۔1989میں جب کشمیر میں مسلح مزاحمت شروع ہوئی تو مزاحمت کاروں کے بارے میں اُس وقت نئی دلی کے حکمرانوں کا کہنا تھا کہ ’’یہاں کی اکثریت امن پسند ہیں، چند گمراہ نوجوان ہیں جو راستہ بھٹک گئے ہیں، وہ بھی ہمارے ہی بچے ہیں ، ہمیں اُمید ہے کہ وہ یہ راستہ ترک کرکے قومی دھارے میں شامل ہونگے۔ـ‘‘ اس اپیل کا اثر یہ ہوا کہ قومی دھارے والی سیاست کے سُرخیل ہی مزاحمت کے نقیب بن گئے۔ مرحوم عبدالغنی لون اور سید علی گیلانی نے انتخابی سیاست کو خیرباد کہہ دیا اور پانچ سال تک کشمیر مزاحمت اور انسداد مزاحمت سے لہولہو ہوتا رہا۔ پھر جب فاروق عبداللہ کو اقتدار کی نیلم پری سے ہمکنار ہونے کا موقعہ ملا تو انہوں نے حریت قیادت پر چرارشریف کی تعمیر نو کے لئے جمع کئے گئے عطیات میں خرد برد کا الزام عائد کیا۔ وہ مسلح مزاحمت کاروں کے خلاف تلخ باتیں کہتے تھے، انہوں نے ٹاسک فورس تشکیل دیا، کوکہ پرے کی قیادت والی سرکاری ملیشیا کی حمایت اور سرپرستی کی، انہوں نے بار بار حکومت ہند سے کہا کہ پاکستان میں موجود ملی ٹینٹ کیمپوں پر بمباری کرکے قصہ مختصر کیا جائے۔
اس کے بعد لہجوں کی سیاست کے سب سے بڑے سُورما مرحوم مفتی سعید سٹیج پر آئے اور حکومت ہند کو یقین دلایا کہ وہ احساسات کی سیاسی انجینئرنگ کرکے مزاحمتی سیاست کو مات دے دیں گے۔ کچھ عرصہ تک ایسا محسوس بھی ہوا ، کیونکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کا ٰیخ پگھلنے لگا، حریت کانفرنس ماڈریٹ اور ہارڈلائن خانوں میں بٹ گئی اور لوگ جم کر ووٹ ڈالنے لگے۔ اب تو یہ معلوم حقیقت ہے کہ مفتی مرحو م کے ہاتھ میں اللہ دین کا چراغ نہیں تھا۔راولپنڈی سے راولا کوٹ تک کئی خارجی عوامل تھے جن کی بدولت مفتی تبدیلی کے رتھ پر سوار ہوکر کشمیریوں کے مسیحا کہلانے پر مُصر ہوئے۔انہوں نے فاروق عبداللہ کے لہجے کو مسترد کردیا اور کہا کہ کشمیر میں اصلی جنگ خیالات کی ہے۔وہ Battle of Ideas کا نعرہ دیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو حل کرنا چاہتے تھے۔ ان کا آئیڈیا سوائے اس کے کہ کشمیر یوں کو خودحکمرانی کا حق دیا جائے، کبھی کسی واضح اور غیرمبہم صورت میں سامنے نہیں آیا۔ لیکن خیالات کی جنگ شروع ہوچکی تھی، کیونکہ اُسوقت کے مرکزی وزیرداخلہ پی چدامبرم برملا کہہ چکے تھے کہ کشمیریوں کے تاثرات کو تبدیل کرنے کے لئے خفیہ ڈپلومیسی کی ضرورت ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خیالات کی اس جنگ کے نتائج سے متعلق حساس عوامی حلقوں میں کوئی بحث نہیں ہوتی۔ فی الوقت حزن ویاس اور نااُمیدی کے جذبات سینوں میں دفن ہیں جنہیں ظاہر کرنے سے بھی لوگ کتراتے ہیں۔ طبعی طور پر کشمیر کی جنگ میں بلاشبہ غالب فریق حاوی ہے، لیکن دلی والوں نے خیالات کی جس جنگ کو متعارف کرایا تھا وہ جنگ عوام نے جیت لی ہے یا نئی دلی نے؟اس کا دیانت دارانہ تجزیہ ضروری ہے۔
