیں پھاڑ کھاجانے والے جانوروں کی خصلت دیکھنا چاہتے ہیں۔ سنئے کتنی لذت لے کر کہتے ہیں ؎
'جو کبوتر میں جھپٹنے میں مزا ہے اے پسر
وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں
ذرا ہم اور آپ تھوڑی دیر کے لئے سوچیں کہ اگر یہ غارت گرانہ میلان عام ہوجائے اور زبردستوں کو زیر دستوں پر یوں ہی جھپٹنے کا معاشرتی اور قانونی حق دیا جائے تو ہماری دنیا کا کیا حال ہوگا؟ ‘‘
میں کوئی ادبی نقاد نہیں ہوں، پھر بھی میں نے اپنی استعداد کے مطابق مجنون گورکھپوری کے اقبال پر ان کے اس 'الزام کا ایک مضمون میں جواب دیا تھا۔ بات یہیں سے شروع کی تھی کہ میں کوئی ادبی نقاد نہیں ہوں تو اس ناکارۂ خلائق کی کیا بساط کہ علامہ اقبالؔ کے شعر کے دفاع میں بات کرسکے! اقبال ہوتے تو مجنون صاحب کی 'مجنونیت کے لئے کوئی نسخہ تجویز فرماتے۔میں نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ جسارت کررہا ہوں کہ اس معاملے میں یہ ناچیز اپنی رائے پیش کرے۔ علامتیت، کنائیت، صرف لٹریچر میں ہی نہیں بلکہ تمام بصری فنون یعنی مصوری وغیرہ کے علاوہ میوزک میں بھی استعمال ہوتی ہے۔روایتی علامتیں ہمیں ایسا رسمی تاثر دیتی ہیں جو ہم میں ان چیزوں کے متعلق مشترکہ رد عمل اُبھارتے ہیں ،جن میں ہماری باہمی شرکت ہو۔ مثال کے طور پر ہلال اسلام کی علامت بن گئی ہے، صلیب عیسائیت کی۔ سرخ جھنڈی خطرے کی اور فاختہ امن کی علامت ہے، وغیرہ وغیرہ۔ تاہم لٹریچر میں علامت کا معنی وہ ہوتا ہے جس کا ایک رائیٹر کسی چیز سے بندھن بنادے۔ شاہین، عقاب، شاہباز کی علامتیں صرف اقبال نے استعمال نہیں کی ہیں بلکہ شاہین کی کچھ خصوصیات کے لئے اسے ماضی میں بھی ہر کلچر اور شعری تخلیقات میں استعمال کیا گیا اور آج بھی کیا جا رہا ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں شاہین کے علاوہ اور بھی کئی علامتوں اور استعاروں کو استعمال کیا ہے، شاہین یا عقاب خاص طور قابل ذکر ہیں۔اقبال کے فرزند ارجمند مرحوم جاوید اقبال نے اس سلسلے میں اپنے والد کے شاہینی تصور کے حوالے سے جو تشریح فرمائی ہے ا،س میں وہ کہتے ہیں :’’علامہ نے نوجوانوں کے لئے شاہین کی اصطلاح استعمال کی ہے یعنی اسے نوجوانوں کے لئے علامت بنایا ہے۔ ان کے نکتہ نگاہ کے مطابق شاہین کی پانچ خصوصیات ہوتی ہیں جو وہ نوجوانوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک اس کی بلند پرواز (ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں)، دوسری اس کی خلوت پسندی یعنی جو خلوت پسند ہو وہ تخلیقی صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے، تیسری خصوصیت یہ کہ شاہین آشیانہ نہیں بناتا، چوتھی خصوصیت تیز نگاہ (یہ بات قابل ذکر ہوگی کہ شاہین ایک میل کی دوری سے اپنے شکار کو دیکھتا ہے)، پانچویں خصوصیت یہ کہ شاہین کسی اور کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا‘‘۔
قارئین کی دلچسپی کے لئے احقر یہاں شاہین کی کچھ اور خصوصیات درج کررہا ہے، وہ یہ کہ اس کی ایک قسم ایسی ہوتی ہے جس کی رفتار تین سو تہتر کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے اور ایک کلو وزن کا یہ جانور چار کلو وزن کے تیتر کا بھی شکار کرتا ہے۔ اس کی پرواز کی رفتار بڑی تیز ہوتی ہے۔ کبوتر اس کا خاص شکار ہے۔ شاہین بدکار نہیں ہوتا کہ کبھی ایک کے ساتھ جفتی کی اور کبھی دوسرے کے ساتھ عیاشی کی بلکہ جسے یہ ایک بار جوڑی بناتے ہیں ،پوری زندگی اسی کے ساتھ نبھاتے ہیں۔ اب اگر دو میں سے کوئی ایک مرگیا تو دوسرا تقریبا ایک ہفتے کے بعد ہی دوسرا ہمسفر چن لیتا ہے۔بہرحال بات ہورہی ہے اقبال کے شعر کے تعلق سے مجنون گورکھپوری صاحب کی تنقید کی۔ اقبال نے اپنی شاعری میں شاہین کا استعمال ایک خاص تناظر یعنی اپنے نظریہ خودی کے حوالے سے کیا ہے۔ میرے خیال میں کوئی دیوانہ ہی ایک ایسے شاعر، جس کا سارا کلام ہی انسان کو انسان بننے اور انسانیت کے درس پر محیط ہو، کی شاعری سے یا اس کے شاہین کی علامت استعمال کرنے سے یہ نتیجہ اخذ کرسکتا ہے کہ وہ لوگوں کو چنگیز اور ہلاکو بننے کی ترغیب دے رہا ہے۔ خیر، مجنون کو کیا جواب دیا جاسکتا ہے!!! پتہ نہیں مجنوں گورکھپوری صاحب کو یہ الہام کہاں سے آیا کہ اقبال اپنے شعر ۔۔۔جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے ۔۔۔ کو حیلہ بنا کر زبردستوں کو زیر دستوں پر جھپٹنے کا معاشرتی اور قانونی حق دینے کی وکالت کررہے ہیں یا نعرہ لگارہے ہیں، جس کے باعث مجنوں صاحب کو یہ فکر لاحق ہوگئی کہ اگر ایسا ہوا تو ان کی لیلیٰ یعنی دنیا کا کیا حال بنے گا؟
اقبال نے ہمیشہ بزدلی سے دور رہنے اور اپنے اندر دلیری پیدا کرنے کی بات کی ہے۔ اگر وہ یہ بات براہ راست بتاتے تو پھر وہ شاعری نہ تھی بلکہ نعرہ بن جاتا یا تقریر کہلائی جاتی۔ چنانچہ انہوں نے اپنی بات کو شعری نفاستوں اور نزاکتوں سے بیان کرنے کے لئے شاہین کی علامت استعمال کی۔ اس کے کبوتر پر جھپٹنے ،پلٹنے اور اپنے لہو کو گرم رکھنے کی آڑ میں یہ تعلیم ہے کہ کرگس اور شاہین تو ایک ساتھ اُڑان بھرتے ہیں مگر کرگس تھوڑا سا اوپر جاکر ہی نیچے کسی مردار کو دیکھتا ہے تو اپنی شکم پرستی میں پرواز بھول جاتا ہے اور زمین پر آتا ہے جب کہ شاہین شکم پرور نہیں ہے، اس کی غرض اونچی پرواز ہے، وہ اگر شکار بھی کرتا ہے تو شکم سیری کے لئے نہیں بلکہ یہ اس کے لئے اپنے لہو کو گرم رکھنے کا بہانہ ہوتا ہے تاکہ اوپر سے اور اوپر، اور بلند سے بلند تر جانے کا اس کا حوصلہ یا حرارت برقرار رہے ؎
تیرا جوہر ہے نوری پاک ہے تو
فروغ دیدہ افلاک ہے تو
ترے صید زبوں فرشتہ وحور
کہ شاہین شہ لولاک ہے تو
اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے ہر شعر کا ہر لفظ گوہر ہے جنہیں اس نے کاغذ پر ٹانک دیا۔ اس کے ہر شعر سے خوشبو پھوٹتی ہے۔ اقبال کے اشعار میں تصوف کی اُڑانیں بھی ہیں مگر ایسی کہ باشعور انسان میں پنکھ لگ جاتے ہیں اور وہ بھی ستاروں سے آگے کے عالم میں پہنچ جاتا ہے۔ اس کی بات میں فلسفہ بھی ہے مگر ایسا نہیں کہ اذہان پیچیدگیوں کے حصار میں پھنس جائیں بلکہ ایسا کہ زندگی کی گتھی سلجھ جائے۔ کیا خوب فرمایا ہے اس نے ان کی طرف جو اشاروں کے سمجھنے کا سلیقہ سیکھ چکے ہوں ؎
ہوس بالائے منبر ہے تجھے رنگیں بیانی کی
نصیحت بھی تری صورت ہے اک افسانہ خوانی کی
نرا نظارہ ہی اے بوالہوس مقصد نہیں اس کا
بنایا ہے کسی نے کچھ سمجھ کر چشم ِ آدم کو
اگر دیکھا بھی اس نے سارے عالم کو تو کیا دیکھا
نظر آئی نہ کچھ اپنی حقیقت جام سے جم کو
شجر ہے فرقہ آرائی، تعصب ہے ثمر اس کا
یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتاہے آدم کو
تھمے کیا دیدۂ گریاں وطن کی نوحہ خوانی میں
عبادت چشم شاعر کی ہے ہر دم با وضو رہنا
ایک دن مجھے کسی شخص نے پوچھا کہ پاگل کی تعریف کیا ہے؟ میں نے کہا وہ شخص جسے اقبال کی شاعری جگا نہ سکے۔ وہ بولا جسٹس (ریٹائرڈ) مارکنڈے کاٹجو نے شاید اسی لئے کہا تھا کہ ملک کی نوے فیصد آبادی کے دماغ میں بھوسہ بھرا ہے۔ میں نے کہا تھا کہ کاٹجو صاحب کے اس مبالغہ آمیز ریمارک میں مصلحت ظاہر ہے۔ ایک اور دوست نے مجھے ایک دن پتے کی بات بتائی تھی کہ جنہیں اقبال کی شاعری بھی نہ جگا سکی انہیں فیس بک رات رات بھر جگا کے رکھنے میں کامیاب ہوا!شاید یہی وجہ ہو کہ بقول کسے، پہلے آسمانوں میں شادیاں طے ہوتی تھیں مگر اب آستانوں میں!بہرحال بات جگانے کی ہے، بات بیداری کی ہے۔انسان کسی بھی قوم، فرقے اور نسل سے تعلق رکھتا ہو، اگر واقعی اس کی چاہت ہے کہ وہ نیند سے بیدار ہوجائے تو اقبال کی شاعری آنکھیں کھولنے لے لئے مجرب نسخہ ہے ؎
کیا رفعت کی لذت سے نہ دل کو آشنا تو نے
گزاری عمر پستی میں مثال نقشِ پا تو نے
فدا کرتا رہا دل کو حسنیوںکی اداؤں پر
مگر دیکھی نہ اس آئینے میں اپنی ادا تو نے
تعصب چھوڑ ناداں! دہر کے آئینہ خانے میں
یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے بُرا تو نے
صفائے دل کو کیا آرائش رنگ تعلق سے
کف ِ آئینہ پر باندھی ہے او ناداں حنا تو نے
زمیں کیا آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے
غضب ہے سطر قرآں کو چلیپا کر دیا تو نے
زباں سے گر کیا توحید کا دعوی تو کیا حاصل
بنایا ہے بتِ پندار کو اپنا خدا تونے
ایک اور جگہ فرماتے ہیں ؎
کنویں میں تو نے یوسفؑ کو جو دیکھا بھی تو کیا دیکھا
ارے غافل جو مطلق تھا مقید کر دیا تونے
علامہ ہمیشہ خودی پر زور دیتے رہے ہیں۔ یہ خودی کیا ہے؟ اس پر سینکڑوں بلکہ غالباً ہزاروں کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور برابر یہ سلسلہ جاری ہے مگر پھر بھی کسی ایک تفسیر پر اتفاق رائے قائم نہیں ہوسکا ہے کہ خودی آخر کیا چیز ہے؟ ہر کسی نے اپنی عقلی استعداد اور روحانی مناسبت سے اقبال کی خودی کے فلسفے پر بات کی ہے اور عالموں اور محققوں کی خودی پر مختلف آرا سے علوم کے ذخائر بنتے چلے گئے ؎
خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
خودی کی خلوتوں میں کبریائی
زمین و آسمان و کرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی!
ایک جگہ فرماتے ہیں ع
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
یہ ذرۂ بے مقدار اقبال کی شاعری پر کیا بات کرے؟ یہ کام تو ادبی پہلوانوں کا ہے کہ اس میدان میں مشق آزمائی کریں۔ اقبال کے کلام پر اس ناکارہ آوارہ کی بات گویا اس لطیفے کے موافق ہے جب ایک ہاتھی نے ایک چیونٹی کو چھیڑا تو وہ چیونٹی ہتھنی کے پاس گئی اور اس سے کہا: بہن اپنے میاں کو سمجھاؤ، ورنہ مرد ہمارے گھر میں بھی ہیں۔
تاہم اللہ تبارک وتعالی نے مجھے بھی لکھنے اور بات کرنے کی جو میرے لائق استعداد بخشی ہے، اسی کو کام میں لاکر بات کررہا ہوں کیونکہ اقبال سے مجھے بھی محبت ہے۔ اس پر کنور مہندر سنگھ بیدی کا ایک شعر یاد آیا جو اس نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں نذرانہ ٔعقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا ؎
عشق ہوجائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمد ؐ پہ اجارہ تو نہیں
خیر بات ہورہی اقبال کی۔ ان کا ہی شعر ہے ؎
اے جُوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تُند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
صُبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جِبرئیل ؑ نے
جو عقل کا غلام ہو، وہ دِل نہ کر قبول
اقبالؔ کو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئی سلطان احمد شہباز صدیقی صاحب کہتے ہیں ؎
تیرے فن کے روبرو باطل ہے سحر سامری
جزو ہے پیغمبری کا تیری کامل شاعری
شاعران ِ دہر میں رکھتا ہے تو اعلیٰ مقام
اپنے ہم عصروں میں حاصل ہے تجھے شان امام
مرحبا فکر ونظر کا شعر میں یہ اہتمام
انفرادی ہے تیرا طرز نگارش لاکلام
جب کھلاتی گل مضمون تیری شاخ قلم
صفحہ ٔ قرطاس بن جاتا ہے گلزار ارم
ہوتے ہی پیدا صریرخامہ جادورقم
جاگ اٹھتے ہیں معانی چھوڑ کر خواب عدم
……………………….
(بقیہ منگل کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)