گندو// دار العلوم دیوبند محض در و دیوار یا کسی عمارت کا نام نہیں بلکہ ایک عظیم تحریک، علمی و روحانی مرکز اور عالمی شہرت یافتہ ادارے کا نام ہے جو جامعیت و عظمت اور شہرت و مقبولیت اس ادارے کو حاصل ہے اس کی مثال تاریخ کے اوراق میں شاید ہی کہیں مل سکے۔ ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مجلس تحفظ سنت ضلع رام بن کے نائب صدر مولانا نذیر احمد نے کہا ہے کہ علماء دیوبند کے افکار و خیالات اور کردار و مجاہدے کے حوالے سے کئی اہم اور بنیادی چیزوںپر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ دارالعلوم دیوبند مسلمانوں کے دلوں کی آرزو اور ملت اسلامیہ کے سینے میں دھڑکتے ہوئے دل کی حیثیت رکھتا ہے۔ گزشتہ روز مدرسہ شمس ا لعلوم کاہرہ گندو کے سالانہ جلسۂ دستاربندی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ادارہ ایک ایسا تناور درخت ہے جس کی جڑیں زمین میں گہرائی سے پیوستہ ہیں۔ اور اس کی شاخیں برگ وبار سمیت دور تک پھیلی ہوئی ہیں دنیا کا کوئی ایسا خطہ نہیں ہے جہاں بالواسطہ یا بلاواسطہ دار العلوم دیوبند کے فیض یافتہ علماء و فضلاء اشاعت دین اور تحفظ دین کی خدمات انجام نہ دے رہے ہوں۔ یہی علماء شریعت کے سچے پاسبان، نبی ؐ کے صحیح و کامل پیروکار اور صحابہ کرام کے حقیقی جانثار ہیں۔ جب اور جہاں بھی اسلام کے نام سے اس کی غلط تشریحات کرنے والے میدان میں آئے یا پھر کسی خارجی یا داخلی فتنے نے پنپنے کی کوشش کی تو علماء حق، علماء دیوبندہی سیسہ پلائی دیوار بن کر سامنے آئے اور باطل کا بھرپور مقابلہ کیا۔ اور اسلام کی صحیح ترجمانی کی۔ فکر دیوبند کے علماء ربانیین اس فلائی سیٹلائٹ کی طرح ہیں جو خلا میں رہ کر دنیا کی حرکات و سکنات پر نگاہ رکھتا ہے بالکل اسی طرح علماء دیوبند بھی سیٹلائٹ بن کر امت کی ایک ایک حرکت پر مومنانہ فراست کے ساتھ دوربیں نگاہ رکھتے ہیںکہ کہیں امت بہک کر صراط مستقیم سے ہٹ نہ جائے۔ بسااوقات غلط ا فکار و نظریات کی دین کے نام سے تشریح کرتے ہوئے جب پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے تو یہی علماء دیوبند مادی مفادات اور عامۃ الناس کی تعریف و توصیف سے بے پرواہ ہوکر محض رب کی خوشنوی کے لئے تحفظ دین کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اس لئے عوام الناس کو چاہئیے کہ وہ علماء حق کے ساتھ مضبوط و مستحکم رابطہ بنائے رکھیں کیونکہ آئے دن باطل کی طرف سے نئے نئے فتنے اور مسائل پیدا کئے جارہے ہیں ۔جیسا کہ گزشتہ دنوں وندے ماترم، سوریا نمسکار، طلاق ثلاثہ اور بغیر محرم کے خواتین کا حج کے لئے جاناوغیرہ مسائل کے ذریعہ سے دین میں صریح طور پر مداخلت کی گئی۔ مسلمانوں کو چاہئیے کہ وہ اپنی ایمانی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے باطل کے ناپاک عزائم کو علماء کی رہنمائی میں مسترد کریں۔