نوے کی دہائی میں ہندنواز مین سٹریم لہجے کا تقابل آج کی سیاسی آوازوں کے ساتھ کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ عوام کی بے پناہ قربانیوں نے لہجوںکو کس طرح مزاحمت کا بالواسطہ وکیل بنا کے رکھ دیا۔آج ایک منتخب رکن اسمبلی انجینئررشید ایوان میں کھڑے ہوکر کشمیریوں کے لئے رائے شماری کا مطالبہ کرتا ہے، پاکستان پر بمباری کرنے کو خواہاں اور حریت والوں کو سمندربرد کرنے کی سفارش کرنے والا فاروق عبداللہ ہلاکتوں کو نسل کشی کہتا ہے اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا ڈول پیٹ رہا ہے، منموہن سنگھ کی حکومت میںمرکزی وزیر رہ چکے سیف الدین سوز کہتے ہیں کہ کشمیر یوں پر ظلم ڈھاکر بھارت خود اپنی سالمیت کو خطرے میں ڈال رہا ہے اور جموں کے بھیم سنگھ کہتے ہیں کہ بھارت احسان فراموش ہے کہ جن لوگوں نے 1947میں قبائیلی حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کرکے بھارت کا کشمیر میں داخلہ ممکن بنایا ،اُن ہی لوگوں کو تہہ تیغ کیا جارہا ہے۔ آج کی تاریخ میں کوئی بھی اقتدارنواز یہ کہنے کی جرأت نہیں جٹا پائے گا کہ کشمیریوں کی مزاحمت بے مطلب ہے یا یہ کہ کشمیری بھارت کے ساتھ محفوظ ہیں۔ گول مول کرکے سب لہجوں کا مفہوم یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کشمیریوں کے ساتھ مل کر مسئلہ کا منصفانہ حل تلاش کریں۔ جو خیال حکومت ہند کے بقول کل ’’مٹھی بھرنوجوانوں کی گمراہی ‘‘ کی پیداوار تھا، وہی خیال آج سیاست کی تقسیم کے آر پار ایک مین سٹریم خیال بن چکا ہے۔ بالخصوص گزشتہ دہائی (امرناتھ قضیہ سے مابعد برہان تک)کے دوران مزاحمتی خیمہ میں بھی ماڈریٹ اور ہارڈ لائن کی دیواریں گر گئی ہیں، اور سبھی قائدین ایک ہی صفحہ پر نظر آتے ہیں۔ اگر واقعی خیالات کی جنگ ہوئی تھی تو دیانت دارمبصر اس کے نتائج کو آسانی سے اخذ کرسکتے ہیں۔ یہ جنگ عوام نے جیت لی ہے۔
لیکن مسلح جنگ اور خیالات کی جنگ کے نتائج میں فرق ہوتا ہے۔ مسلح جنگ میں اگر کسی فریق نے کسی قطعہ زمین پر قبضہ کرلیا یا اسے قبضے سے چھڑا لیا تو یہ طبعی نتیجہ ناقابل تغیر ہوتا ہے۔ خیالات کی جنگ کے نتائج نازک یعنی Fragileہوتے ہیں۔ اگر خیالات کی جنگ میں کسی فریق کو فتح ہوتی ہے تو اس فتح کو دیرپا اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے بے پناہ بصیرت، دُوراندیشی ، تدبر اور حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ دلی نے خیالات کی جنگ میں شکست تسلیم کرلی ہے، اور اس کا یہ اعتراف اُن تمام حربوں سے عیاں ہے جو اس جنگ کے نتائج اُلٹنے کرنے کیلئے سپریم کورٹ سے راج بھون تک آزمائے جارہے ہیں۔ کیا دلی خیالات کی جنگ میں کشمیریوں کی فتح کو Reverseکرپائے گی؟ کیا کشمیری اس فتح کو سیاسی قوت بناکر مزاحمت کو ریلونٹ رکھنے میں کامیاب ہونگے؟ نئے سال میں یہ دو سوالات حساس حلقوں کو متجسس کریں گے؟
بشکریہ: ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر