بلال احمد پرے ۔ترال
ماہِ صیام شہرہ القرآن کے ساتھ ساتھ شہر المواسات ہے ۔ یہ سخاوت، ہمدردی اور خیر خواہی کا مہینہ ہے ۔ یہ غریبوں، محتاجوں، بیواؤں، مسکینوں و دیگر ضرورت مندوں کی امید کا سہارا ہے ۔ قرآن کریم نے سورۃ بنی اسرائیل کے اندر واضح طور پر ہدایت فرمائی ہے کہ ’’ مسکینوں اور مسافروں کو ان کا حق دو، مال کو فضول خرچی میں نہ اُڑاؤ، نہ بخل کرو، نہ ہاتھ اتنا کشادہ رکھو کہ کل کو پچھتانا پڑے ۔‘‘
قرآن نے ایک ایسا لائحہ عمل تجویز کیا ہے کہ بخل و نفاق جیسے مرض کا علاج انفاق سے کیا ہے جو انسان کے دل سے حُبِ مال کو نکال کر جذبہء ایثار پیدا کر دیتا ہے ۔ اور اللہ کی راہ میں بے خوف و خطر خرچ کرنے پر آمادہ کرتا ہے ۔ اس مقدس مہینے میں نبی اکرمؐکے انفاق کا معمول ’’ تیز آندھی کے مانند ‘‘ ہوا کرتا تھا۔ حالانکہ بدنی عبادت کے مقابلے میں مالی عبادت ہی زیادہ گراں گزرتی ہے ۔ اسی لئے اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ ’’ جو اپنے دل کی تنگی سے بچا لئےگئے، وہی فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘ (الحشر: 9)
اسی طرح کا ارشاد ہے کہ ’’نفس کی حرص سے بچنے والے کامیاب ہو گئے ۔‘‘(التغابن: 16)حضرت ابو طلحہؓ نے اپنی ساری چیزوں میں سب سے زیادہ محبوب باغ ‘تبیرحاء کو اللہ کی راہ میں صدقہ کیا ۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے کہ ’’تم نیکی کے بلند مقام تک نہیں پہنچ سکتے جب تک وہ چیزیں خرچ نہ کرو جو تمہیں زیادہ محبوب ہیں ۔‘‘ (آل عمران؛ 92)
یہاں واضح طور پر ہدایت فرمائی گئی ہے کہ صرف خراب اور کم تر قسم کی چیزیں صدقہ نہ کیا کرو بلکہ اعلیٰ قسم اور محبوب ترین چیزیں ہی صدقہ کیا کرو تاکہ ان چیزوں کی محبت ہمارے دلوں میں گھر کرنے کے بجائے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی محبت پیدا ہو سکیں ۔ فقراء کے ساتھ ہمدردی و خیر خواہی کرنا، ضرورت مندوں سے حُسن سلوک سے پیش آنا، محتاجوں اور مسکینوں سے سخاوت برتنا اور اُنہیں اپنے حلال مال سے تعاون دینے سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں ہو سکتی ہے ۔
رسول اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص کسی مسلمان کو ضرورت کے وقت کپڑا پہنائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کا سبز لباس پہنائے گا ۔ جو شخص کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کچھ کِھلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے پھل کِھلائے گا ۔ جو شخص کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کی ایسی شراب پلائے گا جس پر مہر لگی ہوئی ہوگی ۔‘‘ (الترمذی: 2449)
اس مبارک مہینے کے اب چند دن باقی ہیں۔اس لئے غریب، نادار، لاچار، بےکس، ضعیف، کمزور، ناتوان، بیمار، مفلوک الحال، فقیر، خیراتی و فلاحی ادارے، اسلامی مدارس، یتیم خانے جیسے سبھی مستحقین کو دل کھول کر مالی تعاون کریں، غرباء کی دل جوئی اور کُشادہ قلبی کا اظہار کریں اور اللہ کی راہ میں اعلانیہ و خفیہ طریقے سے خرچ کیا کریں ۔ اس کا ثواب ستّر گُنا ملے گا۔ لہٰذا ایسے مستحقین کی نشاندہی کر کے انہیں بھر پور امداد کرنے میں پہل کریں ۔چونکہ قرآن کریم میں صلوٰۃ کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ کا حکم آیا ہے ۔ زکوٰۃ ایمان کا ایک بنیادی فرض ہے جس سے ہر صاحبِ نصاب کو بِلا تاخیر نماز کی طرح ادا کرنا چاہئے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’صدقات تو بس محتاجوں، مسکینوں، عاملین صدقات اور تالیف قلوب کے سزاواروں کیلئے، اور گردنوں کے چھڑانے، تاوان زدوں کے سنبھالنے، اللہ کی راہ میں اور مسافروں کی امداد میں خرچ کیے جائیں ۔ یہ اللہ کا مقرر کردہ فریضہ ہے اور اللہ علم والا اور حکمت والا ہے ۔‘‘ (التوبہ؛ 60)
سورۃ التوبہ کی رہنمائی میں یہ آٹھ مصارف یوں واضع فرمائے گئے ہیں: �فقیر یعنی جس کے پاس ضرورت سے کم ہو۔�مسکین یعنی جس کے پاس کچھ نہیں ہو� عامِلین یعنی زکوٰۃ جمع کرنے، اس کی حفاظت کرنے، حساب کتاب رکھنے والے� مولفۃ القلوب یعنی جن کی تالیف قلبی مقصود ہو� رِقاب یعنی غلام کی گردن آزاد کرنے �
غارِم یعنی وہ قرض دار لوگ جن کے اثاثے قرض کی ادائیگی کے لئے کافی نہ ہو� فِی سَبِیلِ اللہ یعنی اعلائے کلمتہ اللہ اور علم شرعی حاصل کرنے والوں کے لئے� اِبن سبیل یعنی ایسا مسافر جن کے پاس زاد راہ ختم ہو چکا ہو ۔
چونکہ منظم طریقے کا فقدان تو ضرور ہے، جس سے مستحقین میں زکوٰۃ و صدقات کو دینے سے قبل اور لینے کے بعد کوئی نمایاں معاشی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے ۔ ہمیں اپنے اپنے علاقوں میں اس بات پر زور دینا چاہیے کہ ہم اس سے بھیک مانگنے سے پاک (No Beggars Area) قرار دے سکیں ۔اللہ کی راہ میں امداد، زکوٰۃ، صدقات، خیرات دینے سے قبل ایسے آداب کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے جن سے یہ عمل زیادہ سے زیادہ اجر پائے اور اللہ کے ہاں قابل قبول بن جائے ۔الغرض اللہ کے بندوں کی ضروریات بلا تفریق مسلک و ملت، رنگ و نسل، ذات پات پوری کرنا ضروری ہے اور یہ نہ صرف ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے بلکہ دین کا ایک فریضہ بھی ہے ۔
(رابطہ ۔ 9858109109)
[email protected]